کوزے کی کیا مجال جو دریا سما سکے
کوزہ ہے جس کے ہاتھ میں تاثیر اس کی ہے
اس منفرد شعر کے خالق نوشاد ناداں کا تعلق بھارت کی ریاست بہار کے شہر گیا سے ہے جہاں وہ 22 نومبر 1975 کو پیدا ہوئے جن کے والد صاحب کا نام قمرالدین اور والدہ محترمہ کا نام سکینہ خاتون ہے ۔ نوشاد ناداں صاحب کا اصل اور پورا نام محمد نوشاد احمد اور تخلص ناداں ہے اور وہ پیشے کے لحاظ سے ٹیلر ماسٹر ہیں ۔
ناداں صاحب نے 2000 عیسوی سن سے شاعری کا آغاز کیا ۔ شاعری میں ان کے 2 اساتذہ کرام ہیں ایک ندیم جعفری صاحب اور دوسرے فرحت القادری صاحب ہیں ۔ نوشاد ناداں صاحب کی تخلیقات بھارت کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں جن میں آندھرا، شاعر، بین الاقوامی صدا، پالیکا سماچار، صورت و دیگر اخبارات اور رسائل شامل ہیں ۔ وہ جن شعراء سے زیادہ متاثر ہیں ان میں میر، غالب،اقبال، راحت اندوروی اور وسیم بریلوی شامل ہیں ۔
جناب نوشاد ناداں صاحب کی کی شاعری سے 2 غزلیں قارئین کے ذوق کی نذر ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
حقیقتوں کو فسانہ نھیں بنا سکتا
میں عاشقوں کو دوانہ نھیں بنا سکتا
ستم ظریف بھی ھے وقت
مھرباں بھی ھے
میں ساعتوں کو نشانہ نھیں بنا سکتا
جدید شعر و سخن کی جھلک دکھاتا ھوں
میں عھدِ نو کو پرانا نھیں بنا سکتا
کھاں سے تاب تری دید کی میں لاٶں گا
تری گلی میں ٹھکانہ نھیں بنا سکتا
کھیں نہ روحِ انیس و دبیر چیخ اثھے
میں مرثیے کو ترانہ نھیں بنا سکتا
وہ میرا دوست بلا سے کمال والا ھے
مجھے حبیبِ زمانہ نھیں بنا سکتا
اے میرے نفس مجھے چھوڑ آج جانے دے
”میں روز روز بھانہ نھیں بنا سکتا“
سجاٶں بزمِ محبت میں ہر گھڑی ناداں
رقیب ، وقتِ روانہ نھیں بنا سکتا۔۔۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قھرِ خدا کے سامنے معصوم کی طرح
ظالم کو میں نے دیکھا ھے مظلوم کی طرح
ماحول ھے وبا کا یہ ھملوگ زد میں ھیں
ساری فضاٸیں آج ھیں مسموم کی طرح
خاموش رہ کے ظلم کو دیتے رھے فروغ
مجبور ھم بھی ہو گۓ مرحوم کی طرح
یہ مسئلے اگر نھیں تو زندگی نھیں
دونوں یہاں ھیں لازم و ملزوم کی طرح
کرتے رھے مناظرِ قدرت بھی شاعری
جھرنے سے پانی گرتا ھے منظوم کی طرح
پنچھی نے اپنے حصے کا دانہ دیا ہمیں
انسانیت کی جا نھیں معدوم کی طرح
ناداں ھمارے سینے میں ھیں غم بھی تہ بہ تہ
ھم پھر بھی مسکراتے ھیں مخدوم کی طرح
نوشاد ناداں