آج – ٩؍اکتوبر ١٩٥٠
روزنامہ ' ملک و ملت' کے مدیر، ماہرِ علم متداولہ اور ممتاز و معروف شاعر” ناطقؔ لکھنؤی صاحب “ کا یومِ وفات…
ناطقؔ لکھنؤی نام سیّد ابوالعلیٰ سعید احمد، ناطقؔ تخلص۔ آپ کے جد اعلا بغداد سے ہندوستان آئے اور ضلع بارہ بنکی میں قصبہ دیوا، آباد کیا۔ ناطقؔ ۱۸۷۸ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور یہیں تعلیم وتربیت پائی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں علوم متداولہ سے فارغ ہوئے۔ طب کی تعلیم بھی حاصل کی۔ ابتدا میں تصنیف وتالیف کو ذریعہ معاش بنایا۔ بعد ازاں کانپور کے ایک اردو اخبار کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ حیدرآباد (دکن) کے اخبار ’’ملک و ملت‘‘ کے ادارتی فرائض بھی انجام دیے۔۱۹۱۷ء میں مستقلاً کلکتہ آگئے اور وہیں طبابت کرنے لگے۔ تقسیمِ ہند کے بعد سابق مشرقی پاکستان چلے گئے۔ ۹ ؍ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو چاٹگام میں انتقال کرگئے۔ مختلف علوم وفنون پر ان کی متعدد کتابیں یادگار ہیں۔ ان کی چندتصانیف کے نام یہ ہیں: ’’اسرارِ حقیقت‘‘ ، ’’افسانہ شہرِ آشوب‘‘ ’’نشانِ معرفت‘‘، ’’دیوانِ ناطق‘‘، ’’مصحفِ ناطق‘‘ ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:279
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر ناطقؔ لکھنؤی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
دوبارہ دل میں کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تمہاری پہلی نظر کا جواب ہو نہ سکا
—
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
—
مری جانب سے ان کے دل میں کس شکوے پہ کینہ ہے
وہ شکوہ جو زباں پر کیا ابھی دل میں نہیں آیا
—
برباد خاکِ دل ہے تو احسانِ حسن کیا
میں سر بلند عشق کی افتاد سے ہوا
—
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
—
آزادیوں کا حق نہ ادا ہم سے ہو سکا
انجام یہ ہوا کہ گرفتار ہو گئے
—
دل ہے کس کا جس میں ارماں آپ کا رہتا نہیں
فرق اتنا ہے کہ سب کہتے ہیں میں کہتا نہیں
—
ابتدا سے آج تک ناطقؔ کی یہ ہے سرگزشت
پہلے چپ تھا پھر ہوا دیوانہ اب بے ہوش ہے
—
وقت رخصت چلتے چلتے کہہ گئے
اب جو ارماں رہ گئے سو رہ گئے
—
مری جانب سے ان کے دل میں کس شکوے پہ کینہ ہے
وہ شکوہ جو زباں پر کیا ابھی دل میں نہیں آیا
—
میکشو مے کی کمی بیشی پہ ناحق جوش ہے
یہ تو ساقی جانتا ہے کس کو کتنا ہوش ہے
—
سجدے میں مر گیا اگر پھر نہ اٹھے گا حشر تک
قید نہ رکھیے وقت کی میرے لیے نماز میں
—
ان کے لب پر ذکر آیا بے حجابانہ میرا
منزلِ تکمیل تک پہونچا اب افسانہ میرا
—
ہم سے اس عشقِ مجازی کی حقیقت پوچھو
کہ یہ بت جب نہیں ملتے تو خدا ملتا ہے
—
کیوں بحر محبت میں ہے خوف اجل ناطقؔ
مرنے کو تو مرتے ہیں دریا کے کنارے بھی
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
ناطقؔ لکھنؤی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ