::: ناتھالی اینچھینا سررات (Nathalie (Tcherniak) Sarraute) : روسی نژاد فرانسیسی فکشن نگار :::
"کسی کو پڑھے بغیر لکھنا نہیں پڑا – آپ کو لکھنے سے پہلے پڑھنا پڑتا ہے -اور جامعات پڑھنے کا ایک بہت اچھا موقع فراہم کرتی ہیں۔ "{. ناتھالی سرراٹ}
تین عشرے قبل فہیم اعظمی مرحوم نے ناتھالی سررات کا مجھ سے تعارف کروایا تھا اور ان کا کھوج لگا کر انھیں پڑھنے کا کہاتھا ۔ اور کہنے لگے " یار پڑھ کر بتاؤ ۔ یہ چیز کیا ھے"؟۔۔۔ میں نے مسکر اکر ہاں بھر لی۔پھر ان کی موت تک وقفے وقفے سے ان سے ناتھالی سرات کے فکشن اور ادبی نظریات پر بحث و مباحثہ ھوتا رہا۔ مجھے بھی احساس ھوا کی فہیم اعظمی نے اچھی ادیبہ سے متعارف کروایا ھے۔ پھر میں نے تلاش کرکے ناتھالی سرات کی کتاب ۔۔PORTRATE OF A MAN UNKNOWN ….. پڑھ ڈالی۔ اور کئی دن اس کتاب کے سحر میں گرفتار رہا۔
روسی نژاد ادیبہ ناتھالی سررات فرانسیسی فکشن کا ایک ایسا نام ھے جس پر اردو میں نہ ھونے کے برابر لکھا گیا ، انکا نام بھی نہیں سنا اور نہ ان پر بات کی گئی۔ حالانکہ ان کا ادبی سرمایہ بہت توانا ھے۔ وہ محض ایک فکش نگار ھی نہیں بلکہ انکی تخلیقیت میں جدید ادبی نظریات کی کئی کرنیں پھوٹتی ہیں۔
ناتھالی سررات ماسکو سے تیں (300) کلو میٹر دور ایک گاون ایوانا کوویسکا میں پیدا ھوئیں۔ ان کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ وہ والدیں کی طلاق کے بعد 1909 میں اپنے والد کے ساتھ پیرس منتقل ھوگئی۔ اسی دوران کبھی کبھار ان کا روس بھی آنا جانا ھوتا رہا۔۔ ناتھالی سرات نے فرانس کے مایہ ناز تعلیمی ادارے " سون برگ" میں " عصری ادب" کے تحت مارسل پراؤست اور ورجینا ولف کا تقابلی مطالعہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے آکسفورڈ آکر تاریخ کا مطالعہ کیا بھر برلن یونیورسٹی سے عمرانیات ( سماجیات) میں سند حاصل کی۔ پھر انھوں نے فرانسیسی " بار (BAR) کا امتحان پاس کرکے وکالت شروع کی۔ 1925 میں ایک وکیل ریمنڈ سرات سے شادی کی جن سے ان کی تیں (3) بیٹیاں ھوئیں۔ 1932 میں ان کے خاکوں (اسکیچزز) کی کتاب ۔۔۔"TROPISMES" شائع ھوئی۔ اس کی دوباری اشاعت 1957 میں ھوئی ۔ ناتھالی سرات نے اس کتاب کو اپنے ایک مصاحبے میں " شاعرانہ حسیت" کہا ھے۔ 1963 میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ھوا۔انھوںنے ڈرامے بھی لکھے۔ ان کے لیے کہا جاتا ھے کہ وہ ایسی تخلیق کار ہیں جیسے " روح کا جاسوس " بھی کہا جاتا ھے۔ کیونکہ ان کا افسانوی تخلیق کاری کھوکھلی اور بناوٹی مسکان کے پیچھے چھپے ھوئے سچ کو پانا چاھتی ھے۔انھون نے " خاتوں ادیبہ" اور " یہودی ادیبہ" کی اصطلاح کو سختی سے مسترد کیا۔ ان ک تصانیف کا چوبیس (24) زبانوں میں ترجمہ ھوچکا ھے۔۔۔PORTRATE OF A MAN UNKNOWN ….. بنیادی طور پر مرد زدہ معاشرتھے خلاف ایک بھرپور احتجاج ھے۔ یہ ایک ظالم اور جابر باپ کی کہانی ھے جو جبرا اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں اور کردینا چاھتا تھا۔ اس عمومی خاندانی جبر کو ناتھالی سرات بڑے ھی خوب صورت پیرائے میں بیاں کیا ھے۔ ژان پال سارتر نے ان ناول کے متعلق لکھا ھے " ناول شکن ناول میں عام ناولوں جیسی ہیت اورنقش ونگار ھوتے ہیں و ہ تخیل کے فن پارے ہیں جن میں کہانی بناوٹی FICTICIOUS ھوتے ہیں ، انھی کی کہانی ، کہانی کار بیاں کرتا ھے اس کا کام صرف ہمیں دھوکہ دینا نہیں ھوتا اس کا مقصد یہ ھے کہ ناول خود ناول کو چیلینج کرے اسی طرح تخریب کے زریعے ناول کی تعمیر ھوتی ھے۔" ناتھالی سررات کی ایک ناول ' مارٹیریو" (1953) فرانسیسی میں چھپی۔ جس کو 1964 میں انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ اس کہانی کا مرکزی کردا ایک مدقوق نوجوان ھے۔ وہ ہمیشہ اس سراغ میں لگا رھتا ھے کی دوسرے لوگ اس سے کیا چھپارھے ہیں۔ وہ دوسروںکے باطن میں جھاکنا چاھتا ھے۔یہ کہانی انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی کے واقعے سے ابتدا کرتی ھے اور انسان کی امیرانہ زندگی کی بناوٹ اور تصنع اور غیر مخلص رویوں کی نشاندھی کرتی ھے۔ اس ناول کے متعلق ایک نقاد نے لکھا تھا ۔۔۔۔ "ناتھالی کا اسلوب عمومیت کا ایک آئینہ ھوتا ھے۔ جس میں سے خقیقی انسانی وجود دھندلا دکھائی دیتا ھے "۔۔۔۔ ( ترجمہ : فہیم اعظمی) ۔ ناتھالی سررات دوستفسکی کی نئی حقیقت پسندی سے بہت متاثر ہیں۔ انھوں نے رولان بارتھ کی طرح بالزاک جیسی حقیقی پسندی کو چیلنج کیا۔ وہ ناول میں " پراسرایت" کی منکر ہیں۔ان کی یہ سوچ انھیں ساختیاتی زمرے میں لے آتی ھے۔ اس بات سے انکار نہیں " حقیقت کے التباس" (ILLUSION OF REALITY) براسرایت کے بغیر نامکمل ھے۔ کیونکہ وہ بھی واقعیت ، صداقت اور حقیقت پسندی کی ضد ھے۔ جس کو ناتھالی سرات حقیقت سمجھ رھی ہیں وہ اصل میں " نقل" ھے۔ یہ حقیقت ھے کہ VERISIMILITUDE کے بغیر کہانی یا افسانہ تخلیق نہیں ھوسکتا۔ان کی کہانیاں علامتی نوعیت کی بھی ہیں۔ ژان پال سارتر نے ان کی ناول کو " ناول شکن کہا ھے ۔ وہ اپنی کتاب SITUATION میں لکھتے ہیں۔ ۔۔۔" ھماری ادبی دور کی سب سے زیادہ حیران کن صفات میں سے ایک یہ ھے کہ کہیں کہیں موثر اور بالکل ھی منفی فن پارے کا جنم ھوتا ھے جس کو ھم " ناول شکن "،(ANTI. NOVEL)کہ سکتے ہیں۔"۔۔ ان کی تحریریں اس بات کا احساس دلواتی ہیں کہ ان کی ناولوں کے " کردار" ادیبہ اور قاری کے درمیاں تعظیم کا رشتہ استوار کرتے ہیں۔ جو اصل میں قاری کو عمومی ثقافتی رویہ ھوتا ھے۔
ناول، افسانہ کا ایک توسیعی مکتبہ فکر اور اصناف ہے۔ جو افسانوی حقیقت پسندی کے اسلوب ا ور رواجون پر کڑی ضرب لگاتا ہے اور فرسودہ معاشرتی ڈھانچے کومسترد کرتے ہوئے عوام کے سامنے واضح بور پر سماج کی اصل اور حقیقت پسندانہ تصویر پیش کرتی ہے۔ جس میں فطریت کا احوال بھی موثر طور پر قاری کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ اور رواجوں اور روایت سے انحراف کرکے اس کو نئی شکل میں ہیش کیا جاتا ہے جو زیادہ سچا اور حقیقیت پسندانہ ہوتے ہیں جس میں انسانی رویوں کی چھپے ہوئے انسان کے موضوعی مزاج کی تطیر اور طہارت کرتے ہیں۔ سررات کو ان ناول کے اس مزاج پر روستفسکی ، پیٹرسٹ، جوائس اور ورجنیا والف اور کم از کم تین انگریزی نائجیریا کے ناولسٹ کا اثر ہے۔ ، اس میں چیز، آئیوی کامپٹن برٹیٹ، ہینری گرین اور جوائس کیری. شامل ہیں۔
وہ اپنے پڑھنے والوں کو ناول طریقہ قرات کو ضابطے کے ساتھ کرنے کو کہتی ہیں۔ اور وہ اس سلسلے میں قارئین کو کوئی رعایت نہیں دیتی سرات چاھتی ہیں کہ جو بھی انھیں پڑھے توجہ سے پڑھے اور اس کی توجہ ناول کے متن پرمرکوز ہونا چاہیے۔ ان کے فکشن میں گھریلو ملکی اور غیر ملکی مسائل ہوتے ہیں۔ جس میں واقعات کہانی بنتے ہیں۔،
ان کا خیال ہے لفظ کے عام معنی میں کوئی "حروف" نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ وہ لوگوں کو اپنے ناولوں میں نام دینے سے انکار کر دیتے ہیں؛ جو ان کے نام کے طور پر رہیں، جیسے ،"وہ" {HE} یا "وہ"{SHE}. سےایک ناول نگار جو لوگوں کے نام تجویز کرتا ہے سرات کو اپنے قارئین جڑی ہوئی نظر آتی ہیں اور ان سے محبت بھی کرتی ہیں کچھ کے نزدیک یہ ان کی قاری سے مضبوط عقیدت ہے۔ وہ باہر سے "کردار" کی شناخت کرکے؛ انھیں بہتر طور پر لوگوں تک لوگوں تک پنچاتی ہیں اور قاری اپنی ترجہیات کے تحت تسلیم اور قبول بھی کرلیتا ہے۔ اور ان کی اقسامیت بھی ابھر کر سامنے آجاتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ سررات کے ناولوں میں قاری مکمل طور پر انھیں قدامت مندانہ مزاج کی ادیبہ کے طور پر بھی محسوس کرتا ہے۔ جن میں واقعات معاشرتی مزاحیہ نوعیت کے بھی ہیں۔ ہیں یہ فرانسیسی زبان میں لکھے جانے والے کسی بھی قسم تحریروں کو عمدہ اور رسمی طور پر درست بھی کہا جاتا ہے۔
ناتھالی سررات کی تصانیف کی فہرست یہ ھے:
فکشن :
Tropismes (1939, revised 1957, as Tropisms, with The Age of Suspicion, translated by Maria Jolas, 1963).
Portrait d’un inconnu (1948, revised 1956, as Portrait of a Man Unknown, translated by Maria Jolas, 1958).
Martereau (1953, as Martereau, a Novel, translated by Maria Jolas, 1959).
Le Planétarium (1959, as The Planetarium, translated by Maria Jolas, 1960).
Les Fruits d’or (1963, as The Golden Fruits, translated by Maria Jolas, 1964).
Entre la vie et la mort (1968, as Between Life and Death, translated by Maria Jolas, 1969).
Vous les entendez? (1972, as Do You Hear Them?, translated by Maria Jolas, 1973).
“disent les imbeciles” (1976, as “fools say,” translated by Maria Jolas, 1977).
L’Usage de la parole (1980, as The Use of Speech, translated by Barbara Wright with the author, 1980).
Enfance (1983, as Childhood, translated by Barbara Wright with the author, 1984).
Tu ne t’aimes pas (1989, as You Don’t Love Yourself: A Novel, translated by Barbara Wright with the author, 1990).
Ici (1995, as Here: A Novel, translated by Barbara Wright with the author, 1997).
Ouvrez [Open], 1997.
ڈرامے:
Le Silence, suivi de Le Mensonge (1967, as Silence, and The Lie, translated by Maria Jolas, 1969).
Isma (1970, as Izzum, translated by Maria Jolas, in Collected Plays, 1980).
C’est beau (1975, as It’s Beautiful, translated by Maria Jolas, in Collected Plays, 1980).
Elle est là (1978, translated as It Is There, translated by Maria Jolas, in Collected Plays, 1980).
Théâtre (includes Elle est là, C’est beau, Isma, Le Mensonge, Le Silence) (1978).
Collected Plays (includes It Is There, It’s Beautiful, Izzum, The Lie, Silence), translated by Maria Jolas and Barbara Wright, 1980.
Pour un oui ou pour un non (1982, as For No Good Reason (1985).
*********
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔