::: ناتھالی اینچھینا سرات (Natalia Ilinichna Tcherniak ) : روسی نژاد فرانسیسی فکشن نگار :::
تین عشرے قبل فہیم اعظمی مرحوم نے ناتھالی سرات ( آمد: 18 جولائی 1900- رخصت: 199 اکتوبر 1999) کا مجھ سے تعارف کروایا تھا اور ان کا کھوج لگا کر انھیں پڑھنے کا کہاتھا ۔ اور کہنے لگے " یار پڑھ کر بتاؤ ۔ یہ چیز کیا ھے"؟۔۔۔ میں نے مسکر اکر ہاں بھر لی۔پھر ان کی موت تک وقفے وقفے سے ان سے ناتھالی سرات کے فکشن اور ادبی نظریات پر بحث و مباحثہ ھوتا رہا۔ مجھے بھی احساس ھوا کی فہیم اعظمی نے اچھی ادیبہ سے متعارف کروایا ھے۔ پھر میں نے تلاش کرکے ناتھالی سرات کی کتاب ۔۔PORTRATE OF A MAN UNKNOWN ….. پڑھ ڈالی۔ اور کئی دن اس کتاب کے سحر میں گرفتار رہا۔
روسی نژاد ادیبی ناتھالی سرات فرانسیسی فکشن کا ایک ایسا نام ھے جس پر اردو میں نہ ھونے کے برابر لکھا گیا ، انکا نام بھی نہیں سنا اور نہ ان پر بات کی گئی۔ حالانکہ ان کا ادبی سرمایہ بہت توانا ھے۔ وہ محض ایک فکش نگار ھی نہیں بلکہ انکی تخلیقیت میں جدید ادبی نظریات کی کئی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ انھوں نے فرانس کی " نئی ناول" کی ناول میں فعال کردار ادا کیا۔ وہ حریت فکر کی پرزور حامی ہیں۔ جس میں افسانوی لسان وزبان کا پختہ اسلوب نظر آتا ہے۔ ناتھالی سرات کے متعلق جودتھ جی میلر نے لکھا ہے کہ " ان کی تحریریں افسردگی اور اداسی کے باطنی اعصابی تناؤ کے تاثرات کو پیش کرتی ہیں۔ ان کی ناولین عصری ثقافت کی تمثالوں کو منفرد انداز میں اپنے اظہار کے پیرائے میں لاتی ہے۔ اور مغائرت کی اصل جوہر کو وجودی تناظر میں پیش کرتی ہیں۔
ناتھالی سرات ماسکو سے تیں (3000) کلو میٹر دور ایک گاون ایوانا کوویسکا میں پیدا ھوئیں۔ ان کا تعلق ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ وہ والدیں کی طلاق کے بعد 1909 میں اپنے والد کے ساتھ پیرس منتقل ھوگئی۔ اسی دوران کبھی کبھار ان کا روس بھی آنا جانا ھوتا رہا۔۔ ناتھالی سرات نے فرانس کے مایہ ناز تعلیمی ادارے " سون برگ" میں " عصری ادب" کے تحت مارسل پراؤست اور ورجینا ولف کا تقابلی مطالعہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے آکسفورڈ آکر تاریخ کا مطالعہ کیا بھر برلن یونیورسٹی سے عمرانیات ( سماجیات) میں سند حاصل کی۔ پھر انھوں نے فرانسیسی " بار (BAR) کا امتحان پاس کرکے وکالت شروع کی۔ 1925 میں ایک وکیل ریمنڈ سرات سے شادی کی جن سے ان کی تیں (3) بیٹیاں ھوئیں۔ 1932 میں ان کے خاکوں (اسکیچزز) کی کتاب ۔۔۔"TROPISMES" شائع ھوئی۔ اس کی دوباری اشاعت 1957 میں ھوئی ۔ ناتھالی سرات نے اس کتاب کو اپنے ایک مصاحبے میں " شاعرانہ حسیت" کہا ھے۔ 1963 میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ھوا۔انھوںنے ڈرامے بھی لکھے۔ ان کے لیے کہا جاتا ھے کہ وہ ایسی تخلیق کار ہیں جیسے " روح کا جاسوس " بھی کہا جاتا ھے۔ کیونکہ ان کا افسانوی تخلیق کاری کھوکھلی اور بناوٹی مسکان کے پیچھے چھپے ھوئے سچ کو پانا چاھتی ھے۔انھون نے " خاتوں ادیبہ" اور " یہودی ادیبہ" کی اصطلاح کو سختی سے مسترد کیا۔ ان ک تصانیف کا چوبیس (24) زبانوں میں ترجمہ ھوچکا ھے۔۔۔PORTRATE OF A MAN UNKNOWN ….. بنیادی طور پر مرد زدہ معاشرے کے خلاف ایک بھرپور احتجاج ھے۔ یہ ایک ظالم اور جابر باپ کی کہانی ھے جو جبرا اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں اور کردینا چاھتا تھا۔ اس عمومی خاندانی جبر کو ناتھالی سرات بڑے ھی خوب صورت پیرائے میں بیاں کیا ھے۔ ژان پال سارتر نے ان ناول کے متعلق لکھا ھے " ناول شکن ناول میں عام ناولوں جیسی ہیت اورنقش ونگار ھوتے ہیں و ہ تخیل کے فن پارے ہیں جن میں کہانی بناوٹی FICTICIOUS ھوتے ہیں ، انھی کی کہانی ، کہانی کار بیاں کرتا ھے اس کا کام صرف ہمیں دھوکہ دینا نہیں ھوتا اس کا مقصد یہ ھے کہ ناول خود ناول کو چیلینج کرے اسی طرح تخریب کے زریعے ناول کی تعمیر ھوتی ھے۔" ناتھالی سرات کی ایک ناول ' مارٹیریو" (1953) فرانسیسی میں چھپی۔ جس کو 1964 میں انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ اس کہانی کا مرکزی کردا ایک مدقوق نوجوان ھے۔ وہ ہمیشہ اس سراغ میں لگا رھتا ھے کی دوسرے لوگ اس سے کیا چھپارھے ہیں۔ وہ دوسروں کے باطن میں جھاکنا چاھتا ھے۔یہ کہانی انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی کے واقعے سے ابتدا کرتی ھے اور انسان کی امیرانہ زندگی کی بناوٹ اور تصنع اور غیر مخلص رویوں کی نشاندھی کرتی ھے۔ اس ناول کے متعلق ایک نقاد نے لکھا تھا ۔۔۔۔ "ناتھالی کا اسلوب عمومیت کا ایک آئینہ ھوتا ھے۔ جس میں سے خقیقی انسانی وجود دھندلا دکھائی دیتا ھے "۔۔۔۔ ( ترجمہ : فہیم اعظمی) ۔ ناتھالی سرات دوستفسکی کی نئی حقیقت پسندی سے بہت متاثر ہیں۔ انھوں نے رولان نارت کی طرح بالزاک جیسی حقیقی پسندی کو چیلنج کیا۔ وہ ناول میں " پراسرایت" کی منکر ہیں۔ان کی یہ سوچ انھیں ساختیاتی زمرے میں لے آتی ھے۔ اس بات سے انکار نہیں " حقیقت کے التباس" (ILLUSION OF REALITY) براسرایت کے بغیر نامکمل ھے۔ کیونکہ وہ بھی واقعیت ، صداقت اور حقیقت پسندی کی ضد ھے۔ جس کو ناتھالی سرات حقیقت سمجھ رھی ہیں وہ اصل میں " نقل" ھے۔ یہ حقیقت ھےکہ VERISIMILITUDE کے بغیر کہانی یا افسانہ تخلیق نہیں ھوسکتا۔ان کی کہانیاں علامتی نوعیت کی بھی ہیں۔ ژان پال سارتر نے ان کی ناول کو " ناول شکن کہا ھے ۔ وہ اپنی کتاب SITUATION میں لکھتے ہیں۔ ۔۔۔" ھماری ادبی دور کی سب سے زیادہ حیران کن صفات میں سے ایک یہ ھے کہ کہیں کہیں موثر اور بالکل ھی منفی فن پارے کا جنم ھوتا ھے جس کو ھم " ناول شکن "،(ANTI. NOVEL)کہ سکتے ہیں۔"۔۔ ان کی تحریریں اس بات کا احساس دلواتی ہیں کہ ان کی ناولوں کے " کردار" ادیبہ اور قاری کے درمیاں تعظیم کا رشتہ استوار کرتے ہیں۔ جو اصل میں قاری کا عمومی ثقافتی رویہ ھوتا ھے۔
ناتھالی سرات کی تصانیف کی فہرست یہ ھے:
Tropismes, 1939 (tr. Tropisms)
Portrait d’un inconnu, 1948 (tr. Portrait of a Man Unknown)
Martereau 1953 (novel)
L'Ère du soupçon, 1956 (tr. The Age of Suspicion) (essay)
Le Planetarium, 1959 (tr. The Planetarium) (novel)
Les Fruits d'or, 1963 (tr. The Golden Fruits ) (novel)
Le Silence 1964 (theatre)
Le Mensonge, 1966 (theatre)
Entre la vie et la mort 1968 (novel)
Isma, ou ce qui s’appelle rien 1970 (theatre)
Vous les entendez ? 1972 (novel)
C’est beau 1975 (theatre)
« disent les imbéciles », 1976 (novel)
L’Usage de la parole 1980 (tr. The Use of Speech) (novel)
Enfance 1983 (tr. Childhood) (autobiography)
Tu ne t’aimes pas 1989 (novel)
Elle est là 1993 (tr. It is There) (theatre)
Pour un oui ou pour un non 1993 (theatre))[2]
Ici 1995 (novel)
Ouvrez 1997 (novel)
Lecture 1998
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔