یہ نتاشا کا یار ہے!
یہ الزام کانوں میں ہر وقت سنائی دیتا تھا۔ نتاشا کا خوبصورت ہونا اور بڑی عمر کا ہو کر بھی ابھی تک جواں نظر آنا اس الزام کو اور بھی شہوت انگیز طور سے سچ کے دھانے پر پہنچا دیتا تھا اور پُر کشش بھی بنا دیتا تھا۔
نتاشا پہلی ہی نظر میں ایک قابل، بُردبار اور بااخلاق خاتون لگی تھی جس پر گرویدہ ہو کر دل میں ایک ’’رشتے‘‘ کی بلّی پھر روز بروز اُچھلنے لگی۔ جب معلوم پڑا کہ نتاشا کی بڑی خواہش تھی کہ اُس کی پہلی اولاد( اب آخری) لڑکا ہوتی تو اکثر سوچتا: ’’ممکن ہے مجھے دیکھ کر نتاشا کو اپنی دبی ہوئی خواہش یاد آتی ہے۔ مجھ پراپنی باقی ماندہ ممتا نچھاور کرنا چاہتی ہے لیکن اپنے شوہر کی شک کرنے والی شخصیت اور میری جوانی سے ڈر کر اُس کے لئے ایسا کرنا مشکل ہو گیا ہے تو صرف میری رسمی خدمت کر کر کے اس خواہش کے لاوے کو آہستہ آہستہ نکالتی رہتی ہے۔ اتنی خدمت! وہ بھی اپنے شوہر کے ایک معمولی نوکر کی! کہیں یہ خدمت کسی دن کوئی گل نہ کھلائے۔‘‘ فکر مند بھی رہتا۔
اُس دن راکھی بندھن کا تہوار تھا اور بڑے ارمانوں سے راکھی بندھوانے آیا تھا۔
’’نہیں! میں تمہیں بیٹے کی طرح سمجھتی ہوں اور راکھی کا بندھن بہن بھائیوں کے لئے ہوتا ہے۔ ہے نا؟‘‘ نتاشا مسکرا کر ایک خوبصورت انکار کر گئی تو انکار کی مسکراہٹ پھیل کر نتاشا کے حیران بنے شوہر (سیٹھ صاحب) اور دونوں کی گیارہ سالہ بچی کے ہونٹوں پہ بھی آ گئی۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ نتاشا کے شوہر کا، اپنے دل میں نہ جانے کب سے پلا، شک کا لاوا آج ہی پھٹ جائے گا۔ جی ہاں! شام کو، دوپہر سے شروع ہوئی لڑائی کی عمارت مکمل ہو گئی تھی جب وہ پتی پتنی کی منسٹری چھوڑ کر عام عورت مرد بن گئے تھے۔ علیحدگی!
خوشی کا گھر اب سُونا سُونا تھا کہ بیٹی کو باپ لے گیا تھا اور تناشا کے لئے صرف یہ مکان رہ گیا تھا جس کے در و دیوار نہ کسی کا درد سمجھتے تھے اور نہ ہی اصل قصوروار کو ڈھونڈ کر لاسکتے تھے۔
’’یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔‘‘ ایک قصووار نکلا۔ ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ قیامت آئے گی تو میں راکھی بندھوانے ہرگز نہ جاتا ۔اب مجھے ’’نتاشا‘‘ کو اکیلا چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اب اس کا اور کون رہ گیا ہے؟ چاہے دنیا کچھ بھی کہے مجھے۔۔‘‘
*****
سیٹھ کی سنیما کی نوکری تو غصہ سے بے شک چھوڑ دی تھی لیکن لوگوں کی گندی گندی باتیں اور الزامات کب چھوڑنے والے تھے:
’’بے شرم نوکر اپنے سابقہ مالک کی بڑی عمر کی طلاق یافتہ بیوی، بلکہ اپنی ماں برابر عمر والی ’’عورت‘‘ کے ساتھ اب بھی رنگ رلیاں منا رہا ہے۔ اتنا خراب زمانہ!__ قصور عورت کا ہی ہے جو اس بے چارے معصوم لڑکے پر اپنی جوانی اور حسن کے ڈورے ڈال کر اسے گرفتار کر بیٹھی ہے ___اچھا کیا اس کے پتی نے کہ اس پاپ کے کھیل سے خود الگ کیا، آخر کب تک ایک غیرت مند پتی یہ غلیظ کھیل دیکھتا رہتا__‘‘ اور نہ جانے کیا کیا باتیں اور الزامات؟
نتاشا جو ایک مضبوط اعصاب والی عورت بن کر زمانے بھر کی باتوں کی سختی اور زھر کو برداشت کرتی رہی تھی، ایک دن ھار کر بولی: ’’دیکھو! ہم جانتے ہیں کہ ہم کتنی پاکیزگی سے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور کس رشتے میں بندھے ہیں۔لیکن جب بھی کوئی بولتا ہے، سُنائی ہم ہی کو دیتا ہے اور یہ کمینے لوگ ’’اپنا بولنا‘‘ بند کرنے والے نہیں۔ ایک حل ہے: شادی۔‘‘ نتاشا رونے لگی’’ ہاں! میرے بیٹے ’’مجھ‘‘ سے شادی کر، تب لوگوں کے سینوں میں ٹھنڈ پڑے گی۔‘‘ یہ کہہ کر نتاشا روتی ہوئی کمرے کے اندر چلی گئی۔
’’ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن ماننا ہی پڑے گا، اور کوئی چارہ ہی نہیں۔‘‘ یہ سوچا اور آکر گھر والوں کو قصہ سنایا __ اور گھر والے کیا تھے؟ فقط ایک بوڑھا اورہمیشہ سے راضی غریب باپ اور ایک مسکین سی بیوہ بہن جو محض اس افسوس کے ساتھ راضی ہوئی کہ ’’دولہن‘‘ ذرا بڑی عمر کی ہے اگر چہ خوبصورت ہے۔
*****
شادی کی دھوم صرف ایک دو گلیاں پار کر سکی۔
دنیا کی رسموں کی آگ سے پاؤں جلاتا ہوا جب سہاگ کی سیج پر پہنچا تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ شاید ہی یہ منظر کسی نے پہلے دیکھا ہو کہ دولہن کی بجائے ایک محبوب اور مقدس ھستی پھولوں کے بستر پر سیج دھیج کے بیٹھی ہو۔ ’’ہمیں دولہا دولہن بنا کر دنیا والوں نے اچھا نہیں کیا۔‘‘ بولتی نظروں نے دنیا پر لعنت بھیجی وہ دنیا جو دلوں کو دولہا دولہن پھر بھی بنا نہیں سکتی تھی۔
اِسی رات کا نہ جانے کون سا سخت پہر تھا جب ایک گھن گرج اور چمک نے جسم اُٹھا دیاتو دیکھا، طوفان اندر ہے باہر صرف رات کے اندھیرے کا سنّاٹا ہے۔ سرخ جوڑے کی بجائے نتاشا سفید کفن پہنے بسترپر دراز تھی ۔ایک کروٹ لی تو کفن کی بجائے ململ کا کُرتہ نظر آ گیا جس کے گریباں کا ہر بٹن خواہش کی اُڑان لے اُڑی تھی اور وہاں صرف دو بپھرے ہوئے کبوتر رہ گئے تھے جو پھڑپھڑائے جا سکتے تھے کہ اُن میں بڑی جان اور جوانی نظر آتی تھی۔ سینہ سے پھسل کر نظریں نیچے آئیں۔کُرتے کا دامن اُٹھ چکا تھا۔ ’’تو چمک اسی گورے پیٹ کی تھی! __اور گھن گرج؟ __ گھن گرج میرے جسم کی طلب کی ہی تھی جس نے مجھے اُٹھایا تھا __اب اور کیا ہوگا آگے؟ __اب تمہارے لئے ’’آگے‘‘ کچھ بھی نہیں ہے، یونہی سولو، تم بد قسمت ہو، سہاگ رات کے شہید ہو تم __‘‘ اور چادرتان کر سو گیا۔ چمک اور گھن گرج زیادہ دور نہیں تھیں لیکن گندے من کا دروازہ بند ہو گیا تھا۔
’’اُٹھیے! صبح ہو گئی ہے۔‘‘ سرخ جوڑے میں ملبوس نتاشا تھی جو ہر چیز جگانے آئی تھی۔
’’اب میں جاگ گیا ہوں۔ آج ایک گہری نیند آ گئی تھی ورنہ ہر صبح میں خود ہی جاگ جاتا تھا۔ آپ نے ایسا خود بھی دیکھا تھا۔‘‘
’’ہاں! لیکن آج ’’آپ‘‘ کو جگانامیری ذمہ داری تھی کہ میں__‘‘ اور رُک گئی کہ آگے، الفاظ جلا سکتے تھے، رُلا سکتے تھے۔
بستر سے اُٹھ کر کھڑکی کے پاس آیا اور اُسے کھول کر اُس کے کے پار دیکھنے لگا۔ ’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ نتاشا نے قریب آ کر پوچھا۔
’’آنگن___سوکھا آنگن‘‘ جواب ملا۔
’’ہاں! سوکھا آنگن___لیکن رات کو__‘‘ اور پھر رُک گئی۔
’’رات کو __؟ کیا ہوا تھا؟‘‘
’’رات یہاں خوب بارش ہوئی تھی، گھن گرج، چمک والی بارش، سارا صحن بھر گیا تھا۔ یہ سب خواب میں دیکھا تھا میں نے۔‘‘ یہ کہہ کر نتاشا شرماتے ہوئے چلنے لگی۔
’’یہی خواب تو رات میرے پاس بھی آیا تھا!‘‘ حیران ہو کر سوچنے لگا ’’کاش! میں نتاشا سے پوچھتا کہ اُس کا خواب کس طرح سے بھاگ کہ میرے پاس بھی آگیا؟‘‘
*****
اب کچھ زیادہ ہی دن گزر گئے تھے،دنیا والوں کے الزاموں اور گندی باتوں سے خالی دن۔
’’آنگن اب سوکھ کر مکمل تڑخ گیا ہے، بنجر تمہیں اُٹھ رہی ہیں۔ اب کے برس بارش نہ ہوئی تو ایک قیامت برپا ہوگی یہاں __‘‘ نتاشا کا جسم بِنا بولے بولتا رہتا کہ زبان سوکھ جاتی ہے تو جسم کو بولنا ہی پڑتا ہے اور آنکھوں کو بھی۔
’’آنگن بھر گیا تو مجھے شرمندگی ہو گی۔ پھر آپ کی مقدس نظروں کا سامنا کس طرح کر پاؤں گا۔‘‘ نتاشا کو خاموش جواب ملتا رہتا۔
’’تو کیا تم اپنے دن یونہی سوکھے آنگن کو دیکھ دیکھ کر گزارو گے؟‘‘
’’ہاں! یہی میرا نصیب ہے۔‘‘
’’نصیب بنائے بھی تو جا سکتے ہیں۔‘‘
’’وہ اور لوگ ہونگے۔ اس خوشحال اور آسودہ فہرست میں میرا نام ہر گز نہیں آئے گا۔‘‘
پھر دن گزرنے لگے۔نتاشا جو ہر وقت بغیر داد کے سنگھار میں ہوتی اورخوش رنگ اور دلفریب لباس پہنتی رہتی،اب کچھ کچھ اداسی بھی لیتی رہتی۔
’’جھوٹ تھا وہ سب کچھ تمہارے من کا کہنا؟اب تم ایک بڑی کشمکش اور اُلجھن میں کیوں ہو؟؟‘‘ ضمیر سوال کرتاتو کھبی کھبی ایک بے ایمان سی خاموشی بھی چھا جاتی۔
*****
’’نتاشا!‘‘ پہلی بار پکارے گئے اس نام سے جسم کے رونگٹھے کھڑے سے ہوگئے۔
’’جی! بولو__‘‘ نتاشا نے جواب دیا جیسے اپنی ہر چیز دینے کے لئے تیار ہو۔
’’مجھے کوئی لوری سُنائیے!‘‘ اور روہانسا ہو کر نتاشا کی گرم اور جواں گود میں اپنا سر رکھ دیا جہاں سوکھے آنگن کی مہک آتی تھی۔
ٹپ، ٹپ، ٹپ__ لوری نہیں نتاشا کے آنسو بولنے لگے کہ ایک ’’جسم‘‘ کے قربت تلے رہ کر پھر بھی اسکی ’’لذت‘‘ اور ’’خوشی‘‘سے محروم ایک ’’کنوارے‘‘ کے جذبوں اور احساسات کو وہ بھانپ گئی تھی۔
’’کاش! میری بیٹی ’’تمہاری‘‘ بیوی ہوتی اور تم __‘‘ نتاشا صرف اتنا بول سکی اور پھر ایک خاموشی چھا گئی۔ تہہ در تہہ سوکھا آنگن کو بھرنے کے لئے ایک بڑے زور کی گھن گرج اور چمک والی بارش کی ضرورت تھی ۔ اتنے بادل کون لائے؟ کون ہمت کرے برسنے کی اور برسانے کی؟؟؟
*****
نتاشا کے غم کے جھرنے پھر بہنے لگے تھے۔
’’یہ عورت تو بڑی عمر کے ساتھ ساتھ ایک بانجھ بھی نکلی ہے۔ دو سال ہوئے ہیں۔ آنگن میں کوئی بچہ ہی نہیں۔‘‘ یہی بات کہہ کر دنیا اُسے پھر ستا گئی تھی۔
یہ نتاشا کی آہ و پکار تھی یا کچھ اور کہ شام کو گھنے بادل آ گئے اور ساراجہاں جل تھل ہونے لگا۔ رات ہوئی تو بارش نے ایک طوفان کی شکل اختیار کر لی جس کی گرج چمک سے دل دہل جاتے تھے۔اسی رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا جب خواب سی آنکھیں اندھیرے میں روشن ہوئیں تو ایک عجیب منظر دیکھا: نتاشا آنکھیں کھولے بستر پر لیٹی تھی جس کی ساڑھی سینے پر ہٹ گئی تھی اور ادھ کھلا اور بھرا ہوا بلاؤز شہوت جگاتا تھا۔
’’نہیں! میں ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘ لیکن نتاشا کا ’’جال بدن‘‘ بھاری رہا جو ہر چیز کو اپنے اندر پھنساتا گیا، کھینچتا گیا۔
’’پتنی میں ممتا اور ممتا میں ایک پتنی بھی ہوتی ہے بدھو!‘‘ نتاشا مسکرا کر بولی اور پھر ایک گہری ’’سمندر عورت‘‘ بن گئی جس میں ’’چیز‘‘ڈوبنے لگی اور تہہ کی ریت چوسنے لگی پھر ایک بڑی گرمی کے بپھارا میں پوری کی پوری ڈوب گئی۔
’’اُٹھئے! چائے بھی لیکر آئی ہوں۔‘‘
کھلی آنکھیں اور کھول کر دیکھا: نتاشا تھی جو صبح کی گرم چائے لے کر آئی تھی جس کی بھاپ اُس کے بھرے بھرے سینے کی طرف چلتی تھی کہ ہوا کا رخ اور زور وہیں پر تھا اور چہرے پہ ایسی شادابی تھی جیسے اپنی حسین ترین اور ازلیُ مراد کو پا گئی ہو۔
’’دیجئے!‘‘ گرم چائے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو نتاشا اور بھی نزدیک آئی جس کی کالی اور گھینری زلفیں اب بھی پانی ٹپکا رہی تھیں۔
ایک گرم گھونٹ پی کر نتاشا کی طرف دیکھا تو وہ شرم سے اپنی نظریں جھکا گئی۔ مسکرا کر چائے کی طرف دیکھنے لگا____چائے میں بھاپ اب بھی اُٹھ رہی تھی۔سچ تو یہ کہ کمرے میں اب ایک ایسی گہری اور پُراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی جس کا توڑ شاید کسی کے پاس تھا بھی اور نہیں بھی۔
نوٹ:اس میں مردانہ کردار صیغہ واحد اور صیغہ متکلم دونوں میں سمجھا جا سکتا ہے۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1720252114908155/
“