اگر انسانوں کو سوچ کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جائے توکچھ لوگ نتائج پسند، عقلیت پسند، افادیت پسند، ارتقاء پسند، مادیت پسند، منطقی تحلیلی ایجابیت، تجربیت پسند وغیرہ ہوتے ہیں باقی لوگ معاملات اور خیالات پسند، مثالیت پسند، ارادیت پسند، رومانیت پسند، روحانیت پسند، موجودیت پسند، جذباتیت ہوتے ہیں۔انسان ہروقت ان سب کے درمیان سے کسی کی طرف جھکاؤ بنائے بیٹھا ہوتا ہے۔ کیڑے مکوڑوں سے انسان تک تمام حیوانات اپنی اپنی اہمیت رکھتے ہیں جو درجہ بدرجہ تبدیل ہوتی ہے یہی بات نتائجیت کی رغبت رکھتی ہے۔ تمام چیزوں میں مفاہمت خیال پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان منطقی اور تجریدیت کی رسہ کشی میں ہوتا ہے تمام پیمانے مدِ نظر رکھ کر ذاتی، قومی،سیاسی اور عالمی مشاہدات ونتائج پر توجہ سے ترقی کی رفتار میں ناقابلِ یقین اضافہ ہوتا ہے کیونکہ پچھلا قدم جتنا سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہو اَگلا قدم اتنا مضبوط ہوتا ہے۔ نتائجیت اشتراکی ممالک کی نسبت کاروباری ممالک میں زیادہ اچھی طرح پنپ سکی ہے
کسی بھی چیز،معاملات سے مطلق نتائج حاصل کرناممکن نہیں۔ وقت اور حالات کے مطابق تبدیلی آتی رہتی ہے اس تبدیلی کو سائنسی، منطقی اور تجریدی لحاظ سے مدِ نظر رکھنا چاہیے ورنہ جمود چھا جاتا ہے انسان کے تجربات میں تبدیلیاں اور وسعتیں اسکے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں۔ مذہب کی حقیقت اپنی جگہ لیکن افادیت کئی پیمانوں پر منحصر ہوتی ہے ورنہ اجتہاد کی جگہ مثالیت پسندی لے لیتا ہے۔ خیالاتِ ذہنی کو الفاظی شکل میں بیان کرنا یا بستیوں اور مملکتوں پر نظریات کی حکومت ہوبہو ترجمانی نہیں ہوسکتی۔ نظریات کی زیادہ سے زیادہ افادیت اور کم سے کم مسائل کی تلاش جارہی رکھنی ہوگی قدیم صداقتوں اور جدید سہولیات سے نتائج پر فرق پڑتا ہے۔ انسان کی قسمت میں یہی لکھا ہے یاانسان کی قسمت اس کے ہاتھ میں ہے۔مذہبی سوچ میں عقلی تصوریت کے بجائے عقلی نتائجیت اور غیر مذہبی نتائجیت میں زیادہ فرق نہیں کیونکہ نتائجیت ظاہری حواس پر اثر انداز ہوتی ہے یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ مذہب اپنے اوائل میں نتائجیت پسنداور افادیت پسند ہوتا ہے اور اپنے اختتام پر تصوریت پسند اور تقدس کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ مذہب عالمی نجات زرعی دور کیلیے مکمل ضابطہ پیش کرتا ہے جبکہ صنعتی دور کیلیے عالمی نجات پیش نہیں کرتا نتائجیت ایک عقیدہ بننے سے محفوظ رہنا چاہیے مذہب کی تعلیمات وحدیت پر جبکہ عقلیت کثرت پر مرکوز ہوتی ہے
انسان تجربیت سے زیادہ لالچی ہوتا ہے زیادہ تجریدیت پر کھڑا نہیں ہوسکتا جس سے مذہبی مابعد طبعیات کی طرف راغب ہوجاتا ہے حقائق اور خیالات کی موافقت سے تجربیت اور نتائج پسند ہوجاتا ہے جو معیارات مفید نتائجیت کو مکمل کرتے ہیں وہ حق اور صداقت کہلاتے ہیں
انسان مقدار اورغیر مقدار، روحانیت اور مادیت کے مابین ہوتا ہے اسی لیے مسرت کا حصول انسان کے اندرون اور بیرون دونوں میں پنہاں ہوتا ہے۔ اسی طرح معاملات میں تسلسل سے تعلق پایا جاتا ہے کچھ مضبوطی سے اور کچھ ہلکے پھلکے جڑے ہوتے ہیں۔ جیسے چھوٹے چھوٹے مقاصد مل کر بڑے مقصد بنتے ہیں ان سے نصب العین بنتے ہیں ذاتی مقاصداجتماعی مقاصد ایک دوسرے سے مشروط ہوتے ہیں
کمپیوٹر/روبوٹ پر جن لوگوں نے مصنوعی ذہانت کواندرونی طور پر نقش کرنے کی کوشش کی انکی نسبت بیرونی نقوش کرنے کی کوشش کی کامیابی انسان کے نزدیک تھی جبکہ اندرونی نقوش کے ماہرین سے بھی ترقی میں کمی نہیں آئی۔ انسا ن کے اندرون اور بیرون کا گہرا تعلق ہے
پاکستانی لوگ یہ سوچ بنا لیں کہ عوامی خدمت کرنے والے لوگوں کے کام اُنکے ناموں پر منسوب/کنندہ کردئیے جائیں تو فلاحی کام ممکن ہیں
ولیم جیمز اور علی عباس جلالپوری کے اقتباس سے بھی مدد لی گئی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“