::: "نسوار" کی مختصر کہانی :جس میں کئی ثقافتون کے رنگ ملتے ہیں" :::
ایک زمانے میں نسوار کی دوکان سے اگرکوئی ایک چٹکی نسوار لے کر منہ میں رکھ لیتا تھا تو دوکاندار اس سے پیسے وصول نہیں کرتا تھا۔ یہ پختونون کی مہمان نوازی اور کچھ کے یہاں ان کی روایت کا حصہ ہے۔ اور کچھ اس کو " کاروباری گر" کہتے ہیں۔
نسوار کی تاریخ تقریباً 500 سال یا 600 سال پرانی ہے.
مشرقی یورپ ملک سپین میں ایک ایسا چیز 1493 کو دریافت ہوا کہ کسی نے سوچا بهی نہ تها کہ یہ چیز اتنی مشہور ہوجائے گی۔ یہ کہاجاتا ہے کہ نسوار کیا ایجاد پٹھانوں یا پختونوں نے کی ہے جو تاریخ کی تحقیق سے غلاط ثابت ہوئی ہے سب سے پہلے "نسوار" امریکہ سے شروع ہوئی۔ 1561 میں پرتگال میں Lisbon، فرانسیسی سفیر اور ان کے بیٹے Jean Nicot، کے بیماری کی وجہ جواز سے اس وقت یہ طبقہ اشرافیہ میں نہایت مقبول ہوا۔ 17 ویں صدی میں اس مصنوعات کے خلاف کچھ حلقوں کی جانب سے تحریک اٹھی اور پوپ اربن VII کی جانب سے خریداری پر دھمکیاں دیں گئیں۔ روس میں اس کا استعمال 1643ء میں Tsar Micheal کی جانب سے کیا گیا۔ ناک سے استعمال کی وجہ سے اس پر سزا مقرر کی گئی۔ فرانس میں بادشاہ لوئیس XIII نے اس پر حد مقرر کی جبکہ چین میں 1638ء میں پوری طرح نسوار کی مصنوعات پھیل گئی۔ 18 ویں صدی تک نسوار کو پسند کرنے والوں میں نپولین بانو پارٹ، کنگ جارجIII کی ملکہ شارلٹ اور پوپ بینڈکٹ سمیت اشرافیہ اور ممتاز صارفین میں یہ رائج ہوچکا تھا۔ 18 ویں صدی میں انگلش ڈاکٹر جان ہل نے نسوار کی کثرت استعمال سے کینسر کا خدشہ ظاہر کیا۔ امریکہ میں پہلا وفاقی ٹیکس 1794ء میں اس لیے لگا کیونکہ اسے عیش و عشرت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔
اور یہ چیز پهٹان قوم اپنے روزمرہ خوراک سے زیادہ استعمال کرے گی . نسوار سپین سے کیسے پاکستان اور افغانستان منتقل ہوا اس کی تاریخ تقریباً کسی کے پاس نہیں ہے .
نسوار ایک ایسا نشہ ہے جو پاس نہیں ہوتا تو نسواری آدمی کے سر پر پہاڑ جیسا بوجھ پڑا رہتا ہے
نسوار تمباکو سے بنی ہوئی گہرے سبز رنگ کی ہلکی نشہ آور چیز ہے۔ نسوار کھانے والا ایک چٹکی کے برابر اپنے زیریں لب اور دانتوں کے درمیان دبا لیتا ہےاور تمباکو کے نشے کا سرور لیتا ہے۔ نسوار بنانے کے لیے تمباکو کے خشک پتوں میں حسب منشا چونا ، راکھ اور ایک خاص گوند ملا کر پتھر کی اوکھلی میں لکڑی کے موٹے موصل سے کوٹ کوٹ کر پانی کے ہلکے چھینٹےدے کر تیارکی جاتی ہے۔ بڑے پیمانے پر مشینوں سے بھی تیار کی جاتی ہے۔بنوں کی نسوار مشہور ہے جبکہ چار سدہ اور صوابی میں بہترین تمباکو کاشت ہوتی ہے۔
سبز نسوار تیار کرنے کے لیے تمباکو کے پتوں کو سائے میں خشک کیا جاتا ہے جبکہ کالی نسوار کے لیے تمباکو کے پتوں کو دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ سونگھنے والی لال نسوار بھی ہوتی ہے۔ مقصد سب کا ایک ہی ہے یعنی کہ کسی بھی طریقے سے نکوٹین کو خون اور ماغ تک پہنچانا
ہمدردی انسانی فطرت ہے۔ پھر پختون بھائی تو ویسے بھی مہمان نوازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کراچی سے پشاور تک کسی بھی صوبے میں چلے جائیے آپ کو چائے پانی کے فوراً بعد نسوار پیش کی جائے گی۔ نسوار بھی ایسی ڈبی میں کہ جو بالکل نئی، چمک دار اور شیشہ جڑی ہوگی ۔۔ پہلی نظر میں آپ کو لگے گا کہ شاید زعفران ہو ۔۔۔ مگر نسوار کی قدر کھانے والے ہی جانتے ہیں۔ ان کے لئے نسوار زعفران سے قیمتی اور کہیں زیادہ اہم ہے۔
کراچی کے بے شمار علاقوں میں نسوار کی باقاعدہ بڑی بڑی دکانیں ہیں۔ مثلاً صدر، سہراب گوٹھ، بنارس کالونی، پٹھان کالونی ، شیر شاہ ، لیاری ،میٹروول وغیر ہ۔ اس کے علاوہ نسوار چھوٹی موٹی چیزوں کی مختلف دکانوں اور خاص کر موچی کی دکانو ں پربھی مل جاتی ہے۔ اگرچہ کراچی میں یہ صرف نسوار ہی کے نام سے ملتی ہے مگر خیبر پختونخواہ میں اس کے باقاعدہ نام بھی ہیں۔ کچھ نام تو بہت ہی دلچسپ ہیں مثلاً ایف سولہ، طورخم، سبز پری، میزائل، سفارش خان اور لکی وغیرہ ۔ نسوار کو عموما "پختوںوں کا ایندھن "بھی کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں اگر عورت کا میک اپ اور پٹھان کی نسوار ختم کوجائے تو دونوں پاگل ہو جاتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔