عصر حاضر میں کینیڈا مقیم شاعرہ نسرینؔ سید اردو شاعری کے حوالے سے ایک اہم اور معتبر نام ہے۔موصوفہ نے نہ صرف بر صغیر بلکہ جہاں جہاں علمی دنیا میں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں اپنی شعری تخلیقات کے ذریعے اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے۔ ان کے اب تک پانچ شعری مجموعے ’’ترے خیال کی خوشبو،ترنگ،دھنک،دل دریا،ملہار‘‘کے عنوان سے منظر عام پر آچکے ہیں۔نسرینؔ سید صاحبہ کی شعری کائنات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نسرینؔ سید صاحبہ کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔جس میںان کے عمیق مطالعے اور متحرک ذہن کا عمل دخل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر حاضر سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔اور زندگی کے ہر شعبہ پر ان کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔سائنس نے نہ صرف انسان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے بلکہ اس نے انسانی فہم و ادراک کو بھی جلا بخشی ہے۔موجودہ دور کی نئی نسلوں میں سائنسی رجحان تیزی سے پروان چڑھا ہے۔اور اب وہ ہر چیز کے پس پشت سائنسی نقطہ نظر کو تلاش کرنے لگے ہیں۔کل تک ادب اور سائنسی فکر کو ایک دوسرے کا مخالف تصور کیا جاتا تھا۔لیکن عصر حاضر میں ادب اور سائنسی رجحانات کے درمیان ایک تعلق پیدا کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔جس کا سبب یہ ہے کہ جس ماحول میں نئی قاری نے آنکھیں کھولی ہیں وہ سائنسی شعور اور رجحانات کا دور ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ راقم القلم نے نسرینؔ سید صاحبہ کی شاعری کا جائزہ سائنسی نقطہ نظر سے لینے کی کوشش کی ہے۔تاکہ نئی نسلوں کو ان کی شاعری کے سائنسی شعور سے واقف کرایا جا سکے۔
نسرینؔ سید صاحبہ کی شاعری میں ایسے متعدد اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں جو سائنسی رنگ سے مزین ہیں۔ان کا خطابیہ لہجہ اور استفہامیہ انداز فکر قاری کو غور و فکر تلاش و جستجو کی دعوت دیتا ہے۔جس سے اس کا ذہن متحرک اور سائنسی تحقیق کے آمادہ ہوتا ہے۔نسرین ؔسید صاحبہ کی مخصوص شعری لفظیات بھی بہت سے سائنسی رموز کی عکاس ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی موصوفہ کی شاعری میں سائنسی پیکر تراشی اور منظر نگاری کے بے مثال نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نسرین ؔسید کی شاعری کا یہ بھی خاصہ ہے کہ انھوں نے بہت سے اچھوتے اور منفرد موضوعات کے ذریعے اپنی شعری کائنات کو سجایا اور سنوارا ہے۔جس کے سبب ان کے کلام میں سائنسی موضوعات بھی شعوری اور لا شعوری طور پر آ جاتے ہیں۔جو ان کی شاعری میں نئے پن کا احساس کراتے ہیں۔ نسیمِ سحر ان کی شاعری کے حوالے سے لکھتی ہیں:
’’ان کی غزل میں نیا پن اتنا نمایاں ہے کہ وہ اس کے سبب عہد موجود سے بھی کچھ آگے دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ نیا پین اور تازہ کاری کہیں تو کسی لفظ کے نئے انداز سے برتنے سے اور کہیں خیال کو ایک الگ زاویے سے پیش کرنے کا ہے۔‘‘ ۱ ؎
(بحوالہ:پھر عشق جنوں ٹھہرا:انتخاب غزلیات،نسرین سید،ناشر: نیاز مندانِ کراچی،پاکستان،سن اشاعت2023ء،ص:18)
در اصل ان کی شاعری کا نیا پن اور موجودہ دور سے آگے کی فکر ان کے کلام میں سائنسی رہنگ و آہنگ کو مزید فروغ دیتے ہیں۔
آئیے اب ان کے کلام میں آئے مختلف سائنسی موضوعات کا جائزہ لیتے ہیں۔اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح موصوفہ اپنے اشعار کے توسط سے سائنسی مضامین کی عکاسی کرتی ہیں۔ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ موصوفہ نہ صرف سائنسی حقیقت سے پردا کشائی کرتی ہیں بلکہ ایک سائنسداں کی طرح اس کائنات کے رازوں کو سمجھنے کے ہر لمحہ بے چین اور مضطرب رہتی ہیں۔اس فکر کی ترجمانی میں چند اشعار دیکھیں:
چرخِ کہن ہٹاؤ کہ درکار ہیں مجھے
پرواز کے لیے کئی افلاک مختلف
کچھ اور تھا دکھایا مری عقل و فہم نے
بابِ دروں کھلا، ہوا ادراک مختلف
تجھ کو دیکھا ہے زمانے نے الگ نظروں سے
جو ہے تجھ میں،وہ زمانے سے میں ہٹ کر دیکھوں
مذکورہ اشعار نسرین ؔسید کے متحرک ذہن کے نتیجہ فکر ہیں۔پہلا شعر علم کونیات (Cosmology) کا عکاس ہے۔ یہ علم فلکیات کی ایک شاخ ہے، جس میں کائنات سے متعلق تمام چیزوں اور اجرام فلکی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ علم کائنات کی تشکیل کے عمل کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔نسرین ؔصاحبہ اپنے اس شعر میں ’’چرخ کہن‘‘ یعنی ہماری آنکھوں کے سامنے جو آسمان موجود ہے اس کو ہٹانے کی بات کر رہی ہیں گویا وہ اس آسمان سے بعید دوسرے اجرام فلکی اور ملٹیورس(Multiverse)کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنا چاہتی ہیں کیوں کہ ان کی پرواز فکر انھیں اس وسیع و عریض کے رازوں کو سمجھنے کے لئے ہر لمحہ متحرک رکھتی ہے۔
دوسرا شعر میں انسانی عقل و فہم کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہتی ہیں کہ میری عقل و فہم نے تو مجھے کچھ اور ہی دکھایا تھا یعنی میں ابھی تک بہت سی سائنسی حقائق سے واقف نہیں تھی۔جب میرے اندر کے تجسس نے مجھے کائنات کے رازوں پر تحقیق کرنے کے لئے آمادہ کیا تو ادراک و معانی کے نئے باب میری ذات پر واضح ہوئے۔
تیسرا شعر بھی سائنسی تجربہ اور تجزیہ کے لئے قاری کے ذہن کو بیدار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔جب ہم سائنسی علوم کی روشنی میں چیزوں کا مطالعہ ا ور مشاہدہ کرتے ہیں تو جو نتائج ہمارے سامنے آتے ہیں وہ زمانے اور عام قیاس آرائی سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔یعنی وہ مفروضہ جو کسی عمل کو دیکھ کر تصور کر لیا جاتا ہے اس کو سائنسی تحقیق کے بعد اکثررد کر دیتے ہیں اور موجودہ شواہد کی روشنی میں نئے اصول و ضوابط پیش کئے جاتے ہیں۔اسی طرح کا فکری رجحان موصوفہ کی شاعری میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ سائنس صرف آنکھوں دیکھی چیزوں پر آنکھ موند کر بھروسہ نہیں کرتی ہے،بلکہ وہ نظر آرہی چیزوں اور عوامل پر تحقیق کرنے اور ان کے پیچھے پوشیدہ حقیقی رازوں کو آشکار کرنے کے لئے آمادہ کرتی ہے۔اسی فکر سے مہمیز ایک شعر ملاحظہ کریں:
کھلی ہے آنکھ، بصیرت مگر نہیں رکھتے
جو کائنات پہ گہری نظر نہیں رکھتے
در اصل موصوفہ اپنے اس شعر کے ذریعے قاری کو بصارت کی منزلوں سے نکال کر بصیرت کی وادیوں میں لے جانا چاہتی ہیں۔کیوں کہ بصارت تو سب کے پاس ہوسکتی ہے لیکن بصیرت تک کم ہی لوگوںپہنچتے ہیں۔سائنس کا علم ایک ایسا علم ہے جو انسان کی بصارت کو بڑھا کر اسے بصیرت کی روشنی عطا کرتا ہے۔جو ہمیں کائنات کے مشاہدات سے حاصل ہوتی ہے۔نسرینؔ سید اپنے اس شعر میں ایسے افراد پر طنز بھی کرتی ہوئی معلوم دیتی ہیں جو آنکھ ہونے کے باوجود اپنی اس کائنات کے رازوں پر گہری نظر نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کی بصریت حاصل کرتے ہیں۔گویا موصوفہ اپنے شعر کے ذریعے قاری کو سائنسی علوم سیکھنے کے لئے آمادہ کر رہی ہیں۔
نسرینؔ صاحبہ کی شاعری کا یہ بھی خاصہ ہے کہ وہ صرف اپنے کلام میں طنز کا ہی سہارا نہیں لیتی بلکہ قاری کو متحرک کرنے کے لئے خطابیہ لہجہ بھی اختیار کر لیتی ہیں:
تمہاری ذات کی پرتیں تو ہم پہ کھلنا تھیں
سنو کہ ہم بھی دل بے خبر نہیں رکھتے
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے اس شعر میں کائنات سے مخاطب ہیں اور اس کے پوشیدہ رازوں کی پرتیں کھولنے کی بات کر رہی ہیں گویا اس شعر میں بھی نسرین ؔصاحبہ اپنے اطراف میں موجود رازوں کو سمجھنے کے لئے دعوت دیتی ہوئی نظرآتی ہیں۔شعر کا دوسرا مصرعہ ’’سنو کہ ہم بھی دل بے خبر نہیں رکھتے‘‘ اس بات کا عکاس ہے کہ موصوفہ کا دل بھی اس کائنات کے راز ہائے بستہ کو سمجھنے کے لئے بیقرار ہے اور وہ یہی جزبہ قاری کے اندر بھی پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
سائنسی علوم کو سیکھنے اور سمجھنے میں سولات کی اہمیت و افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے۔سوالات نہ صرف سائنسی رجحان کے فروغ دیتے ہیں بلکہ یہ تنقیدی سوچ اور تحقیق کے لئے بھی راہ ہموار کرتے ہیں۔نسرینؔ سید کے کلام میں ایک مخصوص استفہامیہ لہجہ بھی موجود ہے۔در اصل وہ اکثر سائنسی حقائق کی ترجمانی اور قاری کے ذہن کو متحرک کرنے کے لئے استفہامیہ لہجہ اختیار کرلیتی ہیں:
کیا عالم ہستی ہے، کیا بزم سجی ہے؟
حیراں جو نہ کردے،کوئی جلوہ نہیں دیکھا
کوئی بتاؤ ہمیں، عشق کیمیا کیا ہے؟
کہاں سے ہوتا ہے آغاز،انتہا کیا ہے؟
کوئی بگولہ ہے کیا میری ذات میں مضمر
یہ رقص کرتا ہوا،خاک سے اٹھا کیا ہے؟
پہلا شعر اس کائنات میں موجود راز حیات کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔کہ سارے عالم میں صرف ہماری زمین پر ہی ایسا نظام حیات اور زندگی کیوں دیکھنے کو ملتی ہے۔جس طرف بھی نظارہ کرتے ہیں کوئی ایسا منظر نہیں ملتا جو عقل کو حیران نہ کر دے۔دوسرا شعر عشق کے جزبہ کی سائنسی تحقیق کرنے کے لئے آمادہ کرتا ہے کہ آخر عشق کے جزبہ کے سبب ہمارے اندر کیا کیمیکل چینجیز ہوتے ہیں۔اور اس کا انسانی نفسیات پر کیا اثر پڑتا ہے ۔تیسرا شعر انسانی جسم میں موجود نظام حیات کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔نسرینؔ صاحبہ نے لفظ ’’بگولہ‘‘ کا استعمال کر کے انسانی جسم میں موجود خون اور اس کے خلیات کے کام کرنے کے عمل کو سمجھنے کی سعی کی ہے۔جس طرح ’’بگولہ‘‘ خاک سے اٹھتا ہے اور اس کے ساتھ خاک کے ذرات رقص کرتے ہوئے ایک مقام سے دوسرے مقام پر جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہمارے جسم میں خون اور اس کے خلیات جسم میں گردش کرتے ہوئے سفر کرتے ہیں۔
نسرینؔ صاحبہ کے کلام میں ایسے متعدد اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں انھوں نے لفظ’’خاک‘ ‘کا استعمال کیا ہے۔حقیقت میں یہ لفظ ان کے کلام میں کلیدی لفظ کی حیثیت کے طور پر ابھرتا ہے۔جس کے توسط سے وہ بہت سی سائنسی حقائق کو بڑی مہارت کے ساتھ پیش کر دیتی ہیں:
جسم پتلا ہے ایک، مٹی کا
خاک کے ساتھ خاک ہونا ہے
اس خاک میں ملاؤ کوئی خاک مختلف
تشکیل کو مری ہو کوئی چاک مختلف
اک چشم کرم ہو تو بنے نور سراپا
ہم خاک کے ذرّے کو بھی ذرّہ نہیں کہتے
پہلے شعر میں جسم کو مٹی کا پتلے سے تشبیہ دے کر موصوفہ انسانی جسم کی انوٹمی(Anatomy) کو سمجھنے اور اس پر غور و فکر کرنے کی دعوت دے رہی ہیں۔عصر حاضر کے سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد یہ بات آشکار کی ہے کہ انسان کی تشکیل اور اس کے جسم کی نشو نما میں کچھ خاص عناصر کا اہم رول ہے جو ہمارے اطراف اور خاص طور سے مٹی میں پائے جاتے ہیں۔ان عناصر کی کمی بیشی کے سبب انسان کے جسم میں بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور جو اس کی موت کی وجہ بھی بن سکتی ہیں۔
دوسرا شعر بھی اس فکر کا ترجمان ہے۔جس میں نسرینؔ صاحبہ نے انسانی جسم کے لئے خاک کا استعارہ استعمال کیا ہے۔جس میں وہ خطابیہ لہجہ اختار کرتے ہوئے انسانی جسم میں مختلف خاک ملانے یعنی ان عناصر کو بڑھانے کی بات کر رہی ہیں جس کی کمی کے سبب انسانی جسم کی تشکیل اور اس کی نشونما متاثر ہو رہی ہے۔یہاں اس شعر میں چاک کا لفظ بھی موصوفہ نے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔جس سے مراد بیلینس ڈائیٹ(Balanced Diet) کے ڈیلی رٹین سے لی جا سکتی ہے کہ ہمیں اپنی روزمرہ کی غذایت میں کیا تبدیلی کرنی چاہئے۔تاکہ ہمیں وہ تمام عناصر مل سکیں جو ہمارے جسم کی بقا کے لئے ضروری ہیں۔
تیسرا شعر خاک کے ذرے یعنی جوہر (atom) پر تحقیق کرنے لئے آمادہ کرتا ہے۔اس کے توسط سے نسرین صاحبہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اگر ہم غور و فکر کریں تو پائیں گے کہ ایک ادنیٰ سا دیکھائی دینے والا خاک کا ذرہ بھی اپنے اندر ایک پوری کائنات پوشیدہ کئے ہوئے ہے۔یہاں شعر میں ’’نور‘‘ کا لفظ استعمال کر کے موصوفہ نے ہگز فیلڈ(Higgs field)اور گوڈ پارٹیکل کی طرف بھی ذہن کو مرکوز کیا ہے۔جو ہمیں ایٹم کی ساخت اور اس کے وجود میں آنے بارے میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔
نسرینؔ سید شاعری کے تمام رموز اور لفظیات کے حسین و جمیل استعمال سے بھی بخوبی واقف ہیں۔وہ اپنے کلام میں خطابیہ لہجے کے ساتھ ساتھ خوب صورت الفاظ کو بھی بڑی ہنر مندی کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔مثلاً یہ شعر جس میں انھوں نے اپنے مخصوص انداز اور الفاظ کے خوب صورت استعمال سے مختلف سائنسی حقائق اور مفاہیم کو بڑے منفرد انداز میں پیش کر دیا ہے:
لاتی ہے مجھے وجد میں یہ گردش افلاک
لاتا ہے مجھے رقص میں،گرداب کا چھونا
نسرینؔ سید اپنے اس شعر میں بہت سی سائنسی حقیقتوں سے پردا اٹھاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔شعر پر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ موصوفہ لفظ ’’مجھے‘‘ کہہ کر زمین اور اس کے خلاء میں گردش کرنے کے سائنسی عمل کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ پیش کررہی ہیں۔گویا زمین خود اس شعر میں خطاب کرتے ہوئے قاری کو اپنی گردش کے متعلق تحقیق کرنے کے لئے آمادہ کر رہی ہے۔یہ شعردیگر اجرام فلکی کی قوت ثقل کا زمین پر کیا اثر پڑتا ہے ،کس طرح زمین گردش افلاک میں ایک منظم نظام کے تحت رقص کرتی ہوئی نظام شمسی میں سورج کے ارد گرد چکر لگاتی ہے۔یہ تمام حقائق کی طرف ذہن کو مرکوز کرتا ہے۔شعر کا دوسرا مصرع بھی گردش افلاک کے سبب زمین پر موجود سمندر میں اٹھنے والے مدو جزر اور گرداب کی صورت آنے والے طوفان کا عکاس ہے۔اور اس بات پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ کس طرح چاند کی کشش ثقل اور دیگر اجرام فلکی ہماری زمین پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
نسرین ؔصاحبہ اپنے کلام میں امیجری کی بھی عمدہ مثالیں پیش کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ان کے شعر کے پیکر میں سائنسی حقائق کی بھی حسین ترین ترجمانی موجود ہوتی ہے۔ایک شعر ملاحظہ کریں جس میں وہ کھلی دھوپ میں بارش کے منظر کی بات کر رہی ہیں۔ساتھ ہی جب آسمان سے بارش کی بوندھیں زمین پر آتی ہیں اور ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہ نگینے کی طرح چمکنے لگتی ہیں۔یہاں غور کریں تو یہ بوندیں ایک پریزم (Prism) کی مانند عمل کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔پریزم کی خاصیت ہوتی ہے کہ اس پر پڑنے والی روشنی کی کرن کو وہ سات الگ الگ رنگوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔جس کے سبب آسمان میں قوس قزح بھی دیکھائی دیتا ہے۔اور بوندھے بھی چمکتی ہیں۔جس کو نسرین صاحبہ نگینے سے تشبیہ دیتی ہوئی کہتی ہیں:
کھلی اس دھوپ میں بارش کا منظر
نگینے گر رہے ہیں آسماں سے
اسی طرح ایک اور پیکر تراشی کی مثال ملاحظ کریں۔جس میں سائنسی عمل کی ترجمانی اور منظر کشی کی شاندار تصویر ہے:
لہروں پہ ہواؤں کی مچلتی ہوئی ہردم
سر چھیڑتی، آتی ہوئی،جاتی ہوئی آواز
نسرین ؔصاحبہ نے اپنے اس شعر میں آواز کے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے میں ہوا کا کیا رول ہوتا ہے۔اس سائنسی حقیقت کو آشکار کیا ہے۔کیوں کہ آواز بنا کسی میڈیم(Medium) کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہوتی ہے۔خلاء کے اندر ہمیں آواز نہیں سنائی دیتی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر ہوا موجود نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس زمین پر ہوا موجود ہے جب ہم کچھ بولتے ہیں تو اس سے ہوا میں ایک وائبریشن پیدا ہوتا ہے۔اور یہ ہی ارتعاش ہواؤں کے دوش پر مچلتا ہوا سْر چھیڑتا ہوا آواز کی صورت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔کمال کی بات یہ ہے کہ جو عمل ہمیں ظاہری آنکھوں سے نہیں دکھائی دیتی ہے اس سائنسی عمل کی بھی منفرد ترجمانی موصوفہ اپنی شعر کے ذریعے بخوبی کر دیتی ہیں۔
ماہرین فلکیات کے مطابق ہماری زمین کے ارد گرد چکر لگانے والے چاند کی اپنی کوئی ذاتی روشنی نہیں ہے۔دراصل یہ سورج کی روشنی کے سبب چمکتا اور دمکتا ہے۔اس سائنسی حقیقت کی پیکر تراشی کرتے ہوئے موصوفہ کہتی ہیں:
اک آفتاب کے کرم کی ایسی بارشیں ہوئیں
کہ اکتسابِ نور سے میں ماہ تاب ہو چکی
مختصرا ً نسرین ؔسید صاحبہ کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ نسرینؔ صاحبہ عصر حاضر کی ایک ایسے منفرد لب و لہجہ کی شاعرہ ہیں جن کی شاعری سائنسی مضامین کے منفرد رنگوں سے مزین نظر آتی ہے۔ اور نسرینؔ صاحبہ کے کلام میں منفرد جہان معنی کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔جو ان کے عمیق مشاہدے اور مطالعہ کا ثمرہ ہے۔
انجینئر محمد عادل فرازؔ
ہلال ہاؤس 4/114 نگلہ ملاح علی گڑھ
(انڈیا) بھارت
موبائل:8273672110