نثر اور نظم میں فرق اور نظم کی اقسام
جب کوئی ادیب اپنے تخلیقی ذہن میں موجزن خیالات کے ذخیرے کو قلم برد کرکے صفحہ قرطاس پر بکھیرتا ہے تو اسے نثر کہتے ہیں ۔ لیکن جب ایک شاعر اپنے تخیل کے خوبصورت تانے بانے ایک لے میں سلجھے ہوئے تاروں کی صورت میں کہتا ہے تو ایک خوبصورت نظم تخلیق ہوتی ہے۔
نثر کے لیے کسی بحر کی ضرورت ہے نہ قافیہ اور ردیف کی ۔ لیکن قلم کی روانی محاورات و استعارات کا چابکدستی سے استعمال اور اعلی تخیل تحریر کا حسن دوبالا کرتے ہیں ۔ تحریر میں جتنی روانی اور زبان پر جتنا عبور ہو گا اس کے مطابق اسی قدر اعلی اور معیاری نثری تحریر سامنے آئے گی۔ لیکن نثری ادب کی مختلف اصناف ہیں ناول افسانہ، مختصر افسانہ کہانی داستان آپ بیتی اور مائیکروفکشن وغیرہ۔ اور ان اصناف میں نثر کا معیار ادیب کی قابلیت اور مزاج پر ہوتا ہے ۔ لیکن زیادہ تر موضوع اور کرداروں کا انتخاب نثر کی نظمیت اور موسیقیت میں کمی اور بیشی کا باعث ہوتا ہے۔
نظم میں بحر بھی ہوتی ہے اور نظم کی اقسام کے حساب سے دیگر لوازمات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے ۔ نظم کی اقسام ہیں پابند نظم ،آزاد نظم ، نظم معّریٰ، اور نثری نظم ۔
پابند نظم ، آزاد نظم اور نظم معّریٰ میں بحر کا استعمال ضروری ہے۔ موخرالذکر یعنی نثری نظم کی بڑے شعرا یعنی اساتذہ کی نظر میں کوئی وقعت نہیں۔ کیونکہ اس میں کوئی بحر سرے سے استعمال ہی نہیں کی جاتی۔ یہ غیر شاعر افراد کے ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے۔
پابند نظم : پابند نظم میں وزن بحر ردیف اور قافیہ سب موجود ہوتا ہے یہ غزل کے اوزان پر کہی جا سکتی ہے لیکن اس کی سب اصناف میں غزل کی بحریں استعمال نہیں کی جا سکتیں۔ اس کی مختلف اصناف میں قصیدہ، مرثیہ، گیت ، سانیٹ، پیروڈی، مثنوی ، رباعی، قطعہ۔ مسمط، مثلث، مخمس، مسدس، ترکیب بند ، ترجیح بند، مثمن اور مستزاد وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے ان میں سے بیشتر کے بند میں مصرعوں کی تعداد میں فرق ہوتا ہے۔ رباعی کے لیے مخصوص بحروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں صرف گیت ایسا ہے جس کی کوئی خاص ہئیت نہیں ہے۔
آزاد نظم : آزاد نظم شاعری کی ایک بہت خوبصورت صنف ہے اس طرح کی نظموں کا ایک اپنا مزہ ہے۔ ان میں ترنم ہوتا ہے ۔ اس نوع کی نظموں کو آزاد تو کہا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ مادر پدر آزاد ہیں ۔ ان نظموں میں بحر کی پابندی لازم ہے لیکن ردیف اور قافیہ کی قید نہیں ہے ۔ آزاد نظم میں اور نظم معّریٰ میں بنیادی فرق وزن کا فرق ہے ۔ آزاد نظم میں وزن کی کمی بیشی جائز ہے ۔ مثلا اگر ایک بحر استعمال کی گئی ہے تو اس کے تمام ارکان ہر مصرعے میں استعمال کرنا ضروری نہیں ۔ مثال کے طور پر فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کی بحر ہے تو اس کے وزن میں ہر دوسرے مصرعے میں ارکان زیادہ یا کم کئے جاسکتے ہیں۔ جیسے کہ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
فاعلاتن فاعلاتن
فاعلاتن فاعلن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
وغیرہ
بعض شعرا بحر میں تبدیلی کرتے ہیں اس میں بعض تو جدیدیت کے شوق میں کچھ نیا تخلیق کرنے کے شوق میں جان بوجھ کر بحر میں تبدیلی کرتے ہیں اور بعض غلطی سے بحروں پر کم عبور ہونے کے سبب اس غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ لیکن نظم کے ایک دو مصرعے میں بحر تبدیل کرنے کی گنجائش بہر حال بدرجہ اتم موجود ہے۔ گرچہ کہ یہ بحر بدلنے کا عمل قاری کی طبیعت پر گراں بلکہ ناگوار تاثر چھوڑتا ہے۔
نظم معّریٰ: نظم معّریٰ انگریزی ادب سے اردو ادب میں آئی ۔ معّریٰ کا مطلب ہے پاک صاف ۔ خالی، آزاد ، عریاں ، خالص۔ لیکن یہ اسی حد تک پاک صاف یا آزاد ہے کہ اس میں ردیف اور قافیہ استعمال نہیں کیا جاتا لیکن بحر سے آزاد ہے نہ وزن سے۔ نظم معّریٰ میں تمام اشعار ہم وزن ہوتے ہیں اور شروع تا آخر ایک بحر میں ہوتے ہیں ۔اور ترنم میں ہوتے ہیں ۔ ایک بحر میں اور ایک وزن سے مراد یہ ہے کہ جو بھی بحر پہلے مصرعے میں استعمال کی جائے اس میں کسی دوسرے مصرعے میں بھی کوئی کمی بیشی نہ کی جائے ۔ اول تا آخر ایک ہی بحر ایک ہی وزن میں استمعال ہوتی ہے مثلا
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ( پہلا مصرعہ بلکہ ہر مصرعہ)
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن (آخری مصرعہ)
ایک بحر ایک ہی وزن میں استعمال ہوتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ردیف اور قافیہ کی پابندی نہیں کی جاتی ۔ ہر مصرعہ الگ قافیہ ردیف میں ہوتا ہے لیکن پوری نظم اول تا آخر ایک موضوع سے جڑی ہوتی ہے۔ غزل کی طرح ہر شعر کا موضوع الگ نہیں کیا جا سکتا۔
نظم معّریٰ میں ہر مصرعے میں وہی بحر استعمال ہوتی ہے جو کہ پہلے مصرعے میں استعمال کی گئی ہو۔ لیکن آزاد نظم کی طرح اس کے مصرعوں میں دوسری بحر کے دخول کی اجازت نہیں۔
نثری نظم: جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا۔ نثری نظم کی بڑے شعرا یعنی اساتذہ کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی بحر سرے سے استعمال ہی نہیں کی جاتی۔ یہ غیر شاعر افراد کے ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے۔
لیکن جو افراد عروض نہیں جانتے لیکن شاعری کا شوق رکھتے ہیں وہ نثری نظم کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن نثری نظم کے بھی کچھ اصول ہونے چاہیئں۔ یہاں کچھ اصول دیئے جا رہے ہیں ۔ شاعری کے شوقین حضرات کم از کم ان اصولوں پر عمل کریں۔
نثری نظم اول تا آخر ایک ہی موضوع پر ہونا چاہیئے۔
کہیں کہیں ردیف اور قافیہ کے استعمال سے نغمگی پیدا کی جائے۔
اول تا آخر نظم ترنم میں محسوس ہو۔
نظم کا ہر مصرعہ دوسرے مصرعے سے جڑا ہو۔
آج کل تجرید کے شوق میں اور خود کو انٹللیکچوئیل ثابت کرنے کے چکر میں لوگ ایک جملے میں ایک بات کہتے ہیں اور دوسرے مصرعے میں دوسری۔
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا۔
اس طرح کی شاعری کرنے والوں کو پتہ ہونا چاہیئے کہ شاعری کے اساتذہ ہی نہیں بلکہ عام قاری بھی بے وقوف نہیں ہے۔
میں بنیادی طور پر نثری شاعری کے خلاف نہیں ہوں ۔ لیکن نثری شاعری اس طرح کی ہونا چاہیئے کہ اگر اس کا ترجمہ کسی اور زبان میں کیا جائے تو ایک بامقصد تحریر سامنے آئے۔
میرے اس مضمون کا مقصد صرف نظم کی بہتری کی طرف پیش قدمی، نظم کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کرنے والوں کی رہنمائی اور نئے شعراء کی مدد کا جذبہ ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔