آج مغربی تہذیب نے ہماری مشرقی تہذیب پر یوں قبضہ جمالیا ہے کہ مغرب سے آنے والی ہرقسم کے رسومات دیکھتے ہی دیکھتے لو گوں میں مشہور ہوجاتی ہیں ۔۱۴؍ فروری کو ویلنٹائنس ڈے منانے کی تقریب بھی وہیں سے چل کرہمارے یہاں آئی ہے ۔معلوم نہیں یہ غیر منطقی رسم کیوں کر ہمارے سماج کا حصہ بن گئی ۔حالانکہ اس کے شرمناک اورخطرناک نتائج لوگوں کے سامنے عیاں ہیں ۔نوجوان لڑکے ،لڑکیوں کو تحفہ کے نام پر اپنی ہو س کا شکار بناتے ہیں ۔اور پھریوں رفتہ رفتہ رشتہ میں مضبوطی آتی چلی جاتی ہے جس کا بھیانک نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
عصر حاضر میں بے حیائی اور عزت نفس سے کھلواڑکر نے واقعات شدت پکڑتے جارہے ہیں ۔جب سے جدید ٹکنالوجی نے ترقی پائی ہے اس وقت سے اس وقت سے بے حیائی اور بڑھتی جارہی ہے۔ہم ٹکنالوجی کے مخالف باالکل نہیں ہیں ۔ہاں ! اس سے سوء استفادہ کے ضرورمخالف ہیں۔آج موبائل فون دل بہلاوے اور لوگوں کو فریب دینے کا آلہ بن گیا ہے ۔آج لڑکیوں کی عفت اور پاسداری مشکل ہوتی جارہی ہے ۔اور اب تک تو پھر بھی غنیمت تھا ۔جب سے ٹک ٹاک آیا ہے اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے ۔اب تک جو ،ان برائیوں سے پاک تھے ، اب وہ بھی منظر عام پر اپنا مجرا کرتے نظر آنے لگے ہیں۔اس سبب سے روزانہ نت نئی عریانیت سامنے آتی جار ہی ہے۔اگر یوں ہی یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر لڑکیوں کا کردار مشکو ک ہوتا چلاجائے گااور پاک کردار لڑکیاں کمیاب ہوتی جائیں گی ۔اب عالم یہ ہے کہ حالات رفتہ رفتہ کشیدہ ہوتے جارہے ہیں ۔محسوس تو ایسا ہورہا ہے کہ یہ بے حیائی کہیں فیشن نہ بن جائے اور پھر اسے ماڈرن ہونے کا معیا ر نہ قرار دیا جانے لگے اور جو باحجاب ہوں انہیں دقیانوسیت سے تعبیر کیا جانے لگے ۔لہٰذا،ہمیں آج ہی سے اس پر قدغن لگاناہے ۔خود سے شروع کریں ۔اپنی عزت کو بچائیں ۔دوسروں کی ناموس کی حفاظت کریں ۔فرد سے معاشرہ بنتا ہے ۔اگر یہ فکر رائج ہوجائے تو پھر معاشرہ میں پھیلی برائیوں کا سد باب ہوجائے اور ایک اچھے سماج کی تشکیل خود بخود ہوجائے گی ۔
حجاب اورعفت کے سلسلے سے ہمارے جو خیال ،عام ہے کہ لڑکیاں ہی تو بے پردہ نکل آتی ہیں اس میں ہماری غلطی تھوڑی ہے ۔ہمار ا یہ عام خیا ل قرآن کی روسے باطل ہے ۔
ارشاد الٰہی ہوتا ہے :اے پیغمبر علیہم السلام آپ مومنین سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں ۔۔۔(سورہ نور ۳۰)
اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں ۔۔۔(سورہ نور ۳۱)
اگر آپ مذکورہ آیت کا تجزیہ کریں تو قصور ہمارا نکلے گا۔قرآن مجید میں پہلے مردوں کو حجاب کا حکم دیا گیا ۔بعد میں عورتوں کو ۔اگر ہم نگاہوں کی حفاظت کرنے لگیں توپھر بے حیائی کی شرح میں واضح کمی نظر آنے لگے گی ۔
مذکورہ بالا عبارت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ صنف نسواں بناؤ سنگھا ر نہ کریں ۔ہاں! اسلامی حدود کا لحاظ ضروری ہے۔اگر حجاب ،اسلامی قوانین کے حصار میں ہوتو حسن پر چار چاند لگ جائے ۔جسمانی حسن کے ساتھ ساتھ کردا ر کی بھی معراج ہوجائے گی ۔
اگر انسان مذہبی تعصب کی عینک اتار کر اسلامی قوانین پر تامل کرے اور پھر اس پر عمل در آمد کرے تو معاشرہ سے برائیوں کا حصار سکڑ تا چلاجائے گا ۔لہذا،اگر معاشرہ سے بے حیائی اور عریانیت ختم کرنی ہو تو اسلامی حجاب پر پابندی عائد کرنے کے بجائے حجاب کی پابندی کریں ۔