سال 2020 نے آخر میں جاتے جاتے 29 دسمبر کو نصیرآباد " بلوچستان" کے ایک صوفی منش اور نڈر انسان محمد ابراہیم کھوسہ صاحب کو ہم سے چھین لیا ۔ ابراہیم صاحب نصیرآباد میں صوفی صاحب کے عرف عام سے مشہور تھے ۔ وہ ایک عجیب قسم کے بہادر انسان تھے جب کسی بات پر اڑ جاتے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹیں یا اس میں لچک پیدا کریں خواہ اس میں ان کو کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ اپنے موقف اور اپنے طئے کردہ اصولوں کی خاطر وہ اپنی زندگی میں کافی نقصان بھی اٹھاتے رہے لیکن کبھی بھی اس پر انہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی ملال۔ صوفی صاحب پر جون ایلیا کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ
میں بھی عجیب شخص ہوں اتنا عجیب کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
صوفی محمد ابراہیم کھوسہ صاحب کا شمار نصیرآباد کے سینیئر ترین صحافیوں میں ہوتا ہے ۔ وہ ڈیرہ مراد جمالی میں روزنامہ جنگ کے پہلے نامہ نگار مقرر ہوئے تھے بعد ازاں انہوں نے روزنامہ مشرق کوئٹہ کو جوائن کیا ان کی جگہ پر روزنامہ زمانہ کوئٹہ کے نامہ نگار عزیز اللہ بلوچ صاحب نے روزنامہ جنگ کوئٹہ کے نامہ نگار مقرر ہوئے ۔ طویل عرصہ بعد 1997 میں صوفی صاحب نے روزنامہ کوہستان کوئٹہ کو جوائن کیا ان کی جگہ پر عبدالرزاق بنگلزئی صاحب روزنامہ مشرق کوئٹہ کے نامہ نگار مقرر ہوئے ۔ میں جب روزنامہ مشرق کوئٹہ میں " ضرب قلم " کے عنوان سے مستقل کالم نگاری کر رہا تھا تو جب مشرق کے ایڈیٹر مقبول احمد رانا صاحب نے روزنامہ کوہستان کوئٹہ جوائن کیا تو انہوں نے اپنے مشرق کے نمائندوں اور کالم نگاروں کو بھی کوہستان جوائن کرنے کی دعوت دی اس لیئے میں بھی دیگر کالم نگاروں عطا شاد صاحب جو کہ مراد بلوچ کے فرضی نام سے " زیر آسماں " کے عنوان سے کالم لکھتے تھے وہ پروفیسر عزیز بگٹی صاحب اور عزیز بھٹی صاحب ، ماجد فوز صاحب و دیگر بھی کوہستان میں آ گئے ۔ کچھ عرصہ بعد جب کوہستان کے مالک نے مقبول رانا صاحب کو فارغ کر دیا تو دیگر تمام کالم نگار اور نامہ نگار واپس مشرق میں آ گئے تھے مگر صوفی محمد ابراہیم کھوسہ صاحب واحد شخص تھے جنہوں نے مشرق میں واپس جانا مناسب نہیں سمجھا جبکہ کوہستان بھی ناکامی کا شکار ہو گیا جس سے صوفی صاحب دل برداشتہ ہو کر ایک سائیڈ ہو گئے اور اپنے بڑے فرزند محمد ایوب کھوسہ کو کوہستان کا نمائندہ مقرر کرا دیا اور خود شعبہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے ۔ انہوں نے تمام تر توجہ اپنے قائم کردہ غزالی پبلک اسکول ڈیرہ مراد جمالی پر مرکوز رکھی ۔ وہ پرائیویٹ پبک اسکولز نصیرآباد کے ڈویژنل صدر کے عہدے پر بھی فائز ہوئے ۔
صوفی صاحب بہادری میں اپنی مثال آپ تھے ۔ میں نے نصیرآباد کے صحافیوں میں ان جیسا بہادر کوئی اور نہیں دیکھا وہ کسی سے کبھی بھی خوف زدہ ہوئے اور نہ ہی مرعوب ہوئے بلکہ طاقت ور لوگ جن میں سرکاری افسران ہوں یا سیاست دان، ان سے ڈرتے تھے وہ نصیرآباد کی تاریخ کے حقیقی دبنگ اور نڈر صحافی تھے۔ اکثر صحافی پولیس و انتظامیہ اور سیاست دانوں کے دفتر اور درباروں میں جانے کو اپنی عزت اور شان سمجھتے ہیں اور مالی مفادات حاصل کرتے ہیں لیکن صوفی صاحب واحد صحافی تھے جو کہ پولیس و انتظامیہ اور سیاست دانوں کے پاس بغیر کسی کام کے جانے اور تعلقات بڑھانے میں اپنی اور صحافت کی توہین سمجھتے تھے ۔ وہ سب کو لگی لپٹی کے بغیر کھری کھری باتیں سناتے تھے ۔ ایک بار 2010 میں صوبائی وزیر میر محمد صادق عمرانی صاحب نے صوفی صاحب سے کہا کہ آپ اپنے پریس کلب کے ممبران کی شناختی کارڈز کی نقل کاپیاں دیں تو میں ان کی کسی مد میں مالی معاونت کروں تو صوفی صاحب نے سختی کے ساتھ جواب دیا کہ آپ ہمیں بھکاری بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں یہ مجھے ہرگز منظور نہیں ہے اور یہ کہہ کر وہ صادق عمرانی صاحب کی رہائش گاہ سے اٹھ کر چلے گئے ہم بھی ان کے ساتھ تھے ۔ صوفی صاحب ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب کے 7 مرتبہ صدر رہ چکے ہیں ۔ جعفر آباد کا نصیرآباد سے الگ ضلع ہونے کے بعد 1995 میں عزیز اللہ بلوچ صاحب کو ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب کے پہلے صدر اور علی گوہر بلوچ صاحب کو پہلے جنرل سیکریٹری منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اس کے بعد 1996 میں صوفی صاحب پریس کلب کے دوسرے صدر منتخب ہوئے ۔ جس پر عزیز اللہ بلوچ صاحب نے ان کو صدر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ پریس کلب دو گروپوں میں تقسیم ہو گیا پھر درمیان میں کوئٹہ کے صحافیوں نے آ کر دونوں کے درمیان صلح کروا دیا لیکن اس صلح میں دونوں نے پریس کلب سے میری رکنیت ختم کر دی تھی جس کے کافی عرصہ بعد میں نے 2002 میں ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب کے نام سے الگ گروپ بنایا جس میں خادم حسین عمرانی اور عبدالغفار نہال رڈ بھی شامل تھے جنہوں نے مجھے متفقہ طور پر صدر منتخب کیا ۔ ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب کے صدر منتخب ہونے کے حوالے سے اخبارات میں مجھے بلوچستان کے پریس کلبز، صحافتی اور سیاسی و مذہبی تنظیموں کی جانب سے بہت سے مبارک باد کے پیغامات ملنے لگے تو صوفی صاحب اور عزیز اللہ بلوچ صاحب پریشان سے ہو گئے کہ لوگ حقیقت جانے پر آغا نیاز مگسی کو ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب کا حقیقی اور اکثریتی صدر سمجھ رہے ہیں جس کے پیش نظر انہوں نے فوری طور پر اپنے پریس کلب کو ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب کا نام دے دیا ورنہ اس سے قبل اس کا نام " انجمن صحافیان نصیرآباد پریس کلب " تھا اور پھر عزیز اللہ بلوچ صاحب نے میری اسی سال یعنی 2002 میں پریس کلب میں ممبرشپ بحال کرا دی اور پھر 2003 کے سالانہ الیکشن میں عزیز اللہ بلوچ صاحب نصیر مستوئی صاحب اور ولی محمد زہری صاحب نے مجھے ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب کا صدر منتخب کروا لیا لیکن میرے مد مقابل عبدالرزاق بنگلزئی صاحب نے مجھے صدر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا شیخ عبدالرزاق اور فیض لہڑی صاحب و دیگر دوست ان کی حمایت میں تھے تاہم کچھ دوستوں کی مصالحتی کوششوں کے باعث عبدالرزاق بنگلزئی صاحب نے پریس کلب اور صحافیوں کے مفاد کی خاطر مجھے صدر تسلیم کر لیا ۔ عبدالرزاق بنگلزئی صاحب کو ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب کا سب سے زیادہ عرصہ یعنی 8 بار پریس کلب کا صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے لیکن 2 سال قبل عبدالرزاق بنگلزئی صاحب اور میں نے صحافت سے کنارہ کشی اختیار کر لی البتہ سوشل میڈیا میں لکھنے کا اپنا شوق پورا کر لیتے ہیں جبکہ نصیرآباد کے سینیئر ترین صحافی صوفی محمد ابراہیم کھوسہ صاحب اور عزیز اللہ بلوچ صاحب اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ڈیرہ مراد جمالی پریس کلب کے موجودہ صدر ولی محمد زہری صاحب کو دنیا سے رخصت ہونے والے اپنے صحافی دوستوں عزیز اللہ بلوچ، صوفی محمد ابراہیم کھوسہ صاحب، بشیر احمد بنگلزئی صاحب اور غلام سرور بلوچ صاحب کو عزت اور احترام کے ساتھ یاد رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔