بلوچستان میں "بابو" کا لفظ ہر عام و خاص میں نہایت مقبول اور باعث احترام سمجھا اور مانا جاتا ہے چناں چہ ضلع نصیرآباد میں بھی بابو کا لفظ بہت مقبول اور معروف ہے۔ ہمارے یہاں کسی شخص کو عزت اور احترام دینے کے لیے بابو کے لفظ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ ویسے عوام میں بابو لفظ 3 اقسام کے لیے مخصوص اور مشہور ہے ۔ کسی بھی سرکاری محکمہ کے کلرک کو بابو کہا جاتا ہے ٹرین میں مسافروں سے ٹکٹ چیک کرنے والے اہلکار کو بھی بابو کہا جاتا ہے اور پھر بڑی عمر والے بزرگ اور معمر شخص کو بھی تعظیم کے لیے بابو ہی کہا جاتا ہے ۔ بلوچستان میں براہوئی زبان کے ممتاز ادیب و صحافی اور دانشور نور محمد پروانہ صاحب کو بھی بابو کہا جاتا تھا جبکہ ضلع نصیرآباد سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر میر محمد امین عمرانی اور ضلع نوشکی سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر محمد رحیم مینگل کو بھی بابو کہا جاتا ہے ۔ عمر کے لحاظ سے ضلع نصیرآباد میں سابق صوبائی وزیر سردار فتح علی خان عمرانی اور سابق صوبائی وزیر میر محمد صادق عمرانی بابو یا بابا اور بابے کہلانے کے مستحق ہیں مگر ان کو نہ بابو کہا جاتا ہے اور نہ ہی بابا کہا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس سردار فتح علی خان عمرانی کے فرزند سردارزادہ غلام رسول عمرانی کو " بابا " کہا جاتا ہے اور یہ چھوٹی عمر میں ضلع نصیرآباد میں "بابا" کے طور پر مشہور و معروف ہو چکے ہیں۔
جب یہ کلرک بابو آفیسر بن جاتے ہیں تو پھر ان کو بابو کہنا اور سننا اچھا نہیں لگتا اور ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن بابو کا لفظ ان سے چپکا ہوتا ہے وہ کسی صورت نہیں مٹتا ۔ ضلع نصیرآباد میں محکمہ بلدیات کے 6 کلرک صاحبان چیف آفیسر کے عہدے پر فائز ہو گئے جن میں ارباب صالح محمد رڈ، سلیم خان ڈومکی، خیر اللہ جتک، احمد نواز جتک، بچل لاشاری اور حاجی خان جونیجو جبکہ محکمہ مال( روینیو ڈپارٹمنٹ ) کے ایک کلرک غلام حسین بھنگر صاحب ترقی کر کے اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز ہو گئے لیکن اس کے باوجود ان تمام صاحبان کو لوگ آج بھی بابو کے لفظ سے مخاطب کرتے ہیں ۔ حالانکہ جب لوگ ترقی کرتے ہیں تو ان کا لائف اسٹائل بھی تبدیل ہو جاتا ہے ان کے ذرائع آمدن میں بھی حیرت انگیز طور پر اضافہ ہو جاتا ہے وہ ہزار پتی اور لکھ پتی سے کروڑ پتی اور ارب پتی تک بن جاتے ہیں ان کی دولت اور جائیداد وغیرہ کا شمار تک نہیں کیا جا سکتا مگر کیا کیجیے کہ لفظ بابو آخر تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔
2018 کے عام انتخابات میں ضلع نصیرآباد کی صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں کے لیے " صادق اور امین " منتخب ہو گئے تھے ۔ یعنی میر محمد صادق عمرانی اور میر محمد امین عمرانی ۔ میرے مشاہدے کے مطابق نصیرآباد میں عمرانی قبیلے میں ان کے قبیلے کے افراد جس قدر محمد امین عمرانی کی عزت کرتے ہیں اس کی کوئی اور مثال نہیں ۔ محمد امین عمرانی کبھی سرکاری ملازم یا کلرک نہیں رہے لیکن وہ میر کی بجائے بابو کے نام سے مشہور ہیں مگر جب وہ رکن صوبائی اسمبلی اور صوبائی وزیر بن گئے تو ان کی براداری سے ان کے چند چاہنے والوں نے یہ جذباتی اعلان کر دیا کہ آئندہ اگر کسی نے ہمارے سرکردہ یعنی سربراہ محمد امین عمرانی کو بابو محمد امین عمرانی کہا تو اس کی خیر نہیں ہم اس سے اچھی طرح نمٹ لیں گے ان کے بقول میر محمد امین عمرانی ایک صوبائی وزیر ہیں اور لوگ ان کو بابو کہہ کر مخاطب کریں یہ ان کی توہین ہے ۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے حفظ ما تقدم کے طور پر محمد امین عمرانی صاحب کو " بابو" کہنا چھوڑ دیا کیوں کہ " جان ہے تو جہان ہے " ۔ بابو محمد امین عمرانی کے بعد سابق صوبائی وزیر میر عبدالغفور لہڑی کے ایک چھوٹے بھائی میر یار محمد لہڑی کو بھی سرکاری ملازمت کے باعث لوگ بابو یار محمد لہڑی کے نام سے مخاطب کرتے ہیں اب تو میر یار محمد لہڑی سرکاری ملازمت سے استعفی دے کر سیاستدان بن گئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بابو کا لفظ ان کا پیچھا چھوڑتا ہے کہ نہیں۔
محبت اور پیار کے اظہار کے بھی بہت سے طریقے ہوتے ہیں اور ضلع نصیرآباد میں بھی لوگ اپنے ممدوح اور محبوب کو پیار اور محبت کے جذبے کے تحت مختلف قسم کے القابات اور خطابات سے نوازتے ہیں یا ان کے نام سے کچھ منصوب کرتے ہیں نصیرآباد میں اس قسم کی بھی کافی مثالیں ہیں اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو صرف اپنی ذات سے یعنی اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں ۔ سید مہتاب حسین شاہ اور سید عبداللہ شاہ کو ان عقیدت مندوں اور مریدین نے سردار کے خطاب سے نواز رکھا ہے سید عبداللہ شاہ کے ایک عقیدت مند میر لیاقت علی لاشاری نے اپنے مرشد سے والہانہ محبت کے جذبے کے تحت ان کے نام سے ڈیرہ مراد جمالی میں "عبداللہ شاہ ٹاؤن" منسوب کر دیا ہے۔ سابق صوبائی وزیر سردار فتح علی خان عمرانی نے اپنے علاقے تمبو سے محبت کی وجہ سے ضلع نصیرآباد کا نام تبدیل کروا کر ضلع تمبو رکھوا دیا تھا۔ جس کو بعد میں تبدیل کر کے ضلع نصیرآباد کا نام بحال کر دیا گیا۔ اس کے بعد سردار صاحب نے اپنے بڑے فرزند بابا غلام رسول خان عمرانی سے محبت کے جذبے کے تحت ان کے نام سے ضلع نصیرآباد میں تحصیل بابا کوٹ بنوا دیا۔ سابق صوبائی وزیر میر محمد صادق عمرانی نے اپنے والد صاحب خان محمد عمرانی سے محبت اور عقیدت کے طور پر اپنے آبائی علاقے کا نام "خان کوٹ" رکھ دیا جبکہ سابق صوبائی وزیر میر عبدالغفور لہڑی نے اپنے آپ سے محبت کے جذبے کے تحت اپنے نام سے منسوب "غفور آباد " قائم کر دیا ہے۔