تقسیمِ ہند اور ہجرت کے نتیجے میں برصغیر کے بے شمار آباد گھرانے ویران ہوئے اور اَن گنت ہنستے کھیلتے خاندان شکست و ریخت سے دوچار ہوئے، وہ دور ایسا تھا کہ حساس ذہنوں اور بیدار دماغوں پر قیامت برپا کر گیا۔ ناصر کاظمی (1925-1972) اس وقت نوجوان تھے، انبالہ ان کا وطن تھا اور وہیں رہتے تھے، حالات کی ستم ظریفی نے انھیں بھی ہجرت پر مجبور کیا اور وہ انبالے سے لاہور جا پہنچے، مگر اپنے وطن اور وطن والوں کی یاد انھیں پیہم ستاتی رہی، ان کا دل رنجِ رائیگانی تلے دبا رہا، جس کا اظہار وہ تاحیات اپنے ذہنی و عملی رویوں اور ادبی و شعری تخلیقات کے ذریعے کرتے رہے۔ ناصر نے بنیادی طور پر ہجرت کے کرب کو مختلف زاویوں سے شاعری کا موضوع بنایا اور حسن و عشق کے روایتی عنوانِ غزل کو بھی نیاپیرایۂ اظہار دیا؛بلکہ ان کے ذریعے اردو غزل کو موضوعاتی، لفظیاتی ومعنوی اعتبار سے ایک تازہ سمتِ سفر ملی، اس کے اسلوب میں دل آویزی اور مضامین میں تنوع پیدا ہوا۔ ناصر اپنے خیالات کا اظہار ایسے اشعار کے ذریعے کرتے، جو الفاظ کی بندش اور تراکیب کے اعتبارسے نہایت سہل ہوتے، مگر ان کی معنیاتی سطح میں گہرائی و گیرائی ہوتی، نتیجتاً ان کے اشعار آن کی آن میں قارئین کے دلوں میں کھب جاتے اور لوگ سنتے ہی انھیں آویزۂ گوش بنا لیتے۔ناصر کی شاعری میں ایک عجیب قسم کی معصومیت، سادگی اور ایسی بے ساختگی ہے، جو اس میں طربناکی و سحر انگیزی پیدا کر دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں بیتے دنوں کا عکس اور گزشتہ واقعات واحوال کا نقش جابجا بکھرا ہواہے، اُن دِنوں کو وہ بڑی افسردگی سے یاد کرتے ہیں، جن کا ساتھ چھوٹ گیا اور ان عزیزوں کی گم شدگی پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں، جو ایک عظیم سیاسی سانحے کی نذر ہوگئے:
پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انھیں کہ آسمان کھا گیا
جنھیں ہم دیکھط کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے
یہ کون لوگ ہیں مرے اِدھر اُدھر
وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے
وہ دل میں کھبنےوالی آنکھیں کیاہوئیں
وہ ہونٹ مُسکرانے والے کیا ہوئے
گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ
دلی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ
اب وہ دریا نہ وہ بستی، نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں تھا پہلے!
دوست بچھڑے ہیں کئی بار مگر
یہ نیا داغ کھلا ہے اب کے
پتیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں
قتلِ گل عام ہوا ہے اب کے
شفقی ہو گئی دیوارِ خیال
کس قدر خون بہا ہے اب کے
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہم سفر تھا، مثالِ گردِ سفر گیا وہ
مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی، ستم گروں کی پلک نہ بھیگی
جونالہ اٹھا تھارات دل سے،نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ!
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
پھر یہ ہوا کہ ’’اُداسی‘‘ ناصر کاظمی کی شاعری کا شناس نامہ بن گئی، البتہ اس اداسی میں بھی ایک دل آویزی اور دلکشی تھی۔ خاص کر حرماں نصیبی وانسانی زندگی کی بے بسی و بے چارگی کے مختلف رنگوں اور کیفیات کی منظرکشی ناصر نے بڑے پراثر انداز میں کی ۔ اداسی حقیقی معنوں میں ایک تکلیف دہ کیفیت کانام ہے، کہ اس کا تعلق بھی کسی نہ کسی تکلیف دہ سانحے سے ہی ہوتا ہے۔ناصرکاظمی نے بھی عموماً اپنے شعروں میں اداسی کے اسی پہلو کی عکاسی کی ہے، مگر بارباراس کے مختلف مظاہر اورپس منظر کا ذکر کرکے اور خوش رنگ الفاظ وخیال کے پیراہن میں اسے پیش کرکے انھوں نے اس میں رومانویت اور کشش پیدا کردی ہے، ان کے بعض اشعار کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ اداسی بھی کوئی مزے دار و سرور بخش کیفیت ہے اور اس سے لطف لینا چاہیے، مثلاً:
اپنی دُھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے؟
امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصرؔ
جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اس نےحال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دم گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے
سفرِ عشق میں ہجر وفراق ایک کرب انگیز واقعہ ہے اور غزل کے شعرا جہاں وصال کی شادکامیوں کو اپنے وسیع، متنوع و حسین خیالات کے زور پر خوب صورت انداز میں بیان کرتے ہیں، وہیں جدائی کی تشریح و تعبیر میں بھی ان کا زورِتخیل خوب کام کرتا ہے۔ ناصر کاظمی نے ہجر اور اس سے متصل مختلف احوال کواپنے اشعار میں بیان کیاہے، ان کا ایک رنگ تو وہ ہے جو اوپر کے اشعار میں مذکور ہوا اور کچھ دوسرے رنگ ملاحظہ فرمائیں:
اے دوست! ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
خیر تجھے تو جانا ہی تھا
جان بھی تیرے ساتھ چلی ہے
کون اِس راہ سے گزرتا ہے
دل یوں ہی انتظار کرتا ہے
بس یوں ہی دل کو توقع سی ہے تجھ سے
ورنہ جانتا ہوں کہ مقدر ہے میرا تنہائی
مذکورہ اشعار میں تین مختلف کیفیتیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلے شعر میں محبوب کی رفاقت سے محرومی اور محبت سے دامن کشی کے باوجود محبوب کی ضرورت کے احساس کا ذکرہے۔دوسرے شعر میں فراقِ یارکے رنج و غم کی شدت یوں بیان کی ہے کہ محبوب کا جانا تو خیر مقدرہی تھا،مگر اس کے جانے کے ساتھ ایسا لگتاہے میری جان نکلی جاتی ہے۔تیسرے اورچوتھے شعر میں یاس،قنوطیت اور ناامیدی کی کیفیت کے ساتھ ایک امیدِ موہوم کا اظہار ہے کہ محبوب کی دوری و مہجوری اورتنہائی گوکہ ایک حقیقت ہے،مگردل پھر بھی منتظرہے کہ شایدوہ لوٹ آئے۔پروین شاکر نے اس کیفیت کواپنے مخصوص نسائی لہجے میں یوں بیان کیاہے:
اب تو اِس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
دوسرے کئی اشعار میں اس کے بالکل اُلٹ خیالات کا اظہارکیاہے۔محبوب سے جدائی پر گریہ و زاری اور ہائے وائے کرنے کی بجاے اس سانحے سے بے نیازانہ گزرنے کی تلقین کی ہے:
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں!
بلاؤں گا، نہ ملوں گا، نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا
ایک کیفیت یہ ہے کہ انقلاباتِ زمانہ اور سانحاتِ زندگی اس کی فرصت ہی نہیں دیتے کہ محبوب سے جدائی کا غم سنجو کر رکھا جائے، انسان کے شخصی حالات اس تواتر اور تیزی سے پلٹا کھاتے ہیں کہ وہ غمِ یار سے نکل کر غمِ روزگار سے دوچار ہوجاتا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے اورتقریباًہرحساس انسان جہاں عمر کے ایک مرحلے میں جذباتی وابستگی کے طوفان بدوش احوال سے گزرتاہے،وہیں اس پر بیتنے والے حقیقی واقعات وحالات کے تھپیڑے اس طوفان کو ہباء اً منثوراً کر دیتے ہیں:
جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی،مجھے بھی صبر آ گیا
تیرا ملنا تو خیر مشکل تھا
تیرا غم بھی جہاں نے چھین لیا
نہ اب وہ یادوں کاچڑھتا دریا، نہ فرقتوں کی اُداس برکھا
یوں ہی ذراسی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں
ایک کیفیت یہ بھی ہے:
کہیں ملا تو کسی دن منا ہی لیں گے اسے
وہ زود رنج سہی ، پھر بھی یار اپنا ہے
اور یہ شعر تو کمال کاہے، ہجر وفراق کی ساری داستان گویا ہمارے شاعر کی خیال آرائیوں کا کرشمہ ہے، جدائی بھی اپنی ہے اور انتظار بھی اپنا ہے، اپناآپ ہی گم ہواہے اوراپنی ہی واپسی کے منتظر ہیں:
وہ کوئی اپنے سوا ہو تو اس کا شکوہ کروں
جدائی اپنی ہے اور انتظار اپنا ہے
غالباً اسی وجہ سے ناصر کاظمی کے خاص دوست انتظار حسین نے ایک جگہ لکھاہے کہ ناصرکاظمی نے اپنی شاعری میں حسن و عشق اور ہجرووصال کی جن کیفیات وواردات کوبیان کیاہے،ان کا قارئین کی زندگیوں سے تعلق ہوتوہو؛لیکن ناصر کی حقیقی زندگی سے ان اشعار کا تعلق نہیں ہے،وہ محض شاعرانہ تخیل کی کام جوئیوں کانتیجہ ہیں۔وہ خود پر ایسی کیفیات طاری کیے رہتے تھے اورانہی کے زیر اثراشعار کہتے تھے۔ڈاکٹرحسن رضوی نے اپنی کتاب’’وہ تیراشاعر،وہ تیراناصر‘‘
(ط:سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور1996)
میں ناصرکاظمی کی چھوٹی بحروں کی مسلسل غزلوں کے مجموعے ’’پہلی بارش‘‘کی وجہِ نزول بیان کرتے ہوئے ان غزلوں کاحقیقی مصداق متعین کرنے اورناصرکی زندگی میں جذباتی وابستگی کی کارفرمائیوںکی جستجو کی کوشش کی ہے،جسے انتظار حسین نے اسی کتاب کے پیش لفظ میں’’فضول‘‘ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ’’شاعری کو سمجھنے کایہ بہت سطحی طریقہ ہے‘‘۔ حالاں کہ اسی پیش لفظ میں انتظار صاحب نے یہ بھی لکھاہے کہ ناصر کے یہاں واقعہ اور تخیل اس قدرگھل مل گئے ہیں کہ ان کا ایک دوسرے سے جداکرنا مشکل ہے،گویااس کا بھی امکان ہے کہ ناصر کاظمی نے غزلیہ شاعری میں جن احوال وواردات کا اظہار کیاہے، وہ ان کی اپنی سرگذشت ہو۔
ناصر نے عرصۂ وصال کی بھی بڑی دل آگیں تصویرکشی کی ہے۔ پہلی بارش کی ایک مسلسل غزل ملاحظہ فرمائیں:
اِک رخسار پہ زلف گری تھی
اِک رخسار پہ چاند کھلا تھا
ٹھوڑی کے جگ مگ شیشے میں
ہونٹوں کا سایا پڑتا تھا
چندر کرن سی انگلی انگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا
اک پاؤں میں پھول سی جوتی
اک پاؤں سارا ننگا تھا
تیرے آگے شمع دھری تھی
شمع کے آگے اک سایا تھا
تیرے سایے کی لہروں کو
میرا سایا کاٹ رہا تھا
ایک کیفیت یہ ہے کہ وصال میں بھی دل پر بے قراری ، بدحواسی اور اَن جانا ہر اس طاری رہتاہے اور وہ اس نعمت سے شادکام ہونے کی بجائے کسی اَنہونی کے اندیشے میں مبتلا رہتاہے:
ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
حتی کہ محبوب کا تصور بھی بسااوقات ذہن پر لرزہ طاری کردیتاہے:
یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں!
’’تنہائی‘‘ بھی ناصر کاظمی کی شاعری میں منفرد کیفیات کا استعارہ ہے۔جب گردوپیش میں ہوٗکا عالم ہوتا، آس پاس کسی متنفس کانشان نہ ملتا، چہارجانب سناٹا ہوتا،توتنہائی کے اس خاموش و سنسان جنگل میں ہمارے شاعر کی تخلیقی رگ پھڑک اٹھتی اور پھر وہ اپنے خیال کی موج میں بہنے لگتا، اسے یوں لگتا کہ آس پاس،چاروں طرف، دوردور تک گھنی زلفوں کے سایے ہیں، جسم و روح پردلدار نظروں کی رومان انگیزپھواریں پڑرہی ہیں، رخساروں کے گلاب کھل رہے اور بولتے ہونٹوں کی شراب اُبل رہی ہے، بس اس تصور سے اس پر کیف و خمار طاری ہوجاتا، پھرایک سے بڑھ کرایک خوب صورت غزلیں اور اشعاراس کی بارگاہِ تخلیق میں سجدہ ریز ہوتے۔ تنہائی اس کی مجبوری بھی تھی اور قوت بھی،تنہائی اس کا پاے شکستہ بھی تھی اور دستِ دعا بھی،دکھ کی گھڑیوں میں تنہائی اس کے لیے دلاسہ تھی اور سامانِ تسلی، تنہائی میں اسے مخصوص قسم کی قداست نظر آتی،ایسی جو یادِ خدا اور خوفِ خدا میں لپٹی ہوتی۔ تنہائی اس کے دل کی جنت تھی اور اول وآخر اسے تنہائی سے عشق تھا:
چھوڑ گئے جب سارے ساتھی
تنہائی نے ساتھ دیا تھا
سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی
تنہائی کا پھول کھلا تھا
تنہائی میں یاد خدا تھی
تنہائی میں خوفِ خدا تھا
تنہائی محرابِ عبادت
تنہائی منبر کا دِیا تھا
تنہائی مرا پائے شکستہ
تنہائی مرا دستِ دعا تھا
وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی
میں جسے باہر v ڈھونڈ رہا تھا
تنہائی مرے دل کی جنت
میں تنہا ہوں میں تنہا تھا
ناصر کے دوستوں نے لکھاہے کہ عموماً ان پر عجیب محویت اور ازخود رفتگی کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ سردی ہو یا گرمی، رات کے سناٹوں میں وہ تن تنہا لاہور کی سڑکوں اور گلیوں میں پھرا کرتے اور اپنی تخلیقی سیرابی کا سامان کرتے، دیر رات اپنے گھر پہنچتے، ان کی اہلیہ دروازہ کھولتیں، وہ گھر میں داخل ہوتے، ڈائری میں تازہ وارد ہونے والی غزل لکھتے اور بستر پر دراز ہوجاتے۔ رات کے سناٹوں اور تاریکی میں بھی انھیں کوئی ایسا حسن نظر آتا تھا، جسے وہ تن تنہا محسوس کرناچاہتے، ان کی اپنی زندگی کا ماضی و حال بھی اس تاریکی اور سناٹے میں ان کے پردۂ ذہن پر روشن ہو جاتا، پھر وہ ڈوب کر شعر کہتے:
رات کتنی گزر گئی لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں
کہیں کہیں کوئی روشنی ہے
جو آتے جاتے سے پوچھتی ہے
کہاں ہے وہ اجنبی مسافر
کہاں گیا وہ اُداس شاعر؟
وہ رات کا بےنوا مسافر، وہ تیراشاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھاتھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے
دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے
کہاں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے
ساری بستی سو گئی ناصرؔ
تو اب تک کیوں جاگ رہا ہے
میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا
یہ بستی چین سے کیوں سو رہی ہے
بہر کیف ناصر کاظمی نے اردو غزل کو اپنی جودت وندرتِ فکر و تخلیق سے مالامال کیا اور اسے موضوعاتی پامالی و یکسانیت سے باہر نکال کر رنگارنگی سے متصف کیا، ان کی بدولت اردو غزل میں جدتِ تخیل اور وسعتِ تفکر کا ایک نیا دور شروع ہوا اور ناصر کو پڑھ کر تازہ کار شعرا کی ایک پوری کھیپ تیار ہوئی۔ انھیں خود اندازہ ہو گیا تھا کہ اردو غزل کو وہ کیاکچھ دے رہے ہیں؛ چنانچہ متعدد مواقع پر انھوں نے بہ طور تحدیثِ نعمت اپنے اس احساس کا اظہار بھی کیا، ایک موقعے سے کہتے ہیں:
ہم نے آباد کیا ملکِ سخن
کیسا سنسان سماں تھا پہلے!
کسی مناسبت سے یہ بھی کہا:
ہم سے روشن ہےکار گاہِ سخن
نفسِ گل ہے مشکِ بو ہم سے
اپنے انفراد و امتیاز کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
زباں سخن کو، سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ مری طرزِ سخن کو ترسے گا
نئے پیالے سہی تیرے دور میں ساقی
یہ دور میری شرابِ کہن کو ترسے گا
ناصر نے غزل پر لگنے والے الزامات کا دفاع بھی کیا، اس کی ایک شکل تو ان کی اپنی خوب صورت غزلیہ شاعری تھی اور دوسری شکل ناقدینِ غزل کو ان کا یہ چیلنج تھا:
کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصرؔ
یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو!
ناصر کاظمی علم و مطالعہ کے انسان بھی تھے، اساتذۂ فن کا وسیع مطالعہ کیا تھا، میر، نظیر، ولی، انشا وغیرہ کی شاعری پر ان کی گہری نظر تھی اور ان کے انتخابات بھی مرتب کیے، مختلف قدیم و معاصر شعرا اور شعری موضوعات پر انھوں نے جو مضامین لکھے ہیں،وہ ان کی تنقیدی براعت اور سخن فہمی کی زبردست صلاحیت پر دال ہیں۔ ناصر کا پہلا شعری مجموعہ ’’برگِ نَے‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جس میں 1952ء سے 1957ء تک کی غزلیں شامل ہیں، اس کے علاوہ ’’دیوان‘‘، ’’پہلی بارش‘‘، نظموں کا مجموعہ ’’نشاطِ خواب‘‘، منظوم ڈراما ’’سرکی چھایا‘‘ شائع ہوئے۔ ان تمام مجموعوں اور غیر مطبوعہ کلام پر مشتمل کلیاتِ ناصر کاظمی بھی شائع ہو چکا ہے، جبکہ ان کانثری سرمایہ’’خشک چشمے کے کنارے‘‘کے نام سے شائع کیاگیاہے۔ ناصرکی زندگی اور ادبی و شعری امتیازات پر ان کے بہت سے معاصرین نے لکھااور بعد میں انھیں باقاعدہ تحقیق کاموضوع بھی بنایاگیا۔اس ضمن میں ڈاکٹر حسن رضوی کی کتاب ’’وہ تیراشاعر، وہ تیراناصر‘‘اہم ہے۔ 2016 میں ہندوستان میں ’’ناصرکاظمی:حیات اور ادبی خدمات‘‘کے نام سے ڈاکٹر ناصر پرویز کی کتاب شائع ہوئی ہے، جو دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ ناصرکاظمی کی شاعری پر معروف ناقد حامدی کاشمیری نے بھی ایک مبسوط تنقیدی مقالہ لکھا تھا، جو پہلی بار 1982ء میں اردو رائٹرس گلڈ الہ آباد کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا۔