دنیا تو سدا رہے گی ناصرؔ
ہم لوگ ہیں یادگار کچھ دیر
ـــــ
گلشنِ (حدید)کےچہار(پانچ) درویش
اور ناصرؔ کاظمی سے جڑی کچھ یادیں
بھلےدنوں کا ذکرہے۔ بھلےدن تومحاورتاً لکھا گیا درحقیقت بارہویں کے ہوشربادن اورنیندیں اڑادینے والی راتیں چل رہی تھیں۔ گلشنِ حدید میں اللہ بخشے تقی صاحب کا کوچنگ سنٹرہوا کرتا تھا
جماعت دوازدہم کی ریاضی کی تابڑتوڑ مشقوں کادف مارنےچار آوارگانِ شام(یہ خوبصورت ترکیب ہردلعزیز وقاص صدیقی کی عطاکردہ ہے)کی ٹولی کہیں نہ کہیں مل بیٹھنےکاحیلہ کرتی
اچھادف مارنےکواس طرح سمجھ لیجیےکہ اللہ بخشےاپنےیوسفیؔ صاحب کہہ گئےہیں
جوانی دیوانی کادف بیوی سےمارتےہیں اوربیوی کااولادسے اولاد کادف سائنسی تعلیم سے ماراجاتاہے اور سائنس کا اپنے یہاں دینیات سے۔ دف کا مرنا کھیل نہیں ہے ۔۔۔ الخ
تو صاحبو تقی صاحب کے کوچنگ سنٹرکا دف مارنے چہاردرویشوں کی ٹولی کو امان ملتی تو کبھی فیزٹو میں جہانگیر کے چائے پراٹھوں میں اور کبھی نیشنل ہائی وے پرملوک ہوٹل کی کڑاہی میں ٹرک ڈرائیور مارکہ کڑک چائےکے پیالوں سے ماپتی گل ہوئی جاتی شام میں بات کہنے کے بہانے تو بہت تھے مگر کبھی کبھی برسبیلِ تذکرہ اس کا ذکر بھی نکل آتا کہ بھلی سی اک شکل تھی۔’نہ یہ کہ حسن تام ہو اور نہ دیکھنے میں عام سی‘
اورایک مشترکہ محبت کی گرہوں میں بندھتےاوردستبردارہوتےدو جگری دوست یہ سب تو قصّۂ پارینہ ہوا مگر آج بھی جب یاروں کی ٹولی بیٹھتی ہے تو پانچ میں سے دو ایک مشترکہ یاد کی دھیمی آنچ پرمسکرا اٹھتے ہیں اور ایک تیسرا وقاص ناصرؔ کاظمی کے لفظوں کا گھونگھٹ اوڑھے دھیرے سے کہہ دیتا ہے
؎ دوستوں کے درمیاں وجہ دوستی ہے تو
چہاردرویشوں کی اس ٹولی کےسیاق وسباق اوربعد ازاں پانچویں درویش کی آمد کےقصےکوایک الگ شام چاہیے۔ خدایاروں کوزندہ اورصحبت کوباقی رکھےتو یہ کہانی کسی اوردن کہیں گے
فی الوقت ناصرؔ کاظمی سےجڑی ایک یادکاذکرکرناتھاسوہم نےکیا
ناصرؔسےجڑی دوسری یادہمارےاردوکےاستادثروت اللہ قادری صاحب کی ہے لیکچرکےدوران خدامعلوم کس کےگزرجانےکاذکر آیاتوانہوں نےوہ جاندارشعر پڑھ دیا
وہ ہجرکی رات کاستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
صدارہے اس کانام پیاراسنا ہےکل رات مرگیاوہ
کلام سیدھادل کولگا۔ پوچھنےپر فرمایا ناصرؔکاہے۔ پھرکہنے لگےناصرؔ کاظمی نےاپنےشعری مجموعےدیوان کانام میرؔ کےشعر پررکھا ہے جانےکانہیں شورسخن کامرےہرگز
تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
اسی دن ہم لائبریری سےناصرؔکی دیوان اٹھالائے۔ پرانےوقتوں کےاستاد نبض شناس ہوا کرتےتھے
دیوان کا 1977 ایڈیشن میرؔ ہی کےایک اورلاجواب شعرسےمعنون ہے
مجھ کوشاعرنہ کہومیرؔکہ صاحب میں نے
دردوغم کتنےکیے جمع تو دیوان کیا
مکلیوڈ روڈ پر جہاں نکلسن روڈ کی شاخ نکلتی ہے اس سے ذرا پہلےداہنےہاتھ مومن پورہ کے اداس قبرستان میں ایک قبر ناصرؔکاظمی کی ہے
؎ وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
اللہ ہمارے بےنوا شاعرسےراضی ہو۔ آمین
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...