ناصر کاظمی 8 دسمبر، 1925ءکو انبالہ شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبیدار میجر تھے۔والد کے تبادلوں کی وجہ سے ان کا بچپن کئی شہروں میں گزرا ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ڈی بی ہائی سکول نشائی (صوبہ سرحد) اور نیشنل ہائی سکول پشاور سے حاصل کی. میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے بی اے نہ کرسکے. کالج کے زمانے میں شاعری میں رفیق خاور سے مشورہ کرنے لگے. جو ان سے ملنے اقبال ہاسٹل آتے رہتے تھے.
آزادی کے ساتھ ہی ان کا خاندان پاکستان آ گیا تھا اور لاہور شہر کو مسکن بنالیا تھا۔ لیکن جلد ہی انہیں یکے بعد دیگرے والدین کے چل بسنے کا غم جھیلنا پڑا۔
ناصر 1950 سے 1952 ادبی رسالہ ”اوراق نو“ کے مدیر رہے اور 1952ءمیں رسالہ“ہمایوں”کی ادارت سنبھالی. 1957ءمیں“ہمایوں”کے بند ہونے پر ناصر کاظمی نے اپنا رسالہ خیال جاری کیا. 1958 میں چند ماہ محکمہ سماجی بہبود میں رابطہ افسر رہے. اس کے بعد یکم جنوری 1959 سے 31 جولائی 1968 تک دیہات سدھار پروگرام میں اسسٹنٹ پبلسٹی آفیسر اور اس کے رسالے ہم لوگ کے نائب مدیر رہے.یکم اگست 1964 سے 2 مارچ 1972 کو اپنی وفات تک ریڈیو پاکستان لاہور میں بطور سٹاف آرٹسٹ کام کرتے رہے۔ لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں ان کی قبر پر ان کا یہ شعر لکھا ہے
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
برگِ نَے ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا جو 1952ء میں شائع ہوا۔اس کے بعد غزلوں کے مجموعے”دیوان“ اور ”پہلی بارش“ اور نظموں کا مجموعہ ”نشاطِ خواب“ شائع ہوئے۔ "سر کی چھایا" منظوم ڈراما ہے جو ان کی وفات کے بعد 1981 میں چھپا. ان کےمضامین،ریڈیو فیچرز، مقالات، اداریوں اور انٹرویوز کا مجموعہ "خشک چشمے کے کنارے" کے نام سے شائع ہوا. چند بڑے شاعروں میر، نظیر، ولی، انشا کے الگ الگ منتخبات بھی مرتب کئے. ناصر کی ڈائری بھی شائع ہوئی ہے.
ان کے کچھ شعر
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
ہم نے آباد کیا ملک سخن
کیسا سنساں سماں تھا پہلے
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا
حال دل ہم بھی سناتے لیکن
جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا
اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھہ سے غریب الوطن کو ترسے گا
نیند آتی نہیں تو صبح تلک
گرد مہتاب کا سفر دیکھو
رات کتنی گزر گئی لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں
رہ نورد بیابان غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر
تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھتی رہیں
شب بھر تمہاری یاد نے سونے نہیں دیا
یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا
یاد ہے اب تک تجھہ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
دھیان کے آتشدان میں ناصر
بجھے دنوں کا ڈھیر پڑے ہے
پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
خمِ ہر لفظ ہے گلِ معنی
اہل تحریر کا ہنر دیکھو
دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے
دیوانگئِ شوق کو یہ دھن ہے کہ ان دِنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو
یہ آج راہ بھول کے آئے کدھر سے آپ
یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں
میں ہوں ایک شاعرِ بے نوا مجھے کون چاہے مرے سوا
میں امیرِ شام و عجم نہیں میں کبیر کوفہ و رَے نہیں
ناصر سے کہے کون کہ اللہ کے بندے
باقی ہے ابھی رات ذرا آنکھہ جھپک لے
دل ترے بعد سو گیا ورنہ
شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھہ
یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں
پھر آج ترے دروازے پر بڑی دیر کے بعد گیا تھا مگر
اِک بات اچانک یاد آئی میں باہر ہی سے لوٹ آیا
لبِ جُو چھاؤں میں درختوں کی
وہ ملاقات تھی عجب کوئی
راز نیازِ عشق میں کیا دخل ہے ترا
ہٹ فکرِ روزگار غزل کہہ رہا ہوں میں
گزر ہی جائے گی اے دوست تیرے ہجر کی رات
کہ تجھہ سے بڑھ کے تیرا درد ہے مرا ہم ساز
خدا وہ دن بھی دکھاۓ تجھے کہ میری طرح
مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی
کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال
شب گزیدوں کی دعا غور سے سُن
دل میں اک عمر جس نے شور کیا
وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں
یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اُس کی صورت بھی اپنے گھر کی سی ہے
اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب ترا دھیان بھی اُتنا نہ رہا
ناصر یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار
اس فن میں کی ہے میں نے بہت دیر جانکنی
اب دل میں کیا رہا ہے، تری یاد ہو تو ہو
یہ گھر اسی چراغ سے آباد ہو تو ہو
اسیرو کچھ نہ ہوگا شور و شر سے
لپٹ کر سو رہو زنجیرِ در سے
یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر اُدھر
وہ دوستی نبھانے والے کیاہوئے
غمِ فراق میںکچھہ دیر رو ہی لینے دو
بخار کچھہ تو دلِ بے قرار کا نکلے
میں تو ہلکان ہو گیا ناصر
مدتِ ہجر کتنی پھیل گئی
ہر شے پکارتی ہے پسِ پردۂ سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہمنوا بھی ہو
دھیان کے آتشدان میں ناصر
بجھے دنوں کا ڈھیر پڑا ہے
ہم نے آباد کیا ملک سخن
کیسا سنساں سماں تھا پہلے
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
دل تو اپنا اداس ھے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ھے
کنج میں بیٹھے ہیں چپ چاپ طیور
برف پگھلے گی تو پر کھولیں گے
دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے
درخت تو کٹ گیا مگر وہ رابطے ناصر
پرندے تمام رات زمیں پہ بیٹھے رہے
**
آپ ناصرؔ کاظمی کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔
“