نسیم انجم کا ناول’’ نَرک‘‘
نسیم انجم ایک عرصہ سے اردو فکشن میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہیں۔اس کے علاوہ ریڈیائی ڈرامے بھی لکھتی رہی ہیں اور مسلسل کالم نگاری بھی کر رہی ہیں۔ بطور کالم نگار تو میں انہیں کچھ عرصہ سے پڑھتا آرہا ہوں لیکن ان کا ناول ’’نَرک‘‘مجھے حال ہی میں پڑھنے کا موقعہ ملا ہے۔یہ ناول ایسے ہیجڑوں کی زندگی پر مشتمل ہے جن میں سے بعض قدرتی طور پر ایسے تھے تو بعض کو اغوا کرکے جبراَ ہیجڑہ بنا دیا گیا۔اس موضوع سے متعلق انڈیا میں دو تین فلمیں بن چکی ہیں۔ایک دو پاکستانی ڈراموں میں بھی اس حساس موضوع پر کافی سنجیدگی کے ساتھ صورتِ حال کوپیش کیا گیا ہے۔ادبی طور پر افتی نسیم اس موضوع سے خود براہ راست منسلک رہے اور انہوں نے اس المیہ کے بعض پہلوؤں کو اجاگر کیا۔تاہم خود اس المیہ کا حصہ ہونے کے باعث ان کی تحریر میں غم و غصہ اور انتقامی رویہ جلد ابھر آتا ہے۔ادبی شخصیت ہونے کے باوجودافتی نسیم اس موضوع سے متعلق کوئی سنجیدہ بڑا کام نہیں کر پائے۔
نسیم انجم کا کمال ہے کہ ایک خاتون ہوتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اس حساس موضوع پر ناول لکھا بلکہ ناول لکھنے کا حق ادا کر دیا۔’’نرک‘‘ننھے ببلو کی المناک داستان ہے،اس کے ماں باپ دونوں ڈاکٹر تھے۔ایک دن اس بچے کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھراسے جبراََہیجڑہ بنا لیا جاتا ہے۔ اسے گلنار نام دیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں رچ بس جانے کے بعدایک دن آتا ہے جب اسے ہیجڑوں کا گرو بنا دیا جاتا ہے۔ہیجڑوں کی زندگی کے معمولات تو پورے ناول میں موجود ہیں تاہم اس بیچ دو خاص واقعات سامنے آتے ہیں۔
گلنار(ببلو)کی طرح ایک بچہ کہیں سے اغوا کرکے لایا جاتا ہے۔گلنار کو اپنا زمانہ یاد آجاتا ہے اور وہ سب سے چوری کسی نہ کسی طرح اسے اس کے گھر پہنچا دیتی ہے۔تب اسے لگتا ہے کہ اس نے ببلو کو اس کے ماں باپ کے پاس پہنچا دیا ہے۔دوسرا واقعہ ایک نارمل نوجوان دانش کا پیش آتا ہے جوصحافت کی دنیا میں قدم جمانے کی کوشش کررہا ہے۔لیکن سخت گیر باپ کی سختی اور حالات کی ستم ظریفی اسے گلنار کے گھر تک پہنچا دیتی ہے۔ہیجڑوں کے طور طریق کے مطابق وہاں اس کی گلنار سے شادی ہو جاتی ہے۔اس کا سخت گیر باپ اسے عاق کردیتا ہے۔ماں بیٹے کی جدائی کے غم فوت ہو جاتی ہے۔تب اس کے باپ کے رویے میںتبدیلی آتی ہے۔ اس کی دوست تانیہ اسے اس دلدل سے نکلنے میں مدد دیتی ہے۔اگر وہ ملک میں رہتا تو ہیجڑے اسے کسی بھی طریقے سے قتل کرادیتے،اس لیے دانش اور تانیہ بیرون ملک چلے جاتے ہیں،اپنے والد سے اس کی صلح ہو جاتی ہے۔
گلنار دانش کی یاد میں پریشان ہوتی ہے۔جب اس کا آخری وقت قریب آتا ہے وہ سارے ہیجڑوں کو سمجھاتی ہے کہ دوسروں کی تحقیراور تمسخر کا نشانہ بننے سے بہتر ہے ہم سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور اسی معاشرے میں گھل مل کر معمول کی زندگی گزاریں۔یہ ایک طرح سے اپنے معاشرے کے لیے بھی پیغام ہے کہ انسانوں کی اس صنف کو بھی انسان سمجھ کر اپنے ماحول میں جگہ دیں اور ہیجڑہ برادری کو بھی درس ہے کہ الگ تھلگ رہنے کی بجائے نارمل انسان کی طرح محنت کرکے،پڑھ لکھ کر ملازمت کریں،کاروبار کریں۔ بظاہر یہ سیدھی سی کہانی ہے (بس دانش اور تانیہ کے محبت آمیز مکالمے میں ایسے لگتا ہے جیسے خواتین کے کسی رسالے کی رومانی کہانی پڑھ رہا ہوں)لیکن ناول کی تیکنیک میں نسیم انجم نے اپنے انوکھے موضوع کے تمام کرداروں کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ان کی الگ الگ اور ملتی جلتی نفسیات،طور طریق،بظاہر پھکڑ پن مگر بباطن زخمی روح،درد کے اَن دیکھے اور اَن جانے دیار،نسیم انجم نے اتنا کچھ اتنی مہارت سے بھر دیا ہے کہ اس موضوع پر لکھے گئے اس ناول کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ اس ناول کو پڑھتے ہوئے کئی بار میرا دل بھر آیا۔کئی مقامات پر مجھے خوف کا سامنا کرنا پڑا۔ببلو کی نفسی کیفیات نے تو دہلا کر رکھ دیا۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ نسیم انجم نے اس حساس موضوع پر ابھی تک کا سب سے بڑا ناول لکھ دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔