"وانیہ" ایک ضدی اور خودسر لڑکی تھی۔ اگلے دن ہاتھوں میں مہندی لگائے کلاس میں آئی۔ ٹیسٹ لینے سر آئے انہوں نے پیپر دیا۔ وانیہ نے خود جان بوجھ کر پھینک دیا۔ "سر" شرارت نہ سمجھے، پیچھے سے مڑ کر دیکھا اور پین اٹھا دیا۔
وانیہ اصل میں عام شکل و صورت کی مالک تھی۔ لیکن وہ خود کو بہت خوبصورت تصور کرتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ لوگوں کو خوبصورتی اور فیشن سے متاثر کیا جاسکتاہے۔ یہی غلط فہمی اسے ڈبوۓ جارہی تھی۔ کہ ہر انسان کازاویہ نظر ایک ہوتا ہے۔
اب "پروفیسر سجاد صاحب" نے کہا "وانیہ پیپر کے بعد آفس میں میری بات سنتی جانا۔ اب وانیہ دل میں خوش کہ اسے پیپروں میں اچھا رزلٹ ملنے والا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔
جیسے وہ آفس میں داخل ہوئی۔ "سر سجاد" نے "سر تابش" کو بلا رکھا تھا۔ وانیہ کرسی پر بیٹھ کر ٹانگیں ہلانے لگی۔ کہ ابھی "سر تابش" تعریف کریں گے۔ لیکن "سجاد صاحب" غصے سے کہنے لگے " وانیہ تمہیں تمیز نہیں کہ بڑوں کے سامنے کیسے بیٹھتے ہیں۔ یہ جو دونوں ہاتھوں مہندی لگا کر آگئی ہو، کیا آج کالج مینا بازار تھا؟ دو چار باتیں سنا کر وہ "سر تابش" سے کہنے لگے " میں نے آپکو غلط سمجھا اور ڈانٹا، بیشک میں استاد ہوں لیکن بغیر تصدیق کیے آئے دن تمہیں واننگ دیتا رہا لیکن اس میں تمہارا کوئی قصور نہ تھا"۔
"سر تابش" نے جوابا کہا " سر آپ ہماری بہتری کےلیے ڈانٹتے ہیں"۔
تابش بیٹا اب آپ جاؤ۔ اتنے میں وانیہ بھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ وانیہ آپ سے ابھی میں نے بات کرنی ہے سر تابش تلخی سے کہا۔
وانیہ پر شرمندگی کے کوئی آثار ظاہر نہ ہوئے۔ فل غصہ آجاتا ہے وانیہ کو۔" سجاد صاحب" وانیہ کو دیکھتے ہوئے پوچھتے ہیں۔ زندگی کا کیا مقصد ہے؟ مطلب کیا کرنا اور بننا چاہتی ہو؟ وانیہ نے بےنیازی سے جواب دیا۔ ابھی رزلٹ نہیں آیا۔رزلٹ آنے پر فیصلہ کرونگی۔
"سجاد صاحب" افسردہ ہوکر : وانیہ آپ میرے بچوں کی طرح ہو۔ بلکہ کا ہر بچہ میرا بچہ ہے۔ لیکن آپ اچھا رزلٹ اس فیشن، دوسروں پر الزام لگانے اور دوسروں کی نظروں میں آنے سے نہیں آئےگا۔
آپ پڑھائی میں دل لگا کر توجہ دو اور اچھا رزلٹ حاصل کرو۔ اب وانیہ کو آئینہ دیکھانے پر شرمندگی محسوس ہونے لگی۔ جو فخر سے بیٹھی تھی وہیں نظر جھکا لی۔
سر سجاد اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے بیٹا عمر کے اس دور ہم بھی گزرے ہیں۔ ٹھیک ہے ہمیں باتیں سمجھ نہیں آتی۔ لیکن ہمیں چھوٹے چھوٹے آداب اور طور طریقے گھر سے سیکھائے جاتے ہیں۔ آپ دکھنے میں اچھے گھر کی ہو تو بچے ایسا کیوں کرتی ہو؟
اب وانیہ کی مکمل حقیقت "سر سجاد کو پتا نہ تھی۔ وانیہ کی حقیقی ماں بچپن میں گزر جاتی ہے۔ گھر میں سوتیلی ماں کے طور طریقے اور ناچاکی دیکھ کر، مناسب تربیت نہ پاکر وہ احساس کمتری کا شکار ہوگئی۔ مرضی سے الٹی سیدھی حرکتیں کرتی اور زندگی کا کوئی خاص مقصد نہ سمجھ سکی۔
لیکن اب سجاد صاحب کی باتوں سے شرمندہ تھی۔ تھوڑے لمحموں میں "سجاد صاحب" اسکی صلاحیت کو بیان کرتے ہوئے تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں وانیہ مجھے آپ کے اچھے رزلٹ کی توقع ہے۔ میری کوئی بات بری لگی ہوتو اس کےلیے معزرت، ہم آپ کے استاد والدین کی طرح آپ کے بھلے کےلیے ڈانٹتے ہیں۔ کل سے کلاس میں مجھے آپکی اندر چھپی صلاحیت اور بہتر وانیہ نظر آنی چاہیئے۔
شام گھر پہنچتے ہی وانیہ نے اپنی نقل و حرکت کا جائزہ لیا۔ آہستہ آہستہ چند دنوں میں اس کی شخصیت میں تبدیلی آئی۔ اچھی تیاری سے امتحان دیا اور اچھے نمبروں کے ساتھ امتحان پاس بھی ہوا۔ کچھ ماہ بعد وہ اپنے خواب کی تکمیل کےلیے "میڈیکل کالج میں داخلہ لے چکی تھی۔ یہ سب "سر سجاد" کی نصیحت کے بدولت ہوا تھا۔