آج کے اس دور میں ہم جس ماحول میں جی رہے ہیں اورسانس لے رہے ہیںوہ ذہنی الجھنوں اورکشمکش سے لبریز ہے۔ایسے پُر آشوب دورِ حیات میںایک ذرا سی خوشی یا مزاحیہ جملہ بھی ہم کو کچھ لمحے کے لئے ایک پُر سکون دنیامیں لے جاتا ہے اورفضا خوشگوار کر کے ذہنی الجھنوں میں تسکین کا سبب بنتا ہے۔گویا کہ مزاح کا سہارا لے کر قلبی سکون حاصل کیا جا سکتا ہے اور اگر کسی عمل یا جملے میں مزاح کے ساتھ طنز بھی شامل ہوجائے تو مئے دو آتشہ کا کام کرتا ہے۔یعنی طنزومزاح کے توسل سے انسان اپنی جملہ تکالیف اور پریشانیوں کو بھول کر ان کا علاج اپنے آس پاس تلاش کرتا ہے اور اگر طنز و مزاح کسی فن پارے پر مشتمل ہو خواہ وہ نثر کی صورت میں ہو یا نظم کے پیرائے میں یہ طنز و مزاح دیر تک اور دور تک اپنا عمل انجام دے کر حیاتِ انسانی کو خوشگوار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔یہ سماج میں فلاح اور بہبود کو روا رکھنے کے لئے بھی انتہائی کارآمد ہوتا ہے کیونکہ ایک اچھا فن کاربحیثیتِ مصلح ہوتا ہے۔
ابتداء سے لیکر آج تک اردو ادب میں نہ جانے کتنے طنز و مزاح کے شعراء آئے ان میں سے کچھ وقت کی قبر میں معدوم ہوگئے تو کچھ زمین ِ طنز و مزاح پر آج بھی گل و لالہ کی مانند مثلِ خوباںاپنے حسنِ فن کی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ کوئی بھی صاحبِ قلم کتنا ہی سنجیدہ مزاج رکھتاہووہ زندگی میں بغیر طنز و مزاح کے نہیں رہ سکتا یعنی تخلیق کار کی تخلیق میں کہیں نہ کہیں طنز و مزاح کا رنگ نظر آتا ہے۔یہ رنگ ان لوگوں کے یہاں وافر مقدار میں ملتا ہے جو طنز و مزاح کو اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کی آماجگاہ بناتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں خواہ وہ قلی قطب شاہؔ ہوں،ولیؔ ہوں،سراجؔ اورنگ آبادی ہوں یا شمالی ہند کے شعراء ان کے یہاںکہیں نہ کہیں طنز و مزاح مل جاتاہے سامنے کی مثال کے لئے غالبؔ کو لیا جاسکتا ہے۔ان کے خطوط ہوں یا ان کی شاعری شوخی و ظرافت کے ساتھ ساتھ طنز کی نمایاں مثالوں سے پُرہے۔ مثلاًغالبؔ اپنے ہم عصر شاعر ذوقؔ کواپنی شاعری میں اکثر طنز و مزاح کا مرکز بنا کر ان سے شکوہ بھی کرتے ہیں اور ان کا مزاق بھی اُڑاتے ہیںجس بات کا ثبوت ان کی فی البدیہہ کہی ہوئی غزل ہے
؎ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
یہ طنزو مزاح غالبؔ کے بعد بھی خوب پروان چڑھا کیونکہ عوام نے اس میں اپنی دلچسپیوں کی بہت سی صورتوں کی نمود پائی۔یہ فنِ ظرافت جب اکبرؔالہ آبادی کی بارگاہ میں پہنچاتو اس میں ایک نئے رُخ سے وسعتوں کے چراغ روشن نظر آئے ۔ان کے بعد بہت سے شعرا نے اس گلشن کو سرسبز و شاداب رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی یعنی مزاحیہ شاعری میں اپنے فن کے ایسے جوہر دکھائے جو انتہائی قابلِ ستائش قراردئے گئے ۔ان شعراء میں سرِفہرست مجیدؔ لاہوری،سید ضمیر جعفریؔ،ظریفؔ لکھنوی،ماچسؔ لکھنوی،ناظرؔ خیامی،راجہ مہدیؔ علی خاں،دلاورفگارؔ،رضا نقوی واہیؔ اور ساغرؔ خیامی وغیرہ نے کافی مقبولیت حاصل کی ۔
جب سے مشاعرے یا شعری نشستیں وجود میں آئیں طنز و مزاح کی ترویج کا بہت بڑا حصہ انھیں کے مقدر میں آیا ۔ان شعری مجلسوں نے جہاں سنجیدگی کو اپنا طرۂ امتیاز بنایا وہیں طنز و مزاح کے زیور سے بھی خود کو آراستہ رکھا ۔دورِ حاضر میںبھی یہ کام مشاعروں اور شعری نشستوں کے ذریعے سے کیا جارہا ہے۔موجودہ دور میں طنزو مزاح کے جن شاعروں نے مقبولیت حاصل کی ہے ان میں ڈاکٹر نشترؔ ؔامروہوی کا نام سرِفہرست ہے۔
امروہہ کی مردم خیزسر زمین سے تعلق رکھنے والے شاعر ـ’’ڈاکٹر نشترؔ امرہوی‘‘ آج کے دور میں محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ان کی شاعری کی ابتداء 1972میں ہوئی اور اس راہ پر وہ آج تک مستعد ہیںانھیں مختلف تنظیموں کی جانب سے مختلف القاب و خطابات اور اوارڈ سے بھی نوازہ گیا جن میں ’’نیّرِقلم‘‘اور ’’دلاورفگار ایوارڈ‘‘قابلِ ذکر ہیں ۔ان کی شاعری غم کی اندھیری چھائوں میں احساسِ سرخوشی کی مشعل ہاتھ میں لیکر افسردگی اور اندوہ ناکی سے اعلانِ بغاوت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔وہ اپنے اندر مختلف دلکش رنگوں کو سمیٹ کر حبس کے ماحول میں قوسِ قزاح کی مانند اپنی جاذبیت کا جادو بکھیرتی ہے اور عالمِ شعور سے وابستہ انسان کی جمالیاتی حس کو بیدار و متحرک کرنے کا عمل انجام دیتی ہے۔
جہاں آج کل کے شاعر لطیفہ سازی اور نازیبا الفاظ کو بھی شاعری میں پیش کرنے سے گریز نہیںکرتے وہیں موصوف کی شاعری ان چیزوں سے اپنا دامن بچاتی ہوئی صحنِ ادب میں گل کاری کے عمل میں سرگرداں و سفر پیرا دکھائی دیتی ہے۔وہ ایک ایسی فضا عام کرنا چاہتے ہیں جس کو پڑھنے اور سننے کے بعدافراد اپنے مستقبل کی راہ ہم وار کر سکیں اور اپنی کمیوںاور خامیوں کا تجزیہ کر سکیں۔ان کو سماج میں ہورہی تبدیلوں،تغریات،حادثوں،پریشانیوں،کرب اور بیچینی کو بیان کرنے کا خوب صورت ہنر آتا ہے۔وہ الفاظ کا ایک ایسا جادو بکھیرتے ہیں کہ ایک پورا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور قاری خودکو اسی دنیا میںپاتا ہے۔مثال کے لئے ان کی مقبول ترین نظم ’’دعوتِ ولیمہ‘‘ پیش کی جاسکتی ہے۔جس میں انھوں نے ایک ولیمہ کی دعوت کا منظوم ذکر کیا ہے۔اس نظم کا ایک بند دیکھیں
میزوں پہ تھی سجی ہوئی ہر چیز بر محل
خوشبو بڑھا رہی تھی بہت بھوک کا عمل
بریانی قورمہ و ہیں روٹی اغل بغل
چٹنی اچار رائتہ اور چاٹ کے تھے پھل
اسٹال میں سجی ہوئی ہر شئے عظیم تھی
کوفی تھی کولڈرنگ تھی آئس کریم تھی
اس بند کو دیکھنے کے بعد نشتر ؔصاحب کے قدرتِ کلام اور ان کے فنِ پیکر تراشی پر بے ساختہ داد دئے بغیر کون رہ سکتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ میر انیسؔکے ہنرِ منظر کشی کے نقشِ قدم پر قدم رکھ کر محاکات کی ایک نئی دنیا آباد کر رہے ہیں۔ اس نظم کو پورا پڑھیں تو اس سلسلے سے مزید ثبوت فراہم ہوں گے کہ وہ ایک مصور کی حیثیت سے شاعری کی دنیا میں اپنے تخیل کے زور سے اپنی انفرادیت قائم کرنے میں سرگرمِ عمل ہیں۔
ان کی نظم ’’نان گوشت‘‘ بھی پڑھنے کے لائق ہے جس میں وہ نان گوشت کا قصیدہ پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
جب بھی ہمارے سامنے آتا ہے نان گوشت
خوشبو سے اپنی دل کو لبھاتا ہے نان گوشت
ایسا دل و دماغ پہ چھاتا ہے نان گوشت
کھانے میں چار چاند لگاتا ہے نان گوشت
یوں تو مٹن ہے اور چکن بے حساب ہے
کھانے میں نان گوشت مگر لاجواب ہے
نشترؔ امروہوی نے علامہ اقبالؔ سے بھی استفادہ کیا ہے۔انھوں نے علامہ اقبالؔ کی نظم ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی طرز پر نظمیں لکھیں۔جس میں وہ بیگم سے شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مثال کے طور پر ’’شکوہ ‘‘ کا یہ بند دیکھیں۔
کیوں غلط کام کروں فرض فراموش رہوں
کیوں نہ فرض اپنا ادا کر کے سبکدوش رہوں
طعنے دنیا کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا میں کوئی بدھوں ہوں کہ خاموش رہوں
جرأت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ بیگم سے یہ خاکم بدہن ہے مجھ کو
’’شکوہ ‘‘پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا ذہنِ رسا کس قدر بلند پرواز ہے۔اُس کے بعد’’ جوابِ شکوہ‘‘بھی لا جواب اور نہایت متاثر کُن نظم ہے۔
آہ جب دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
گلشنِ زیست جلانے کو شرر رکھتی ہے
توپ تلوار نہ یہ تیغ و تبر رکھتی ہے
بنتِ حوّا کی طرح تیرِ نظر رکھتی ہے
اتنا پرُ سوزہوا نالۂ سفّاک مرا
کر گیا دل پہ اثر شکوۂ بے باک مرا
کسی بھی بڑے شاعر سے اس طرح فیض اُٹھانا کہ انفرادیت برقرار رہے مشکل کام ہے لیکن وہ یہاں کامیاب نظرآتے ہیں۔انھیں مشہور مصرعوں پر تضمین کرنے کا فن بھی خوب آتا ہے۔ مثلاً :
بیٹے کو ساتھ لے گئے اک مہ جبیں کے گھر
عاشق تو ہو ہی جاتے ہیں پیدل دماغ سے
بیٹے نے ماں سے کہہ دیا سارا معاملہ
’’اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘
وہ جگہ جگہ ازدواجی زندگی کو بھی طنز کا نشانابناتے ہیں۔مثلاًان کی نظم ’’بیویاں‘‘ اس سلسلے سے پیش کی جاسکتی ہے۔
شادی کے بعد گھر میں جب آتی ہیں بیویاں
شرم و حیا کا ڈھونگ رچاتی ہیں بیویاں
پہلے تو شوہروں کو پٹَاتی ہیں بیویاں
تِگنی کا ناچ پھریہ نچاتی ہیں بیویاں
ہر شب شبِ برات بناتی ہیں بیویاں
کچھ دن کے بعد چھکّے چھڑاتی ہیں بیویاں
ان کی ایک نظم’’بیگم اور شاعری‘‘بھی قبلِ تعریف ہے۔
ایک دن مجھ سے یہ فرمانے لگی بیوی میری
میری سوتن بن گئی ہے آپکی یہ شاعری
سوچتی ہوں کس طرح ہوگا ہمارا ب نباہ
مجھ کو روٹی چاہئے اور آپ کو بس واہ واہ
پوری نظم پڑھ جائیے بیگم اور شاعری کا تصادم قہقہہ لگانے پر بار بار آمادہ کرتا ہے اسی طرح ’’شادی سے پہلے‘‘ اور ’’شادی کے بعد‘‘بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
نشتر ؔصاحب طنز و مزاح کے پردے میں بڑے سلیقے سے اصلاح کا کام انجام دیتے ہیں۔وہ عورتوں کے پردے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
بہن ہو بیٹی ہو بیوی ہویا کہ پھر ماں ہو
کوئی بھی روپ ہو لیکن حیا ضروری ہے
بتا رہا ہے یہ ہم کو غلاف کعبہ کا
جو محترم ہیں انھیں کوردا ضروری ہے
یعنی ان کا کمال یہ ہے کہ وہ جہاں اپنی شاعری میں طنز و مزاح کے نشتر سے وار کرتے ہیں وہیں سنجیدگی کی تیغ کا بھی لوہا منواتے ہیں۔
انھوں نے متوسط طبقے کے حالاتِ زندگی کو بھی ہنر مندی کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ نظم’’ابھی پے نہیں ملی‘‘ وہ اپنی بیگم سے مخاطب ہوکر سماج کی تلخ حقیقت کو دلکش پیرائے میں منظم کرتے ہیں۔
تو پرس مت نکال ابھی پے نہیں ملی
اور دیکھ میرا حال ابھی پے نہیں ملی
پچکے ہوئے ہیں گال ابھی پے نہیں ملی
ہوں قربِ انتقال ابھی پے نہیں ملی
کر بند قیل و قال ابھی پے نہیں ملی
کیوں کا ہے کیا سوال ابھی پے نہیں ملی
ایک دوسری نظم’’ابّا کا چالیسواں‘‘ بھی اسی موضوع پر ہے کہ ایک مڈل کلاس شخص پریشانیوں اور دقتوںکے باوجودقرض لے کر زیادہ سے زیادہ روپیہ پیسا خرچ کرکے اپنے والد کا چالیسواں کراتا ہے۔
بوڑھے غریب باپ کے مرنے پہ دفعتاً
بیٹے نے سوچا کیسے کروں دفن اور کفن
اپنے یہاں تو موت میں خرچے کا ہے چلن
غم سے نڈھال بیٹے کے ماتھے پہ تھی شکن
جو کچھ تھا پاس دفن و کفن میں اٹھا دیا
خرچے نے پھر تو موت کا صدمہ بھلا دیا
موصوف کی نظر سماج کے تقریباً تمام مسائل پر بہت گہری ہے الیکشن سے متعلق ان کی نظم پڑھ کر جہاں ان کی سیاسی سوچ کا اندازہ ہوتا وہیں ان کا کرب بھی ظاہر ہوتا ہے
زندگی ہارے ہوئے بوڑھوں پہ بچپن آگیا
خشک رخساروں پہ جیسے پھر سے روغن آگیا
لوٹ کر واپس خزاں میں جیسے ساون آگیا
ہرگلی کوچے پہ اور کھمبے پہ جوبن آگیا
ان کا طنز و مزاح نہ صرف سماج کی بگڑتی ہوئی تصویر پر کاری وار کرتا ہے بلکہ وہ خود اپنے آپ کو بھی اس کا شکار بناتے ہیں۔
جو اپنے عیب چھپانے ہوں تم کو اے نشترؔ
تو عیب جوئی سے پھر اتّفاق مت کرنا
ہر اک جواب میں تھوڑا سا زہر ہوتا ہے
نہ پی سکو تو کسی سے مذاق مت کرنا
وہ ہر چھوٹی بڑی شے یا مخلوق کوبھی اپنے کلام میں جگہ دیتے یہاں تک کہ انھوں نے مچھر کو بھی فراموش نہیں کیا ۔
ہمیں نہ ٹین نہ چھپّر عجیب لگتا ہے
نہ گھر کا خالی کنسترعجیب لگتا ہے
وہ کاٹتا ہے تو گھنٹوں کھجاناپڑتا ہے
ہمیں تو صرف یہ مچھّر عجیب لگتا ہے
ان کی شاعری کو پڑھ کر پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس راہ میں دور تک اپنا سفر قائم اس صورت میں رکھیں گے کہ لوگ نہ صرف ان سے متاثر ہوں گے بلکہ ان کی شاعری کے رنگ میں اپنی کاوشوں اور شعری صلاحیتوں کو رنگنے کی کوشش کریں گے۔
“