آئن سٹائن کا کونسا پیپر ہے جس کے حوالہ جات ان کے تھیوری آف ریلیٹیویٹی سے بھی زیادہ مرتبہ دئے جا چکے ہیں؟
یہ پانی میں معلق ذرات کی حرکت کا راز افشا کرنے کے بارے میں ہے۔ لیکن یہ تصور ہماری اپنی زندگی کو سمجھنے کے لئے بھی اسی قدر اہم ہے۔
رابرٹ براون ایک ماہرِ نباتیات تھے، مائیکروسکوپی کے ایکسپرٹ تھے اور خلیہ کے نیوکلئیس کے بارے میں پہلی بار واضح ڈسکرپشن لکھنے والے تھے۔ براون کی زندگی کا ایک مقصد یہ جاننا تھا کہ زندگی کے پیچھے کونسی قوت ہے۔ اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ کوئی پرسرار قوت زندگی کی خاصیت دیتی ہے۔ براون اپنی کاوش میں ناکام رہے لیکن جون 1827 کو ایک روز انہیں لگا کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں۔
زرِ گل کو مائیکروسکوپ کے عدسے کے نیچے دیکھتے ہوئے انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اس کے اندر کے گرینیول حرکت کر رہے ہیں۔ زرِ گل خود زندہ نہیں ہے لیکن زندگی کے چکر کی ابتدا کا حصہ ہے۔ براون دیکھتے رہے، حرکت نہ رکی۔ براون کو ایسے لگا جیسے یہ پرسرار قوت ان گرینیولز میں ہے۔ یہ حرکت رینڈم تھی اور کسی لڑکھڑاتے نشئی کی چال کی طرح تھی۔ پرجوش براون نے نتیجہ نکالا کہ انہیں حرکت اس کا منبع مل گیا ہے۔ کیا ان ذروں کی حرکت کی توانائی زندگی کی توانائی ہے؟
اگلے مہینے میں انہوں نے بہت سے اور تجربے کئے۔ جب پانی میں ڈالا گیا تو بھی یہی حرکت موجود رہی۔ جب مشروب میں ڈالا گیا، تب بھی۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرے آرگینک مادے کو ٹیسٹ کرنا شروع کیا۔ بچھڑے کا خراب ہوتا ہوا گوشت، مکڑی کا جالا، اپنا بلغم۔ مائیکروسکوپ کے عدسہ کی مدد سے یہ رینڈم حرکت سب میں نظر آ رہی تھی۔ کیا یہ زندگی کی قوت تھی؟ لیکن ان کے خیال کے لئے موت کا پروانہ اگلے تجربات ثابت ہوئے جب انہوں نے غیرنامیاتی مادے کو مائیکروسکوپ نے نیچے رکھا۔ تانبے، میگنیز، بسمتھ اور ایسبیٹوس میں بھی وہی حرکت تھی۔ انہیں پتا لگ گیا کہ اس حرکت کا تعلق زندگی سے نہیں۔ اس فنامینا کی وضاحت تک وہ زندہ نہیں رہے۔ بولٹزمین، میکسویل اور دوسرے سائنسدانوں نے ابھی تک وہ گراوٗنڈ ورک نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے اس مشاہدہ کی توجیہہ کی جا سکتی۔
“شماریات اور امکانات کی مدد سے فلوئیڈ کی خاصیت بتائی جا سکتی ہے۔ یہ (اس وقت تک ) مفروضاتی ایٹمز سے حرکت سے آتی ہیں۔” یہ خیال ان سائنسدانوں کی طرف سے پیش کیا گیا لیکن کئی دہائیوں تک مقبول نہ ہوا۔ کچھ کے خیال میں نہ ایٹم کو دیکھا گیا تھا اور نہ دیکھا جا سکتا تھا تو اس کو کسی تھیوری کی بنیاد بنانا غلط تھا، کچھ کو شماریاتی ریاضی کو سائنس میں داخل کرنے پر اعتراض تھا۔ لیکن زیادہ تر سائنسدان اس قسم کی فلسفیانہ یا نظریاتی بحثوں کو اہمیت نہیں دیتے اور پریکٹیکل ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ یہ تھیوری کوئی ایسی نئی پریڈکشن نہیں کرتی تھی جس کو پرکھا جا سکے۔ 1905 تک یہ خیال پسِ منظر میں رہا۔ اس وقت تک میکسویل اس دنیا میں نہیں رہے تھے اور بولٹزمین کے خودکشی کرنے سے کچھ ہی دیر قبل کا وقت تھا، ایک نئے ابھرتے ہوئے سائنسدان نے اس کی وضاحت کر دی۔ آئن سٹائن کی نئی تھیوری نے اعداد و شمار سے اس حرکت کو تفصیل سے بیان کر دیا۔ اس کے بعد سے شماریاتی فزکس کو قبول کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں رہا۔ یہ آئیڈیا کہ مادہ ایٹم سے اور مالیکیول سے بنا ہے، جدید ٹیکنالوجیز کی بنیاد بنا اور فزکس کی تاریخ کا اہم ترین آئیڈیا ہے۔ اس ریاضی نے ایٹم کی تھیوری کے حق میں مضبوط ترین شواہد فراہم کر دئے تھے۔
پانی کے مالیکیولز کی حرکت رینڈم ہے اور کیاوس والی ہے۔ مالیکیول سیدھی لکیر میں دوڑتے ہیں، پھر ان کا ٹاکرا اپنے کسی بھائی بند سے ہو جاتا ہے تو ٹکرا کر دوسری طرف کا رخ کر لیتے ہیں۔ یہی عمل مسلسل اور بہت ہی تیز رفتاری پر مسلسل جاری ہے۔ اگر پانی میں کسی چیز کو ڈالا جائے تو پانی کے مالیکیول مسلسل اور رینڈم طریقے سے اس سے ٹکراتے رہیں گے۔ کبھی یہ کہہیں جائے گا اور کبھی کہیں۔
براونین حرکت کے اس تصویر کے ساتھ دو مسائل ہیں۔ مالیکیولز کا سائز اس قدر کم ہوتا ہے کہ وہ مشاہدہ کئے جانے والے پارٹیکلز کو حرکت نہیں دے سکتے۔ دوسرا یہ کہ ان کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے جبکہ جو مشاہدہ ہم کر رہے ہیں، وہ اس کے مقابلے میں بہت سست ہوتا ہے۔ آئن سٹائن کے جینئیس نے یہ احساس کر لیا کہ یہ دونوں مسائل ایک دوسرے کو کینسل کر دیتے ہیں۔
مالیکیول اس قدر ہلکے ہوتے ہیں کہ بے تحاشا ہوتی ٹکروں کا کوئی ایسا اثر نہیں ہوتا جو نظر آئے۔ صرف قسمت اور امکانات کی وجہ سے کبھی کبھار ایک طرف سے زیادہ پٹائی ہوتی ہے تو ہمیں یہ حرکت نظر آنے لگتی ہے۔ جب آئن سٹائن نے اس کا ریاضیاتی تجزیہ کیا تو نتیجہ نکالا کہ چھوٹے پیمانے پر ہونے والے اس پرشور ہنگامے کے باوجود اس حرکت کا پیٹرن نکالا جا سکتا ہے۔ مالیکیولز کے سائز، رفتار اور تعداد سے اس حرکت کی فریکوئنسی اور رفتار نکالی جا سکتی ہے۔ کلاسیکل فزکس کی طرف شماریاتی فزکس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ تکنیکی کامیابی لگے لیکن یہ ایک بڑے اصول کی فتح تھی۔ “فطرت میں ترتیب ان دیکھی بے ترتیبی کا شاخسانہ ہے”۔
آئن سٹائن کے پیپر سے ایک اقتباس
It is a magnificent feeling to recognise the unity of complex of phenomena which appear to be things quite apart from the direct visible truth
اس کے بعد نشئی کی طرح لڑکھڑاتے یہ پراسس فطرت کو جاننے کے سب سے زیادہ سٹڈی کئے جانے والے اور سب سے بنیادی پراسس بن گئے اور ریسرچ کرنے کے لئے شماریاتی تکنیک کو تحقیق کے ہر شعبے میں قبولیت مل گئی۔
افریقہ میں کاٹے گئے جنگل میں مچھروں کا خاتمہ، نائلون کی کیسٹری، پلاسٹک بنانے، آزاد کوانٹم پارٹیکل کی حرکت، حصص کی قیمتوں میں اتار چزھاوٗ، ہماری اپنی زندگی کے واقعات میں لڑکھڑاتے نشئی کی اس چال کا غلبہ ہے۔ اس سے پیٹرن نکلتے ہیں۔کہیں ترتیب، کہیں بس بے معنی پیٹرن۔ اس پر ملوڈینیو کا تبصرہ
“رینڈم تبدیلیوں سے ترتیب والے پیٹرن نکلتے ہں۔ یہ ہمیشہ معنی نہیں رکھتے۔ جہاں پر یہ اہم کہ جب معنی ہوں تو ان کو پہچانا جائے، اتنا ہی اہم یہ ہے کہ جب معنی نہ ہوں تو معنی نہ نکالے جائیں۔ رینڈم پیٹرن سے معنی نکالنے سے باز رہنا وہ سراب ہے، جس سے بچنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں۔”