جنگل میں درختوں کے لئے آداب کی ان لکھی گائیڈلائن ہیں۔ ایک درخت کو کیسا لگنا چاہیے؟ کونسا حلیہ قابلِ قبول ہے؟ سیدھا تنا اور ترتیب میں پھیلے لکڑی کے ریشے۔ درختوں کی جڑیں جو ہر سمت میں پھیلیں اور درخت کے نیچے ایک خاص صورت میں گہرائی میں جائیں۔ نوجوان درخت کی پتلی شاخیں تنے سے باہر کی طرف نکلی تھیں جن کے ختم ہو جانے کے بعد درخت نے اس کو تازہ چھال سے ڈھک دیا ہے۔ اور یوں لمبا اور ہموار کالم نظر آ رہا ہے۔ جب آپ درخت کو اوپر سے دیکھتے ہیں تو آسمان کی طرف اپنے بازو اٹھائے مضبوط شاخوں کی سمٹری کا احساس ہوتا ہے۔ ایک خوبصورتی سے بڑھنے والا درخت طویل عمر پاتا ہے۔ صنوبر کے درختوں کے لئے بھی ایسے اصول ہیں۔ صرف یہ کہ اس کی زیادہ تر شاخیں یا تو افقی ہوتی ہیں یا پھر کچھ نیچے جھکی ہوئی۔
یہ ایسا کیوں؟ کیا درخت حسن کو پسند کرتے ہیں؟ معلوم نہیں لیکن یہ ساخت انہیں عملی فائدہ دیتی ہے۔ اونچے درختوں کو تیز ہوا، موسلادھار بارش اور برفباری کے وزن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ درخت کو ان کے اثر سے محفوظ رہنا ہے۔ یہ اس کی اونچی شاخوں سے لے کر جڑوں تک کا ڈیزائن ہے۔ جڑوں کو زمین اور پتھروں پر مضبوط پکڑ بنانی ہے تا کہ درخت گر نہ جائے۔ طوفان کی طاقت تنے پر سینکڑوں ٹن وزن جتنا بوجھ ڈال سکتی ہے۔ اگر کہیں کوئی کمزور نقطہ مل گیا تو یہاں دراڑ پڑ جائے گی۔ اور سب سے برا یہ کہ تنا ٹوٹ بھی سکتا ہے اور درخت گر سکتا ہے۔ جو درخت بڑھنے کے آداب پر عمل کرتے ہیں، وہ موسم کی طاقتوں کو اپنے سٹرکچر کی مدد سے اس شاک کو برداشت کر سکتے ہیں اور اس قوت کو برابر تقسیم کر کے اس کو سہار لیتے ہیں۔ پرانے جنگل میں صدیوں سے کھڑے درخت فطرت کی قسم قسم کی قوتوں کا سامنا کر چکے ہوتے ہیں۔
وہ درخت جو ان آداب کی پاسداری نہیں کرتے، مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ مثلاً، اگر ان کا تنا سیدھا نہ ہو تو درخت کا بوجھ تنے پر برابر تقسیم نہیں ہو گا۔ ایک طرف زیادہ ہو گا۔ درخت کو زیادہ بوجھ والے حصے پر لکڑی زیادہ اگانی پڑے گی۔ اور یہ ہمیں درخٹ کے گروتھ رِنگ میں گہرے رنگ کے علاقوں میں نظر آتا ہے جہاں ہوا کم اور لکڑی زیادہ ہے۔
ایسے درخت جو جلد دو شاخہ ہو گئے ہوں، نازک صورتحال میں ہوتے ہیں۔ دونوں شاخیں ساتھ بڑھتی ہیں اور ہر ایک کے اوپر شاخوں کا اپنا تاج بن جاتا ہے۔ تیز ہوا میں یہ دونوں اطرف مختلف سمت میں جھولتی ہیں اور تنے کے اس حصے پر دباوٗ پڑتا ہے جہاں سے یہ دونوں شاخیں الگ ہوئ ہیں۔ اگر یہ U شکل کی علیحدگی ہو تو پھر بھی بچت رہتی ہے لیکن اگر V شکل کی ہو، جس میں دونوں اطراف تنگ زاوئے پر ہوں تو پھر یہ درخت مشکل میں ہے۔ یہ کبھی نہ کبھی اس جگہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔
اور اس کا ٹوٹنا درخت کے لئے بڑا نقصان ہے۔ یہ فٹافٹ اس زخم پر لکڑی اگاتا ہے تا کہ مزید ضرر سے بچا جا سکے۔ لیکن یہ حربہ بہت دفعہ کام نہیں کرتا اور بیکٹیریا سے سیاہ ہونے والا مائع اس زخم سے رستا رہتا ہے۔ اس پر دوسری مشکل یہ کہ اس ٹوٹے حصے میں پانی جمع ہو کر ٹوٹی چھال کے اندر چلا جاتا ہے اور لکڑی کو گلا دیتا ہے۔ جلد یا بدیر، دو شاخہ درخٹ میں ایک شاخ کے ٹوٹ جانے کا واقعہ روپذیر ہوتا ہی ہے اور پھر ایسے درخت مزید صرف چند دہائیوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ پاتے۔ بڑے زخم مندمل نہیں ہوتے اور فنگس ان کا تیا پانچہ کرنے لگتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ درخت بڑھتے وقت خمدار ہو جاتے ہیں۔ تنے کا نچلا حصہ ایک زاویے پر بڑھتا ہے اور پھر تنا خود کو عمودی بلند کرتا ہے۔ ایسے درخت ہدایات کے مینویل کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ تنہا نہیں۔ بعض اوقات جنگل کے پورے علاقے اس شکل کے ہوتے ہیں۔ کیا انہوں نے فطرت کے اصول ایک طرف رکھ دئے ہیں؟ بالکل نہیں۔ ایسے پیٹرن کے پیچھے فطرت ہی ہے۔
مثلاً، کسی اونچے پہاڑ پر برف کی لکیر سے کچھ لیچے کے درختوں کو سردیوں میں کئی فٹ برف میں رہنا پڑتا ہے اور برف حرکت میں ہوتی ہے۔ صرف ایوالانچ نہیں لیکن جب برف ساکن لگ رہی ہوتی ہے تو بھی یہ بہت آہستہ رفتار سے وادی کی طرف سِرک رہی ہوتی ہے۔ ہم آنکھ سے اس کا مشاہدہ نہیں کر پاتے۔ اور جب برف یہ کام کرتی ہے تو یہ درختوں کی شکل بگاڑ دیتی ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کی۔ جب برف پگھل جاتی ہے تو یہ پھر سے اگنے لگتے ہیں۔ اگر یہ قوت بہت زیادہ ہو تو یہ درخت کو توڑ بھی سکتی ہے لیکن اکثر اوقات ان کے نچلے حصے پر خم پڑ جاتا ہے۔ درخت چونکہ صرف سرے سے بڑھ سکتا ہے اس لئے نچلا حصہ خمدار رہ جاتا ہے۔ ہر سال اس میں اضافہ ہوتا ہے اور یوں درخت کسی خمدار تلوار کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ تنا موٹا ہوتا جاتا ہے اور اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ سرکتی برف اس کو ہلا نہیں پاتی۔ یہ “تلوار” اپنی شکل برقرار رکھتی ہے جبکہ اوپر والا حصہ کسی بھی دوسرے عام درخت کی طرح سیدھا اوپر بڑھتا ہے۔
یہ صرف برف پر نہیں ہوتا۔ ڈھلوان والی زمین پر برسوں سے سست رفتاری سے سرکتی مٹی بھی ایسا کر دیتی ہے۔ سرکنے کی رفتار سالانہ ایک یا دو انچ ہوتی ہے لیکن یہ درخت کی شکل کو کیلے کی طرح خمدار کر دیتی ہے۔
دنیا کے کئی علاقوں میں موسمیاتی تبدیلیاں اس پر زیادہ اثرانداز ہو رہی ہیں۔ خاص طور پر الاسکا یا سائبیریا میں مستقبل برف والے علاقوں کی پگھلتی برف کی وجہ سے درختوں کے قدم اکھڑ رہے ہیں اور وہ گیلی مٹی میں توازن کھو دیتی ہے۔ اور اس وجہ سے ہر انفرادی درخت اپنی ہی سمت میں جھک جاتا ہے۔ درختوں کے ایسے جنگل منفرد نظارہ پیش کرتے ہیں۔ مختلف اطراف میں اپنا توازن برقرار رکھنے کے لئے مختلف شکلوں کے درخت دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسی نشئی لڑکھڑا رہے ہوں۔ سائنسدان انہیں “شرابی جنگل” کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگل کے کناروں پر درختوں کے لئے اپنا حلیہ ٹھیک رکھنے کے آداب اتنے سخت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روشنی کسی ایک سمت سے آتی ہے۔ یہ چراہ گاہ یا جھیل ہو سکتی ہے جہاں درخت نہیں۔ ان جگہوں پر چھوٹے درخت کھلی سمت کی طرف اگنے لگتے ہیں۔ اور دھوپ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر پت جھڑ والے درخت دلچسپ زاویے بناتے بڑھتے ہیں تا کہ دھوپ کا فائدہ اٹھا سکیں۔ لیکن ایسے درخت یہ کام خطرہ مول لے کر کرتے ہیں۔ اگر زیادہ برفباری کا بوجھ اٹھانا پڑ جائے تو فزکس کے قوانین آڑے آتے ہیں اور لیور کا اصول اپنا خراج وصول کرتا ہے۔ لیکن ضابطے توڑ کر مختصر لیکن دھوپ سے بھری “کھلنڈری” زندگی کئی درختوں کی ترجیح ہوتی ہے۔
جہاں پر پت جھڑ والے درخت زیادہ روشنی پکڑنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، وہاں پر زیادہ تر کونیفر ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ضد پر اڑے رہتے ہیں۔ یا تو سیدھا بڑھنا ہے یا پھر بالکل نہیں۔ اور یوں، ہمیشہ گریویٹی کے عین مخالف، عمودی سمت میں ان کا تنا بالکل پرفیکٹ سیدھ میں اور مستحکم رہتا ہے۔ صرف جنگل کے کنارے کچھ شاخوں کو دھوپ کی سمت بھیجا جاتا ہے اور بس۔ ورنہ ان کی توجہ اپنی شکل کو ٹھیک رکھنے پر ہوتی ہے۔ ان میں صرف صنوبر کا ایسا درخت ہے جو لالچ میں اپنی ٹوپی کا رخ دھوپ کی سمت کرتا ہے۔ اور یہ محض اتفاق نہیں کہ کونیفر کے جنگل میں برفباری میں ٹوٹنے والے درختوں میں سب سے زیادہ تناسب صنوبر کا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر پولینڈ کے گرائی فینو جنگل میں کچھ برس پہلے کھینچی گئی تھی۔