اس دن پھر میں اپنا ایمان چھے آٹھ گلاسوں میں گھول کے پی چکا تھا اور جیسے کہیں جنتوں سے اتری ایمان توڑ لڑکی “یُوسےفِینے Josefine کی بانہوں میں بانہیں ڈالے، رات کے دو بجے بھی رونق سے بھرپور گلی میں ٹہل رہا تھا…. سردیاں گزر چکی تھیں، ننگے درختوں کی ٹہنیاں گرین بِکنیوں میں، ہوا کے سہلانے سے شرما لجا کے ‘ناں ناں’ میں سر ہلا رہی تھیں… چاند پورے سے تھوڑا ہی کم تھا اور سارے میں چاندنی پھیلی ہوئی تھی..
میری عادت ہے کہ میں ویک اینڈ جیسی خرافات اپنے شہر اوسلو میں نہیں ‘مناتا’… وجہ قطعی اوسلو سے عقیدت نہیں، وجہ ایمانی ہے… نہیں سمجھے؟ چلیں پہلے میں اپنا تعارف کراتا ہوں پھر بات ایک دم سے سمجھ میں گھس جائے گی…
نام والدین نے، نہیں معذرت ابا جی کے دوست مفتی رفیق طاہر رمزی نے خلیل الرحمٰن رکھا تھا، اس نام رکھنے کی رمز مجھے آج تک نہیں سمجھ آئی… ابا جی گاؤں میں پیش امام تھے، پھر روزگار کی تلاش میں پاکستان سے ڈنمارک اور پھر ناروے پہنچے، پھر اماں کو بلا لیا اور پھر ابا جی اور اماں نے مل کے ہم پانچوں بہن بھائیوں کو زمین پہ بلا لیا….
ابا جی نے دوستوں سے مل کے یہاں بھی ایک جگہ کرائے پہ لے کے مسجد بنا ڈالی، مسجد چل نکلی تو جگہ خرید لی… اور پیش امام وہی بچوں کے نام رکھنے والے مفتی رفیق طاہر رمزی بن گئے اور پاکستان سے ایک قاری اسلم سیالوی بھی منگوا لیا گیا جو بچوں کو قرآن پڑھاتا تھا… بعد میں قاری اسلم نے اپنے بیوی بچے بھی منگوا لیے.. اور یوں قاری صاحب کی پانچوں گھی میں رہیں.. مگر مسجد کے “آئین و قانون” کی خلاف ورزی کرنے پہ بعد میں نکالے گئے اور پھر کہیں اور شفٹ کر گئے… خلاف ورزی یوں فرماتے رہے کہ قاری کو مسجد کے علاوہ کسی کے گھر جا کے بچوں کو پڑھانے اور پیسے اینٹھنے کی اجازت نہیں تھی مگر موصوف نے لوگوں کے گھروں میں جا جا کے ایسا کمایا کہ راولپنڈی میں کوٹھی بھی بنوا لی اور اپنے آبائی گاؤں میں مدرسہ بھی ڈلوا لیا… خیر جب سے نکلے پھر مڑ کے کبھی نہ ملے..
سو ہمارا بچپن لڑکپن گھر سے زیادہ مسجد میں گزرا اور ہر نمازی چہرہ شناس ہو گیا… اب اپنے ایمان سے بتائیں کہ ہفتے کی رات کو ایک عدد انتہائی خوبرو جوانی کی حدوں پہ قیامت ڈھاتی نارویجن لڑکی کی ململیں بانہوں میں بانہیں ڈالے، تھوڑی سے کہیں زیادہ پی کے ہنگامے کرتا ہوا خلیل الرحمٰن کوئی دیکھ لے اور جا کے حاجی فضل الرحمن کو جا بتائے تو…؟؟؟؟
سو میں ہمیشہ ویک اینڈ اوسلو سے کم از کم سو کلومیٹر دور کسی چھوٹے شہر میں مناتا ہوں کہ جہاں کسی کی نظریں مجھے حاجی فضل الرحمن کے سپوت کے طور پہ نہ پہچانتی ہوں…
سو، اس رات، دو بجے ہم باتیں کرتے ایلوس پریسلے سے ہوتے ہوتے برونو مارس پہ جا پہنچے، پھر پیلے سے میسی تک اور پھر وہیں سگریٹ کی طلب بھی جاگی… ہم جانے کون سی گلی میں گھس آئے تھے، لوگ تھے، رونق اتنی نہیں تھی… ایک kiosk پہ نظر پڑی جو شومئی قسمت کھلا بھی تھا… (یہ kiosk چھوٹی سی دوکان نما دوکان جو اکثر گھروں کے اندر ہی بنا لی جاتی ہے، اور استعمال کی ہر شے دستیاب ہوتی ہے ) دروازہ کھولا تو ‘ٹِنگ ٹِنگ ٹِنگ” کی آواز سے استقبال ہوا.. کاؤنٹر پہ سر جھکائے کچھ لکھتے یا پڑھتے شخص نے جب سَر اٹھایا اور Hei Hei velkommen کہا تو میرا سارا نشہ تیز ہواؤں میں اڑتے بادلوں کی طرح یہ جا وہ جا…. وہ شخص قاری اسلم تھا، جی وہی مسجد سے نکالا گیا استاد قاری اسلم سیالوی… سَر کے بال اڑ چکے تھے، داڑھی ایک مُٹھ سے کافی کم ہو چکی تھی… سمجھ نہیں آتی تھی کہ داڑھی پہ سفید بال زیادہ حاوی ہیں کہ کالے بال…
میں نے بـے اختیاری میں Josefine کا ہاتھ چھوڑ دیا مگر اس نے محسوس نہ کیا… قاری اسلم نے مجھے دو بار غور سے دیکھا اور ایک بار تو باقاعدہ گھورا مگر اس کے چہرے سے بالکل بھی نہیں لگا کہ وہ پہچان چکا ہے کافی مشکل تھا پہچاننا، تب میں گیارہ بارہ کا ہوں گا، اب تو کافی بدل چکا تھا میں … Josefine نے مارلبرو گولڈ کی ڈبی مانگی اور قیمت ادا کر دی… جانے اس کے دل میں کیا آئی، اس نے قاری اسلم کے کان میں کہا کہ شراب کی بوتل ملے گی؟ قانونی طور پہ رات کے آٹھ کے بعد ناروے میں کسی بھی دوکان کو شراب بیچنے کی قطعی اجازت نہیں، صرف پب بار پہ خرید کے پی سکتے ہیں… میں نے یُوسےفِینے کو بازو سے پکڑ کے پیچھے کھینچا مگر تبھی قاری کی آواز آئی “ہاں کیوں نہیں، مگر اپنے بیگ میں ڈال کے لے کے جانا، اور کہیں دور جا کے باھر نکالنا، پلیز، ورنہ میری دوکان بند کر دیں گے”… اور پیچھے کا پردہ ہٹا کے اندر چلا گیا اور یُوسےفِینے شراب ملنے کی خوشی میں میرے ہونٹ کاٹنے لگی… تبھی کالے شاپر میں لپٹی بوتل قاری نے اسے تھمائی اور وہ بیگ میں رکھنے لگی.. میں نے بنک کارڈ نکالا اور قیمت ادا کی جو کہ اصل قیمت کا تین گنا تھی…. میں کاؤنٹر سے ہٹنے لگا تو قاری اسلم نے میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا اور مسکرا کے پہلی بار اردو میں بولا “ابا جی کو میرا سلام دینا”……