"ناش نی داگونش"
ایک زمانے میں امریکہ نے " رشینز آر کمنگ " یعنی روسی آ رہے ہیں، کہہ کر دنیا کو کمیونزم کے ہوّے سے ڈرایا ہوا تھا مگر سوویت یونین کا مقصد دنیا میں ہاہاکار مچانا تھا ہی نہیں، تبھی ایک غلطی کے بعد اس کو خود کو خود مٹانا پڑ گیا تھا۔ اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ افغانستان میں آنے کی غلطی سوویت یونین کے انہدام کا باعث بنی تھی۔
درحقیققت اس سانحے کا موجب دنیا میں گذشتہ صدی کی آٹھویں اور نویں دہائی میں جاری ایس ٹی آر یعنی سائنٹیفک ٹیکنیکل ریوولیوشن بنا تھا جس کا سوویت یونین میں نفوذ نہیں تھا۔ تب سوویت حکام کو خیال آیا کہ یہ انقلاب جب سوویت یونین کے ہر گھر میں "جھوٹی اطلاعات " کی بھرمار کرے گا تب ہر گھر کی چھت پر لگے ڈش اینٹینا اور اس کے بعد کے آلات کو ختم کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کم پڑ جائیں گے۔ یوں انہوں نے اپنے بانی لینن کے 1918 میں رائج کردہ "این ای پی " یعنی نیو اکانومک پالیسی کا سہارا لے کر پیرسترائیکا کا عمل شروع کرکے اپنے لیے خود کش حملے کی بنیاد رکھ دی تھی۔
اس کے بعد کے واقعات اب تاریخ ہیں لیکن دو میدان ایسے تھے جن سے متعلق روس کا معروف تفاخر "ناش نی دا گونش" یعنی تم ہم تک نہیں پہنچ پاؤگے، مبنی بر صداقت رہا تھا اور آج بھی ہے یعنی خلائی تحقیقات اور اسلحہ سازی۔
یکم مارچ 2018 کو روس کے صدر ولادیمیر ولادیمیرووچ پوتن نے اپنی سالانہ "سٹیٹ آف دی آرٹ" تقریر میں ایسے جوہری ہتھیاروں کے بنائے جانے کا انکشاف کیا جن سے متعلق پورا مغرب مرتعش ہو چکا ہے۔ ان میں تین ہتھیار ایسے ہیں جو امریکہ کے صد میزائل نظام، گذشتہ برسوں میں جس کی رومانیہ اور پولینڈ میں تنصیب کرکے روس کو رنجیدہ کیا گیا، سے بچ کر اپنے اہداف تک نہ صرف پہنچ سکتے ہیں بلکہ انہیں نابود بھی کر سکتے ہیں۔
ان میں ایک "سیرمت (سرمد)" نام کا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہے جو بیک وقت کئی نیوکلیر وار ہیڈ لے جانے اور انہیں مختلف مقامات پر داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسرا " کنجال (خنجر ) نام کا کروز میزائل ہے جو اپنی راہ میں آنے والی قدرتی اور مصنوعی رکاوٹون کو عبور کرکے ہدف تک پہنچ کر اسے نشانہ بنا سکتا ہے اور تیسری بغیر عملے کے آبدوز ہے جو جوہری ہتھیار داغ سکتی ہے۔
پوتن کی تقریر کے دوران ان ہتھیاروں کی گرافک سرگرمی بھی سکرین پر دکھائی گئی بالخصوص بین البراعظمی کثیر الاہداف بیلسٹک میزائل کو کرہ ارض کے دونوں اطراف میں انتہا تک مار کرتے دکھایا گیا جس میں ایک نقطہ امریکہ کی ریاست فلوریڈا پر جا کر تمام ہوتا دکھائی دیا تھا۔ یہ نقطہ اختتام گرافکس کے توازن کی ضرورت بھی ہو سکتا ہے اور علامتی انتباہ بھی کیونکہ عسکری حوالے سے فلوریڈا کوئی زیادہ اہم نہیں ہے۔
پوتن کی تقریر میں نئے مہلک ہتھیاروں کے انکشاف اور کارکردگی کے تصویری اظہار کو روس میں 18 مارچ کو ہونے والے صدارتی انتخاب سے بھی مربوط کہا جا سکتا ہے۔ اگرچہ پوتن کی چوتھی بار جیت کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے۔ یاد رہے پوتن نے دستور کی پابندی کی تھی اور دو بار صدر منتخب ہونے کے بعد ایک مدت اپنے موجودہ وزیر اعظم دمتری مدویودیو کی زیر صدارت وزیر اعظم رہے تھے۔ باوجود یقین ہونے کے اپنی مقبولیت کو مستحکم تر کرنے میں کیا کوئی حرج ہے۔
پوتن ایک پاپولسٹ رہنما ہیں جو قوم پرستی کا کارڈ اکثر کھیلتے ہیں۔ روسی حد درجہ قوم پرست لوگ ہیں تبھی ان کا نعرہ ہے "ناش نی داگونش" یعنی تم ہم تک نہیں پہنچ پاؤگے۔ انہیں روس کی ہر چیز اہم ترین اور پیاری لگتی ہے۔ دوسرے چاہے اس صفت کو قوم پرستی پر محمول کریں مگر روسی اسے حب الوطنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بیشتر معاملات میں " روسکی، روسکی" یعنی روسی النسل، روسی النسل کی گردان کرتے ہوئے وہ ضرورت پڑنے پر کبھی کبھار اصطلاح "رسیانن" یعنی روسی شہری بھی استعمال کر لیتے ہیں کیونکہ روس میں روسیوں کے علاوہ بھی بیسیوں اقوام جیسے تاتار، انگوش، چیچن، بشکیر اور دیگر بستی ہیں۔ روس میں ملک کے دفاع اور روسی شہری ہونے کے تفاخر کو سب اعمال پر فائق خیال کیا جاتا ہے اور پوتن و ان کی ٹیم اس بات سے بخوبی آگاہ ہے۔
قوم پرستی یا حب الوطنی سے منسوب دعاوی میں مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے مگر دروغ گوئی نہیں کی جاتی۔ یہ ہو سکتا ہے مثال کے طور پر کوئی سائنسی ایجاد دنیا میں پہلے سے موجود ہو اور اسے روس میں پہلی بار برتا گیا ہو تو وہ اس کارنامے کو اپنے سے ہی منسوب کریں گے مگر بہرحال وہ کارنامہ تو کیا ہوتا ہے۔
اس تقریر کے فورا" بعد روس کے صدر کا انٹرویو، امریکہ کے ٹی وی چینل سی بی ایس کی صحافی خاتون نے لیا جس نے بار بار یہ پوچھا کہ کیا ان ہتھیاروں کی، جن کا آپ نے اپنی تقریر میں ذکر کیا جانچ کی جا چکی ہے۔ پوتن نے اس کی شدومد کے ساتھ توثیق کی۔ جب خاتون صحافی نے یہ کہا کہ کیا یہ ہتھیاروں کی دوڑ نہیں ہوگی تو پوتن نے جواب میں کہا کہ نہیں یہ امریکہ کے ان اعمال کا جواب ہے جو وہ ہماری بات چیت کرنے کی پیشکش کو رد کرتے ہوئے کرتا رہا ہے جیسے روس کی سرحدوں کے نزدیک بلاوجہ ضد میزائل نظام کی تنصیب۔ یاد رہے ضد میزائل نظام بھی میزائل داغے جانے کے کام آتا ہے تاکہ مدمقابل کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو ہدف سے دور فضا میں تباہ کر دیا جائے۔ اگر فضا میں کوئی میزائل ہو ہی نہ تو داغا گیا میزائل کہیں گر کر تباہی مچا سکتا ہے۔ پوتن نے یہ بھی نشاندہی کی کہ امریکہ جوہری ہتھیاروں کو تلف کیے جانے کی معاہدے پر نہ عمل درآمد کر رہا ہے اور نہ ہی اس کی تجدید کرنے کے سلسلے میں دلچسپی کا اظہار کر رہا ہے۔
قارئین کے لیے یہ جاننا موجب خوف ہوگا کہ جب 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے سربراہ میخائل گورباچوو اور امریکہ کے تب کے صدر رونلڈ ریگن نے جوہری اسلحے کی تخفیف کے معاہدے پر دستخط کیے تھے تب بتایا گیا تھا کہ روس اور امریکہ کے جوہری ہتھیار پورے کرہ ارض کو چالیس بار فنا کر سکتے ہیں۔
جب پوتن نے ان مہلک ہتھیاروں سے متعلق اعلان کیا تو ایک صاحب درد نے مجھ سے استفسار کیا کہ "کیا اس سب کو ہم انسانیت کی معراج خیال کر سکتے ہیں؟" اس سوال کا جواب بھلا کیا دیا جائے۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ دشمنی پر مبنی دنیا میں انسانیت کی بات کیا جانا شاید ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ہتھیاروں اور خاص طور پر جوہری ہتھیار بنائے جانے کو بیشتر ممالک اپنے دفاع کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ایسے ہتھیار بنائے جانے، ان کی حفاظت کیے جانے اور انہیں شکست و ریخت سے محفوظ بنانے میں جتنے اخراجات آتے ہیں، ان سے انسانیت کی کتنی خدمت ہو سکتی ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے مگر حکام ارض دشمنیوں کو تمام کرنے کی جانب مائل نہیں ہیں کیونکہ پھر ان کو پوچھے گا ہی کون بلکہ ان کا رعب کون سہے گا۔ معاملہ رعب و داب، نخوت و رعونت، دہشت و دباؤ کا بھی ہے اور دشمنوں کے حملوں سے بچاؤ کا بھی۔
دنیا کو پرامن بنانے کی خاطر جوہری ہتھیاروں کے علاوہ عام ہتھیار بھی ختم کیے جانے ہونگے۔ صرف انسانیت کی فلاح و بہبود سے متعلق ہی سوچا جانے کو شعار بنانا ہوگا مگر پھر " ناش نی داگونش" تم ہم تک نہیں پہنچ پاؤگے، قسم کا دل خوش کن نعرہ کیسے لگایا جا سکے گا؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“