نصیر احمد ناصر: ایک سمندر بھری بوند
پانی کی ایک عادت ہے۔ جاتی نہیں۔
ایک بوند ہو یا ایک جھیل۔ جو دیکھے اُس کا عکس اتار لیتا ہے۔ جتنا نظر آئے وہ ریفلیکٹ کرتا ہے۔
ایسی ہی ایک سمندر بھری بوند ہے جس کا نام نصیر احمد ناصر ہے۔ زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے لمحے کا عکس اتارتا ہے اور نظم کر لیتا ہے اور ان لمحوں میں بسی پوری زندگی محفوظ کر لیتا ہے۔ وہ اپنی نظموں کی نوک سے بادلوں میں چھید کرتا ہے۔ بارش ٹپکاتا ہے۔ اور کسی ایک ہرے پتے پر بارش کی بوند پکڑ کر، اُسے پورے جنگل کی کہانی سنا دیتا ہے۔ کچھ ایسی ہی نظمیں ہیں اُس کی۔ وہ ہم سب سے یہی سلوک کرتا ہے۔ میں اُسے پڑھتے ہوئے خود کو اُس کی ہتھیلی پر تیرتی ہوئی بوند محسوس کرتا ہوں۔
نصیر احمد ناصر کی نظموں سے گزرنا، احساسات کی ندی سے گزرنا ہے۔ اس میں آپ تیز قدم نہیں چل سکتے۔ اُسے پڑھتے ہوئے بار بار رکنا پڑتا ہے اور جب تک ایک نظم پڑھ کر، احساس میں پوری طرح جذب نہیں ہو جاتی، آپ صفحہ نہیں پلٹ پاتے۔ مَیں اُس کی نظموں کو ہونٹوں پر رکھ کر بہت دھیرے دھیرے سِپ کرتا ہوں۔ یہ سفید مونچھوں والا میرا دوست کمال کا شاعر ہے۔ میں ہمیشہ اُسے اُس کی تشبیہوں اور استعاروں سے پہچانتا تھا!
خدا، میرے لفظوں کا جگنو بنا دے
خدا، میری باتوں کو تتلی بنا دے
خدا، میرے قدموں کو رستہ بنا دے
خدا، مجھ کو پھولوں کی خوشبو بنا کر ہوا میں اُڑا دے
خداِ موتیے کی طرح مسکرا دے
خدا، میری آنکھوں کو نظمیں بنا دے
خدا، میری نظمیں کہیں دُور دیسوں کو جاتے
پرندوں کی ڈاریں بنا دے
میں نے ان پرندوں کو دانہ دکھا کر اپنی چھت پر اتارا ہے۔ ان کے پروں کو سہلایا ہے اور چوما ہے۔ مگر دیکھیے تو یہ شخص کہاں کہاں جا کر نظم کو ڈھونڈتا ہے۔
نظم اُس کی خوبصورت ناک ہے
تربوز کی قاشوں سے دونوں ہونٹ اُس کے نظم ہیں
آنکھوں میں پھیلا صاف ستھرا آسماں بھی نظم ہے
نظم بچوں کی شرارت،
نظم بوڑھی عورتوں کی گفتگو ہے
نظم اچھے دوستوں کے ساتھ گزری شام ہے
نظم ویٹنگ لاؤنج میں بیٹھی مسافر لڑکیوں کے ہاتھ کا سامان ہے
ٹورچر چیمبر میں قیدی کی گھٹی سی چیخ بھی تو نظم ہے
ناصر اپنے دماغ کے سارے "این ٹیناز" کُھلے رکھتا ہے۔ اُسے سب دکھائی دیتا ہے۔ سب سنائی دیتا ہے۔ جو آنکھ میں ہے اور جو آنکھ سے اوجھل ہے وہ بھی۔ ناصر اُن سطحوں پر سفر کرتا ہے جو نظر اور سوچ کے درمیان بہتی ہیں۔ وہ سطحیں کبھی نظر آتی ہیں، کبھی نہیں آتیں۔ پڑھتے ہوئے بس ایک کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔
ابھی نم گیر ہے مٹی،
درختوں کی جڑوں کو چوستی ہے
پانیوں کا دکھ
ابھی دیوار کے پیچھے کی مٹی تک نہیں پہنچا
زمیں نے آسماں کا غم زدہ چہرہ نہیں دیکھا
ابھی دیوار کو رونا نہیں آیا!
یہ آج کی، اِس دور کی، جدید ترین شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ احساس بھی نئے ہیں اور ان کا اظہار بھی نیا ہے۔
ناصر بڑے تحمل سے بات کرتے ہیں۔ بڑے دھیرے سے بات کی پرتوں کو کھولتے ہیں۔ وہ چونکتے نہیں، چونکا دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
"مجھ کو اپنی موت کی دستک نے زندہ کر دیا ہے"
اور اُسے زندہ رہنے کی جلدی پڑ گئی ہے۔ کس اُتاولی سے وہ اپنے سارے کام نپٹانے لگا ہے۔ وہ سارے کام اُس کی شاعری ہیں۔
دوڑتا پھرتا ہوں
سارے کام نپٹانے کی جلد ہے۔۔۔۔۔۔۔
پہاڑوں اور جھیلوں کی خموشی سے
قدیمی گیت سننے ہیں، پرانے داستانی بھید لینے ہیں
درختوں سے نمو کاری کی بابت پوچھنا ہے
نت نئی شکلیں بناتے بادلوں کو دیکھنا ہے
خوش نوا، اچھے پرندوں سے
اُڑن پھل کا پتا معلوم کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔
عروسی بیل کے پھولوں کو چھونا ہے
در و دیوار سے باتیں بھی کرنی ہیں
ابھی کتنے ملاقی منتظر ہیں
ایک لمبی لِسٹ ہے آنکھوں میں نادیدہ نظاروں کی ۔۔۔۔۔۔۔
ناصر کبھی کبھی سدھارتھ کی طرح بات کرتا ہے اور مجھے اُس پر گوتم ہونے کا شک ہونے لگتا ہے۔ وہ دونوں ایک نہیں ہیں۔ ایک تلاش میں ہے اور ایک نے کچھ درد حاصل کر لیے ہیں۔ لیکن وہ دونوں مجھے ایک ہی ناصر میں نظر آتے ہیں۔ ناصر کی شاعری میں چپ چاپ بہتا ایک اور عنصر ہے جو نظر نہیں آتا۔ لیکن کچھ دیر پڑھتے رہیے تو محسوس ہونے لگتا ہے۔ وہ وقت ہے۔ ناصر کی شاعری میں وقت چاروں طرف سفر کرتا ہے۔ دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے۔ کبھی آگے چلتے ہوئے پیچھے دیکھتا ہے۔ کبھی آگے دیکھتے ہوئے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ لیکن ایک بات عجیب ہے جو مجھے ہر بار ناصر کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ وہ نوسٹلجیا ہے۔ نوسٹلجیا کا تعلق اکثر ماضی سے ہوتا ہے۔ لیکن اُس کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ کہیں بھی نظر آ جاتا ہے۔ حال ہو، ماضی ہو، یا سامنے کا سفر! مثال دوں؟
جب دکھ کی بوجھل شام بنیروں سے اترے،
دُور سےآنے والے رستوں پر
بانجھ مناظر آنکھ مچولی کھیلیں
اور طاقوں میں رکھی آنکھوں پر
خوابوں کی مٹی جم جائے ۔۔۔۔۔۔
تم کچھ مت لکھنا!!
تشبیہوں، استعاروں کا انداز نرالا ہے اور نہایت منفرد! الفاظ کا چناؤ روزمرہ کی زبان سے اٹھایا ہوا۔ خواہ وہ انگریزی ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں علاقائی زبانوں کا اثر بھی نظر آتا ہے اور بدلتی ہوئی جدید اردو کا بھی۔ بیک وقت اُس کا لہجہ جدید بھی ہے، روایتی بھی، اَربن بھی، رُورل بھی۔ اپنے وقت کی پوری تہذیب کو سمیٹے ہوئے۔ نظم کا ہر مصرع پوری طرح کسا ہوا ملتا ہے۔ کبھی کوئی لفظ ایسا نہیں کہ وزن پورا کرنے کے لیے بٹہ رکھ دیا۔ ہر نظم اپنے قد پر پابند ہے۔ اوور سیئنگ کا کبھی کوئی اندیشہ نہیں۔ کبھی نظم پڑھتے ہوئے کسی کاوش یا ایفرٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ لگتا ہے کہ یہ بات بس یوں ہی تھی، اور ایسے ہی کہی جا سکتی ہے۔ چاہے وہ کتنی بھی ایبسٹریکٹ کیوں نہ ہو:
ریل کی سیٹی
ہوا کے پیٹ میں
سوراخ کرتی جا رہی ہے
اور دیکھیے:
رات کی دیوار پر
چاک سے لکھ روشنی
شکل سورج کی بنا !
اردو میں ماڈرن شاعری کی اُس سے اچھی مثال نہیں مل سکتی۔ میں ہمیشہ سے مداح تھا اس شاعر کا۔ انہیں پڑھتا بھی رہا۔ خط و کتابت بھی رہی۔ اُن کے رسالے "تسطیر" میں لکھتا بھی رہا۔ کوئی امید نہیں تھی کہ کبھی ملاقات بھی ہو گی۔ میں وطن سے چُھوٹا ہوا، اتنا ہی دُور اُن سے،جتنا میرا وطن! ایک بار وقت نے پہلو بدلا۔ میں لاہور گیا۔ اور پانچ گھنٹے کا سفر کر کے، جہلم کا پُل گزر کے، "دینہ" پہنچا۔ اپنا پیدائشی گھر دیکھنے۔ اپنے جنم کی مٹی چھونے۔ آٹھ سال کا تھا جب نکلا تھا۔ ستر سال کے بعد لوٹا۔ دینہ سٹیشن پر گیا۔ کچھ احباب ملے۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا۔
"مَیں نصیر احمد ناصر"۔ میں دیکھتا رہ گیا۔ اُس کے چہرے پر روشن سفید مونچھیں تھیں!
اس سے زیادہ خوبصورت سرپرائز مجھے زندگی میں کبھی نہیں ملا تھا!
زندگی کتنی سخی ہے۔ جو ایسے دوست دیتی ہے اور ایسے شاعر!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“