ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
No 2
تاریخ : 01-08-2019
غزل نمبر : 24
کلام: نسیم خانم صبا، کرناٹک۔۔انڈیا
گفتگو: افتخار راغب
دشت و صحرا سا ہے چمن میرا
مضطرب کیوں نہ ہو من میرا
✒ پہلا مصرع بہت اچھا ہے۔ دوسرے میں ممکن ہے کچھ ٹائپنگ کی غلطی ہو جس کی وجہ سے مصرع بے وزن ہو گیا ہے۔ ہو کی جگہ ہوتا ہوتا تو مصرع وزن میں ہوتا۔
گلستاں رونقیں تمہارے لیے
خار میرے ہیں اور یہ بن میرا
✒ گلستان رونقیں ایک واحد ایک جمع لفظ کو ایک جگہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ مصرع اس طرح بہتر ہو سکتا تھا کہ
ساری ہی رونقیں تمھارے لیے
دوسرے مصرع میں یہ حشو ہے خار کے مقابل بن بھی بھدا لگ رہا ہے۔ "یہ بن" کی جگہ "چمن" ہوتا تو بہتر ہوتا۔
کیوں کسی اور کے میں نام کروں
ہے تمہاری ہی نذر فن میرا
✒ ٹھیک شعر ہے
ہاں یقیناً پھلےگا پھولےگا
منفرد گر ہوا سخن میرا
✒ منفرد کی جگہ معتبر بہتر ہوتا۔
میرے مالک کی مہربانی ہے۔
ہے پاک پاک ابھی پیرہن میرا
✒ دوسرا مصرع اتنی بری طرح بے وزن ہے کہ کسی شاعر کے لیے لکھنا تو دور اس غزل کے ساتھ پڑھنا بھی مشکل ہے۔ اس طرح کے مصرع شاعر کا پول کھول دیتے ہیں۔
سرحد غم عبور کر تو لیا
دل ابھی تک ہے پرصحن میرا
✒ صحن اپنے درست وزن پر نہیں ہے جس کی وجہ سے مصرع بے وزن ہو گیا ہے۔
کس طرح کوئی مجھ کو روکے گا
ہوں صبا ہے جہاں وطن میرا
✒ دوسرا مصرع پڑھ کر مجھے میرے پسندیدہ غزل سنگر کی گئی غزل یاد آگئی
میں ہوا ہوں کہاں وطن میرا
دشن میرا نہ یہ چمن میرا
===============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید/غزل نمبر : 19
تاریخ : 05/08/2019
=============================
شاعر… رضا الحسن رضا امروہہ یوپی بھارت
گفتگو… نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی (انڈیا)
=============================
بسمہ تعالٰی…
احبابِ ذی وقار…،
"سب سے پہلے تو میں "سلسلہ غزل برائے تنقید" نامی اس ادبی پیشکش پر ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے بانی و چیئرمن محترم توصیف ترنل صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں…،
اس وقت 'سلسلہ غزل برائے تنقید' کے اس کامیاب ترین سلسلے کی رواں دواں غزل میرے سامنے ہے… جس کے تخلیق کار بھارت کے نامور شہر امروہہ سے تعلق رکھنے والے خوش فکر شاعر محترم رضا الحسن رضا امروہوی صاحب ہیں… خاکسار کی کیا بساط کہ موصوف کے کلام پر تنقید کرسکوں… البتّہ کلام سے متعلق اپنا مافی الضمیر پیش کرنے کی کوشش کروں گا…
=============================
غزل نمبر : 19
خواہشوں کی بھیڑ میں ناکام ہو کر رہ گٸ
زندگی مصروفیت کے نام ہو کر رہ گٸ
یقیناً انسان خواہشات کا مجسّمہ ہے… ایک پوری ہوئی نہیں کہ دوسری سر اُٹھاتی ہے… اور یہ سلسلہ آغوشِ گور تلک جاری و ساری رہتا ہے… کسی حد تک ان خواہشات کو پورا کرنے میں کامیابی تو مِل جاتی ہے لیکن انسان اس قدر مصروف ہوجاتا ہے کہ زندگی کا اصل مقصد ہی بھول جاتا ہے اور کامیاب ہوکر بھی وہ ناکام کہلاتا ہے… موصوف نے دورِ حاضر کی مصروف ترین زندگی کا نچوڑ مطلع میں بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کِیا ہے… عمدہ ترین مطلع کے لئے داد ہی داد…
____________
میں غلط لوگوں کی صحبت میں ذرا بیٹھا ہی تھا
میری ساری زندگی بدنام ہو کر رہ گٸ
بہت عمدہ شعر…، یقیناً…، بُری صحبت بدنامیوں کا سبب بنتی ہے پھر چاہے باطنی طور سے آپ کتنے ہی پرہیزگار کیوں نہ ہو… اکثر و بیشتر تمام عمر کئے گئے نیک اور اچھے کاموں پر بھی ذرا سی غلطی حاوی ہوجاتی ہے اور آپ کے نام رسوائی جوڑ دی جاتی ہے… شاید یہی دستور ہے زمانے کا…!!! اس ضمن میں خاکسار کا ایک چھوٹا سا مقولہ ہے کہ…، "تنہائی…، بُری صحبت سے ہزار درجہ بہتر ہے…!!!" خیر… عمدہ شعر پر ڈھیروں داد…
____________
فرض کو ایسا نبھایا غفلتوں کی نیند نے
نام والی ذات بھی گم نام ہو کر رہ گٸ
ثانی مصرع اچھا ہے لیکن اولیٰ گنجلک سا محسوس ہورہا ہے…! اس معنیٰ کر کہ یہاں کس فرض کی بات ہورہی ہے…؟؟؟ نیز "غفلتوں کی نیند" کا فرض کو نبھانے سے کیا تعلق…؟؟؟ اگر دُووور کی کوڑی لاتے ہوئے مصرعِ اولٰی کا اشارہ نمازِ فجر کی جانب بھی سمجھ لِیا جائے تب بھی لفظیات، مفہوم کی ادائیگی سے قاصر ہے… غور فرمائیں…
_____________
ہنس رہا ہے تو ستمگر حالِ وحثت پر میرے
میری ہستی تیرے غم کے نام ہو کر رہ گٸ
وااااہ وااااہ…. کیا ہی بیباک انداز ہے…
مبروک….مبروک…..ڈھیروں داد….
خانہٕ دل میں بسی جو تیری تصویرِ وفا
اس کی پوجا عاشقی کا کام ہو کر رہ گٸ
مصرعِ اولٰی اچھا ہے… لیکن ثانی مصرع انتہائی درجہ کا بے ایمان مصرع لگ رہا ہے… اتنی اچھی غزل میں اس ایک مصرع نے سخت کلامی پر مجبور کردیا ہے… کیونکہ شعر میں جس خیال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ناقبلِ برداشت ہے… میرے محترم بھائی کیا یہ کسی اعتبار مناسب لگتا ہے…!!!؟؟؟ اگر قدیم شعرا کے یہاں اس طرح کی مثالیں مل بھی جائیں تو کیا بحیثیتِ مومن ایسی مثالیں ہمارے لئے رہنما ہوسکتی ہیں…!!!؟؟؟ قطعی نہیں….!!! خدارا غور فرمائیں… اس ضمن میں بس ایک بات عرض کرتا چلوں کہ بہ اعتبارِ مومن، شاعری تو چھوڑیئے کوئی شئے ہمارے لئے ایمان و عقائد سے زیادہ قیمتی نہیں ہے…. واللّہ اعلم…
____________
ایسا آیا ہے یہ شادی میں جہیزوں کا رواج
سر کی پگڑی تک میری نیلام ہو کر رہ گٸ
اس شعر میں شاعر موصوف نے معاشرے میں دیمک کی طرح تیزی سے پھیل رہی برائی پر کراری ضرب لگاتا ہوا عمدہ خیال پیش کِیا ہے اور یقیناً یہ وقت کی ضرورت بھی ہے… خووووب…. بہت خوووب… البتّہ عرض کرتا چلوں کہ لفظ "جہیز" واحد اور جمع دونوں طرح مستعمل ہے لیکن مصرعِ اولی میں آپ نے "جہیز" کی جمع "جہیزوں" استعمال کیا ہے… ہوسکتا ہے مروّج بھی ہو لیکن یہاں غیر مناسب سا محسوس ہورہا ہے… اگر اس کی کوئی دلیل ہو تو میرے علم میں بھی اضافہ فرمائیں… علاوہ ازیں ثانی مصرع میں آپ نے جہیز کی بدولت ہونے والی اذیتوں کو خود سے منسوب کِیا ہے جبکہ اولیٰ میں اس کا کوئی جواز موجود نہیں… اس طرح ایک وسیع ترین خیال محدود ہوکر رہ گیا… بہتر ہوتا کہ آپ اسے ان تمام مفلوک الحال، مجبور والدین سے منسوب کرتے جو غیر ضروری جہیز کی وجہ سے اپنا سب کچھ لُٹا بیٹھتے ہیں… معزرت کہ…، خیال تو اچھا ہے مگر…. خیر… اگر آپ کی طبیعت پر بار نہ گزرے تو شعر اس طرح کرلیجے کہ…
شادی میں آئے ہیں جب سے بے تکے رسم و رواج
باپ کی پگڑی تلک نیلام ہوکر رہ گئی…
____________
جس کے سر پر بن گٸ سایہٕ دُعا ماں باپ کی
اس کی ہر تقلیف بھی آرام ہو کر رہ گٸ
بلاشبہ… ہر تکلیف میں والدین کے ساتھ ساتھ اُن کی دعائیں بھی راحت بخش ہوتی ہیں… اولاد کے سروں پر والدین کا سایہ، اللّہ کریم کی جانب سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے… اللّہ کریم ہمارے دلوں میں والدین کی سچّی پکّی محبّت تاعمر آباد رکھے نیز ہمارے سروں پر اُن کا سایۂ شفقت قائم و دائم رہے… آمین
____________
اپنی اس رنگیں جوانی پہ نہ اِترانہ کبھی
دیکھ دن کی روشنی بھی شام ہو کر رہ گٸ
ناصحانہ انداز بہت عمدہ ہے… لیکن اولیٰ میں لفظ "اس" حشو لگ رہا ہے ساتھ ہی "پر" کا مخفف "پہ" زبان کو متاثر کررہا ہے… عروضی اعتبار سے بھی یہاں اسے اپنی اصل حالت میں استعمال کرسکتے ہیں… البتہ بہترین ناصحانہ شعر ہوا ہے… روشنی اور شام کا استعارہ بھی خوب ہے… داد ہی داد…
_____________
لاکھ تم نے چپکے چپکے دل لگایا تھا رضا
رازداری بھی تو یہ کہرام ہو کر رہ گٸ
غزل کا مقطع بھی خوب ہے… داد ہی داد….
محترم…
رضاالحسن رضا پاٸتی کلاں امروہہ یوپی بھارت
مجموعی طور پر اچھی غزل ہے ساتھ ہی شاعر کے مختلف النوع تخیلات کی غمّاز بھی… اللّہ کریم ہمارے علم و عمل میں مزید خیر و برکت عطا فرمائے… آمین
نوٹ… تنقیدی گفتگو کو راقم الحروف کا مخلصانہ مشورہ سمجھا جائیں نہ کہ حرفِ آخر…
گفتگو…،نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی (انڈیا)…
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 10-08-2019
غزل نمبر : 8
شاعر : عمران کمال راولاکوٹ آزادکشمیر
گفتگو : ریاض شاہد بحرین
نام اس کا لے کر کہتی ہے
اب وہ اس کو بھول چکی ہے
خوبصورت مطلع ہے۔ جس میں محبت کی گہرائی ہے معصومیت ہے۔ جیسے کوئی چھوٹا سا بچہ روتے ہوئے کہے کہ میں رو تو نہیں رہا۔
ایک کہانی اس نے سنائی
ایک غزل میں نے لکھی ہے
اچھا شعر ہے مگر میرے خیال میں کہانی کے بعد دوسرے شعر میں غزل کی بجائے نظم کا صیغہ بہتر لگتا۔ کیونکہ کہانی یا واقعہ منظوم کیا جاتا ہے۔ غزل کا ایک الگ مزاج ہے
وقت کی سانسیں تھم جاتی ہیں
ساتھ مرے جب وہ چلتی ہے
شعر نے مزہ نہیں دیا۔ کسی کے ساتھ چلنے سے وقت وقت تھمنا چاہئے جبکہ سانسیں اس کی تھمنا چاہئیں جس کے ساتھ چل رہی ہے۔
اس کو غم ہے اور کسی کا
پاس مرے آ کے روتی ہے
ایک اچھا شعر ہے جس میں شکایت کی طرف اشارہ ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنا غم دوسروں کو سنایا جاتا ہے اسے دو مصرعوں میں خوب باندھا ہے
وقت کےہاتھ آنے کی ہے دیری
حسن ترا بھی اک تتلی ہے
شعر سمجھ سے باہر ہے۔ وقت کے ہاتھ آنے کیساتھ حسن کا کیا تعلق۔ وقت گزرنے کی بات ہو تو کچھ بات بنتی ہے
جس سے تیری خوشبو آئے
ایک غزل ایسی کہنی ہے
اچھی خواہش کا اظہار ہے۔ بہتر شعر ہے
اس دھرتی کی چیز نہیں وہ
چاند ستاروں سےملتی ہے
عام سا شعر ہے کوئی اچھوتی بات نہیں
عشق کی آتش بڑھکا دے گی
حسن کی وہ جلتی تیلی ہے
آتش عشق کو بھڑکانا اور وہ بھی حسن کی جلتی تیلی سے۔ واہ واہ واہ۔
روز کہاں ایسا نظارہ
قوسِ قزاح کے وہ جیسی ہے
ٹھیک ہے بہتر شعر ہے
ہم کو ستائش،کی نہیں خوائش
داد مگر اس سے لینی ہے
ستائش کی خواہش نہیں تو داد کس بنا پر اور کس چیز پر لینی ہے ؟؟
مجموعی طور پر عام فہم اور عام سی غزل ہے جس میں ایک جیسے مضامین کو مختلف طریقے سے برتا گیا ہے۔ غزل میں کوئی اچھوتا پن نہیں غزل مشق کے طور پر اچھی ہے
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
تاریخ : 02-08-2019
غزل نمبر : 9
کلام: اشرف علی اشرف سندھ پاکستان
گفتگو: شفاعت فہیم بھارت
اشرف صاحب کا مطلع ہے ہے ۔۔
ہے آئینے کے مقابل جو ہو بہ ہو کیا ہے
یہ میرا روپ نہیں ہے تو جلوہ رو کیا ہے
پہلا مصرع عمدہ کہا ہے لیکن دوسرا مصرع قافیہ کے سبب بگڑ گیا حالانکہ یہ جلوئے رو کو فک اضافت کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے جائز ہے لیکن یہاں یہ جلوہ گر ہوگیا سو شعر اچھا نہیں رہا
مرے بدن کی رگوں میں شراب کی صورت
جو سر پٹکتا گزرتا ہے جو بہ جو کیا ہے
شعر میں اگر ،شراب کی صورت ، نہ ہوتا تو بہت اچھا شعر ہوتا ۔ویسے پہلا مصرع اپنے مقام پر اور دوسرا مصرع اپنے مقام پر عمدہ ہیں ۔ رگوں کے لیے جو بہ جو کا استعمال بھی خوبصورت ہے
منافرت کے خسارے میں خوش خرام رہے
سرشت آدم خاکی میں خو بہ خو کیا ہے
منافرت کا خسارہ اور پھر اسمیں خوش خرام رہنا ،کچھ سمجھ میں نہیں آیا کیا کہنا چاہا ہے لیکن دوسرا مصرع خوب کہا ہے ،پہلے مصرعے نے شعر کو نگاڑ کے رکھ دیا ورنہ فکر اچھی ہے
مگن ہے اور کسی سوچ میں مرا وجدان
میں اپنے آپ سے مخفی ہوا ہوں تو کیا ہے
عمدہ شعر ہے اور سنوار کر کہا ہے فلسفہء عشق میں ڈوب کر شعر کہا ہے مبارکباد پیش ہے
ہتک ہے بادہ کشوں کی بڑھائیں دست شراب
نظر سے اٹھ نہیں پائے تو پھر سبو کیا ہے
پہلے مصرعے میں ادہ کشوں کے بعد لفظ کہ کی کمی کھل رہی ہے اور پھر یہ دست شراب کے کیا معنی ہیں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ شراب کے لیے ہاتھ بڑھائیں اور کہ گیا کچھ اور دوزرے مصرعے میں ،تو پھر سبو کیا ہے ۔ کیا مطلب کیا نظر سے نہ اٹھ پائے تو سبو ،دبو نہ رہیگی ۔ کہنا یہ چاہا ہے کہ۔اگر نظر سے سبو نہ اٹھ پائے تو چسہت ہی کیاہے ،عشق میں جذب کی منزل نہیں ہے ۔ لیکن اور کہگئے کہ توپھر سبو کیا ہے نتیجتاً شعر کا کچومر نکل۔گیا
ہمیں تو کوئی تفرق نظر نہیں آتا
سراب مہر تمنا یا ماہ رو کیا ہے
یہ سراب مہر تمنا سے کیا مراد ہے ،تمنا کے سورج کا دھوکا ،کیامطلب اورسراب کا لفظ کس معنی کے لیے استعمال کیا پھر ،کہ، کی جگہ یا کااستعمال کیا ہے اور یا کا الف گرانا غلط ہے سو مصرع خارج از وزن ہوگیا
تمہارا نام ہے اشرف سخن طراز مگر
،،تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے ،،
مقطعے میں غالب کے مصرعے کی تظمین ہے لیکن عجیب گورکھ دندہ ہوگیا ،اگر مان لیا جائے کہ۔اشرف صاحب کانام سخن طراز بھی ہے تو،تمہیں کہو کہ۔یہ انداز گفتگو کیا ہے ،کہا ں چسپاں ہوا ،اشرف صاحب کہنا چاہتے ہیں کہ اشرف تمہارا نام سخن طرازی کے لیے مشہور ہے ہے لیکن کہہ نہ سکے اور شعر الّم غلّم ہوگیا
شفاعت فہیم
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
غزل برائے تنقید
شاعر نے اپنی غزل پر خود تنقید کر ڈالی
باب,تحریر مکافات, جنوں تھا۔ یوں تھا
سوز, دل درجہء ایقان و سکوں تھا۔ یوں تھا
رات تا دیر لب, بام رھے اشک رواں
قصہء گریہء مہتاب, زبوں تھا یوں تھا
پاؤں بھی کاٹ دیئے حلقہء زنجیر کے ساتھ
وائے الفت کہ مرا شوق فزوں تھا یوں تھا
پھر نظر آیا شب, تار جو محمل کا وجود
خواب تھا یا کہ مرا جذب, بروں تھا یوں تھا
آج ھیں اہل, ہنر اپنے ظواہر کے رقیب
میری تجدید کے رستے میں دروں تھا یوں تھا
عشق نے قصر, علی نام لکھا تھا گھر پر
جس کے اطراف محبت کا فسوں تھا یوں تھا
علی مزمل مرحوم ۔ کراچی
باکستان
اس کلام کا خالق دیوانہ یعنی عقل و خرد سے یکسر عاری لگتا ھے۔ اس زمانے میں جب لوگ اتباف ابرک جیسے شعراء کے کلام کے دیوانے ھیں یہ بلا وجہ دقیق فارسی و عربی تراکیب کے استعمال سے معلوم نہیں کیا ثابت کرنا چاھتا ھے۔ یہ شاعر یقیناً شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ھے سمجھتا ھے اساتذہ کے دور کے کلام کو بھی پڑھا جائے۔ یہ نہیں جانتا کہ آج کا انسان وقت کی کمی اور مصروفیت کے باعث اختصار اور سہل کو اظہار کا ذریعہ بنا چکا ھے۔ اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ گنجلک اشعار کی گتھیاں سلجھاتا رھے۔
بہ حپثیت, مجموعی کلام چوں چوں کا مربہ ھے اور شاعر کے ذھنی خلفشار کا نمونہ ھے۔ ایسے شعراء پر سرکار کو روک لگانی چاھئیے کہ یہ عوام الناس اور شعراء کے خلاف کھلی سازش کا مرتکب ھوا۔
حیف صد حیف کہ اس ناعاقبت اندیش کے سبب شعر و ادب کو یہ دن دیکھنے پڑ رھے ھیں۔
منجاب۔ خاکسار
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کی پیشکش
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 213
بعنوان :ردیفی مشاعرہ و بیاد ضیا شادانی مرحوم
ردیف : الف
کلام: خواجہ ثقلین
گفتگو: افتخار راغب
تمہاری سوچ کو فرقت میں جب لحاف کیا
دلِ خراب کو یادوں نے کوہِ قاف کیا
✒ کوہِ قاف کرنا سے مراد یہاں حسن کی وادی یا پریوں کا دیس کرنے کے معنی میں ہے اور عمدہ لگ رہا ہے۔ شاعر نے سوچ بہ معنی خیال کے استعمال کیا ہے۔ خیال کے مترادفات میں سوچ مل بھی جائے گا لیکن ہر مترادف لفظ ہر جگہ کسی لفظ کا بدل نہیں ہوتا۔ یہاں لفظ سوچ وجدان پر بہت گراں گزر رہا ہے جو پورے شعر کی کوہ قافی فضا کو مکدر کر رہا ہے۔ ویسے سوچ یا خیال کو لحاف کرنا بہت خوب ہے۔ پہلا مصرع اس طرح بہتر ہو سکتا تھا کہ
ترے خیال کو فرقت میں جب لحاف کیا
خدا کا شکر ہے جو آج اعتراف کیا
کہ اس نےٹھوس حقائق سے انحراف کیا
✒ پہلا مصرع مبہم سا محسوس ہو رہا ہے یہ واضح نہیں ہو رہا ہے کہ کس نے کیا اعتراف کیا؟ لیکن دوسرا مصرع پڑھتے ہی توقع کے برخلاف بات سامنے آرہی ہے کہ اُس نے یہ اعتراف کیا کہ اُس نے کبھی ٹھوس حقائق سے انحراف کیا تھا۔ اچھا شعر ہے۔
سنا جو،جھیل کے آیا ہے عزلتوں کے عذاب
قصاص ہجر کا ہم نے اسے معاف کیا
✒ دوسر مصرع میں قصاص کا بے جا استعمال ہوا ہے۔ لغات میں بھلے ہی قصاص کے معنی بدلا یا سزا وغیرہ کے بھی ملتے ہوں لیکن اس کا استعمال قتل کے بدلے قتل یا خوں بہا کے معنی ہی میں ہوتا ہے۔ اس لیے ہجر کا قصاص کہنا درست نہیں محسوس ہوتا۔ اس کے بعد قصاص معاف کرنا مزید ستم جیسا لگ رہا ہے۔ پہلا مصرع بھی گنجلک اور بے لطف ہے۔
مرورِ وقت نے دھندلا دئے نقوش اتنے
ملا نہ عکس،بہت آئینے کو صاف کیا
✒ پہلا مصرع واضح ہے۔ لیکن دوسرے مصرع میں شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ جو عکس مطلوب تھا یا جو گمان میں تھا وہ عکس لاکھ آئینے کو صاف کرنے سے بھی نہیں مل سکا۔ لیکن یہ بات صرف "ملا نہ عکس" کہنے سے واضح نہیں ہو رہی ہے۔
خیال یوں بھی در آیا ترا عبادت میں
کہ جیسے دزد نے دیوار میں
شگاف کیا
✒ پہلے مصرع میں "یوں بھی" کی جگہ یوں یا ایسے کا محل ہے۔ "ایسے" لانے سے شعر اپنا مفہوم ادا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
دل و جبین، تشکر سے سجدہ ریز ہوئے
نگاہ نےترے پیکر کا جب طواف کیا
✒ پہلے مصرع میں تشکر کا استعمال مناسب انداز میں نہیں ہوا ہے یعنی "تشکر سے" کہنا محلِ نظر معلوم ہو رہا ہے۔ تشکر کی جگہ محبت زیادہ بہتر ہوتا۔ شعر کا مفہوم واضح اور اچھا ہے۔
شاعر نے مشکل ردیف و قافیہ میں غزل کہنے کی کوشش کی ہے جو لائقِ تحسین ہے۔ ذرا ذرا کسر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے غزل بہت اچھی نہیں ہو سکی ہے۔
==============================
ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں
غزل برائےتنقیدی پروگرام
پروگرام نمبر 148
منجانب، انتظامیہ
==========================
آرگنائزر
توصیف ترنل ہانگ کانگ
===========================
غزل
ایک آدھ شعر کو حاصل اگر دوام ہوا
تو ہم یہ سمجھیں گے ہم سے بھی کوئی کام ہوا
کسی نے شاہی لباسوں میں ذلّتیں جھیلیں
کسی کا ٹاٹ کے کپڑوں میں احترام ہوا
مخالفین پہ کیچڑ اچھالنے والو
تمہارے عہدِ حکومت میں کتنا کام ہوا
یہ سوچ کر کہ مرے ساتھ ہو سفر میں تم
کبھی کبھی تو میں خود سے بھی ہم کلام ہوا
ہم ایسی سخت سزاؤں کے مستحق تو نہ تھے
تمہارا جرم بھی شاید ہمارے نام ہوا
یہ سانحہ نہیں لکھّا کسی موُرخ نے
کہ جنگ ہم نے لڑی اور ان کا نام ہوا
یہ اور بات ہمیں کام سے فراغ نہیں
تمہاری بزمِ طرب میں تو انضمام ہوا
ہم اپنے عہد کے بارے میں اتنا جانتے ہیں
کہ مقتدی جسے ہونا تھا وہ امام ہوا
کوئی بھی جاننے والا نہیں تھا دفتر میں
تمہارے بعد بڑی مشکلوں سے کام ہوا
اُجالے بانٹ رہا تھا جو گاہ گاہ ریاض
ہمارے گھر نہیں پہنچا کہ وقتِ شام ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ریاض حنفی
قصبہ نور پور ضلع بجنور یو پی انڈیا
محترم ریاض حنفی صاحب کی غزل پیش نظر ہے ، اسکا مطلعہ ہے ،
ایک آدھ شعر کو حاصل اگر دوام ہوا
تو ہم یہ سمجھینگے ہم سےبھی کوئی کام ہوا،
دوسرے مصرعے کی تقطیع ہوئی ،،مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعِلن ،، اور یہی مسلسل چل رہی ہے بس رکن آخر میں کہیں فعِلن اور کہیں فعلن ہے ،جو جائز ہے ، مگر پہلے مصرعے میں ہی بحر کون سی آگئی پتہ نہیں چلتا ، اگر مصرع یوں ہوتا تو درست ہوتا ،،اک آدھ شعر کو حاصل اگر دوام ہوا ،، تو تقطیع درست ہوجاتی ، مفاعلن ،اکاد شع ،، ، اسکے علاوہ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا اس دنیائے موجودات میں کیا کسی شے کودوام حاصل ہے جو شاعر اپنے شعر کے دائمی ہونے کی تمنا کررہا ہے ،غالباً شاعر نے لفظ دوام ،شہرت کےلیے استعمال کیا ہے جو محل نظر ہے ،
دوسرا شعر برجستہ اور خوب ہے ، لباس نہ تو عزت دےسکتا ہے نہ ذلت ، عزت وذلت انسان کے علم و عمل پر منحصر ہیں ،
تیسرا شعر ،،۔
مخالفین پہ کیچڑ اچھالنے والو
تمہارے عہد حکومت میں کتنا کام ہوا
شعر میں موجودہ حکومت سے طنزیہ لہجے میں سوال کیا گیا ہے ، خالص سیاسی اور پارٹی کی سیاست کے تحت کہا گیا شعر ہے جسے غزل باہر کہا جاسکتا ہے
چوتھا شعر ،،یہ سوچکر کہ مرے ساتھ ہو سفر میں تم ،،،کبھی کبھی تو میں خود سے بھی ہم کلام ہوا ،،، دودرا مصرع عمدہ ہے ،لیکن پہلے مصرعے کی ساخت تھوڑی تبدیلی چاہتی ہے ،
اگلا شعر ،،ہم ایسی سخت سزاوُ ں کے مستحق تو نہ تھے ،،،،،،تمہارا جرم بھی شاید ہمارے نام ہوا ،،،، اس میں سزا کا استحقاق ہونا کچھ اچھا نہیں ہے ، جرم تو لائق سزا ہوتا ہے ،
دیگر شعر ،،یہ سانحہ نہیں لکھا کسی مورخ نے ،،،،،،کہ جنگ ہم۔نے لڑی اور انکا نام ہوا ،،اس شعر میں شاعر جنگ جیتنے کا تصور پیش کرنا چاہتا ہے ، لیکن یہ نہ کہسکا ، غالباً وزن کو پورا کرنے کیلیے جنگ لڑی کہگیا ، جبکہ جنگ لڑنا کوئی اچھا،ہے اور نہ کمال کی بات ہے ، شاید کہنا یہ تھا کہ ،،جنگ جیتی کسی نے کسی کا نام ہوا،
اگلا شعر ،،،یہ اور بات ہمیں کام سے فراغ نہیں ،،،،، تمہاری بزم طرب می تو انضمام ہوا ،،،،،معنوی اعتبار سے گنجلک ہے ، دوسری بات یہ کہ عاشق اگر محبوب میں ضم ہوجائے تو وصل مکمل ہوتا ہے لیکن یہ بزم طرب میں انضمام سے کیا مرادہے ، پھر اسکے ساتھ یہ کہنا کہ یہ اور بات ہمیں کام سے فراغ نہیں ، ایسا لگتا ہے کہ ایک مصرع ایران اور ایک طوران کو جارہا ہے ، غالباً یہ شعر ،انضمام ، کے قافیہ کو صرف کرنے کیلیے گھڑا گیا ہے
دوسرا شعر ،،،،ہم اپنے عہد کے بارے میں اتنا جانتے ہیں ،،،،،کہ مقتدی جسے ہونا تھا وہ امام ہوا ،، ، اچھا موجودہ حالات پر تبصرہ ہے اور غزل کے پیرائے میں ہے
دیگر شعر ،،،کوئی بھی جاننے والا،نہیں تھا دفتر میں ،،،،، تمہارے بعد بڑی مشکلوں سے کام ہوا ،،،،، ہر چند کہ یہ اس شعر میں شاعر نے اس دور کی رشوت ستانی اور حکام سے تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوے ، زمانح پر بھر پور طنز کیا ہے ، لیکن اسے دگتر عشو تک لیجادکتے ہیں اور محبوب کے سامنح نہ ہونح سے عاشق کو جن پریشانیوں کا سامنہ کرنا پڑتا ہے اسکا بخوبی بیان کیا ہے ، اس طرح یہ شعر داخل غزل ہے ،،
مقطعے میں شاعر نے شومئی قسمت کا بیان کیا ہے ،،،،،اجالے بانٹ رہا تھا جو گاہ گاہ ریاض ،،،،،ہمارے گھر نہیں پہنچا کہ وقت شام ہوا ،،،،،،اس میں ہمارے گھر نہیں پہنچا کی جگہ کچھ اور ہونا چاہیے تھا ، گھر کچھ اچھا،نہیں لگ رہا ، لیکن اگلا ٹکڑا ،،کہ وقت شام ہوا ،، بہت عمدہ ہے ، یہ زندگی کے وقت آخر کیے لیے بہت خوب کہا ،، اور اس سے شعر میں ایک جاذبیت پیدا ہوگئی ہے ،
مجموعی طور پر ریاضصاحب نے یہ۔ایک اچھی غزل کہی یے ، جس میں مختلف قسم کے تخیلات وافکار کو نظم بند کیا ہے ، زبان کی حلاوت کے لیے بھی کافی کوشش کی ہے .
شفاعت فہیم بھارت
==============================
ادارہ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں
غزل برائے تنقید
شاعر:ڈاکٹر نبیل احمد نبیل
عجیب اشکِ ندامت سے یہ نظارہ بنا
کوئی چراغ بنا اور کوئی ستارہ بنا
بَلا کا سیل ہے کشتی نہ ڈُوب جائے کہیں
بھنور کو کاٹ کے کوئی نیا کنارا بنا
ہر ایک سانس سہولت سے کاٹنے والے
ہمارے واسطے بھی زندگی گوارا بنا
کبھی مجھے بھی مرے پاؤں پر کھڑا کر دے
کبھی مجھے بھی مرے واسطے سہارا بنا
وہ جس کو دیکھ کے آنکھیں چمکنے لگتی ہیں
مری نظر کے لیے ایسا اِک نظارہ بنا
زمیں پہ پاؤں رکھوں اور فضا میں اُڑنے لگوں
مجھے پرندہ بنا یا کوئی شرارہ بنا
تُجھے تو کُوزہ گری کا ہنر بھی آتا ہے
گِرا کے ساری عمارت اسے دوبارہ بنا
میں تیرے در پہ کھڑا سوچتا ہوں مدّت سے
سفر کا اذن مرے واسطے اشارہ بنا
میں غم کی لذتِ پہم سے آشنا نہ رہوں
حیات نفع رہی ہے اسے خسارہ بنا
ہوائے تازہ جہاں بھی ذرا میسر ہو
فضائے حبس میں ایسا کوئی نظارا بنا
ہمارے دستِ ہنر کو لپیٹنے والے!
کوئی تو بگڑا ہوا کام بھی ہمارا بنا
یہ سارے دیس میں دل کی طرح دھڑکتا ہے
تُو ایسے شہر کو ایسے نہ مٹی گارا بنا
جسے بھی ہم نے بنایا ہے رہ نما اپنا
بُرے دنوں میں کہاں اپنا وہ سہارا بنا
پھر اُس کی راکھ سے روشن جہان ہو جائے
نبیل خاک سے اپنی کوئی ستارہ بنا
ڈاکٹر نبیل احمد نبیل
—————————————-
تنقید نگار
محترم علی مزمل خان مرحوم کراچی
محترم ڈاکٹر نبیل احمد نبیل صاحب ہائے ہوز کے چکر سے نکلیں اور شاعری کی طرف متوجہ ھوں۔ آپ لفظ غلط لکھیں گے تو وہ کمپوزر درست کردے گا۔ غزل خیال سے عاری ھوئی تو لوگوں کی نظر میں آپ کا جو معیار بنے گا اس کا ازالہ ممکن نہیں۔
ابن, انشاء اردو کی آخری کتاب میں فعل ماضی کی تعریف کرتے ھوئے کہتے ھیں کہ
"وہ فعل جو ماضی میں کیا جائے فعل ماضی کہلاتا ھے۔ بندہ اسے بھولنے کی بہت کوشش کرتا ھے مگر لوگ نہیں بھولتے"
پہلا شعر۔
عجیب اشک, ندامت سے یہ نظارہ بنا
کوئی چراغ بنا اور کوئی ستارہ بنا
پہلی بار اشک, ندامت و انفعال سے عجیب نظارہ بننے کی بات مشاہدہ میں آئی ھے کہ اشک, ندامت گرتے رھے اور کچھ چراغ تو کچھ ستاروں کی شبیہ اختیار کرتے رھے۔
بعید از قیاس۔
دوسرا شعر۔
بلا کا سیل ھے کشتی نہ ڈوب جائے کہیں
بھنور کو کاٹ کے کوئی نیا کنارا بنا
بلا کا سیل۔
سیل وہ لفظ ھے جو اردو میں مجرد مستعمل ہی نہیں۔ تاوقتیکہ اضافت نہ لگائی جائے۔
مثلاً ۔ سیل, بلا۔ سیل, حوادث وغیرہ
لہٰذا یہ شعر بھی بنیادی نقص کے سبب وقار کھو بیٹھا۔
اور بھنور کو کاٹ کر کنارا بنانا بھی کار, مستحیل کے زمرے میں آتا ھے۔ جو بعید از قیاس ھے۔
تیسرا شعر۔
ہر ایک سانس سہولت سے کاٹنے والے
ہمارے واسطے بھی زندگی گوارا بنا
شعر میں وضاحت نہیں ھورہی کہ آپ اپنے باس سے مخاطب ھیں یا خالق, کائنات سے۔
عمر کاٹی جاتی ھے قید کاٹی جاتی ھے۔ سانس کاٹنا غیر مستعمل ھے۔ اور اگر خالق سے مخاطب ھیں تو معیوب بھی ھے اور ناشکری بھی۔
دوسرا مصرعہ بھی کھینچ تان کر جوڑا گیا ھے
چوتھا شعر
کبھی مجھے بھی مرے پاؤں پر کھڑا کردے
کبھی مجھے بھی مرے واسطے سہارا بنا۔
اس شعر کے مصرعۂ اولیٰ میں شاعر ایک پاؤں پر کھڑا ھونے کا خوھش مند ھے۔
جبکہ شعری اور محاوراتی ضرورت دو پاؤوں کی متقاضی ھے۔
لہٰذا مذکورہ شعر بھی حسب, سابق رہا۔
پانچواں شعر
وہ جس کو دیکھ کے آنکھیں چمکنے لگتی ھیں
مری نظر کے لیے ایسا اک نظارہ بنا
اس شعر کے مصرعۂ اولیٰ میں شاعر آنکھیں چمکنا کی اصطلاح سراسر غلط استعمال کی ھے۔
مشاہدہ میں آیا ھے کہ کچھ جانوروں مثلاً بلی کتا بھیڑیا چیتا شیر وغیرہ کی آنکھوں کی پتلی میں ریڈیم نام کا ایک مادہ ھوتا ھے جس سے اندھیرے میں ان جانوروں کی آنکھیں چمکتی نظر آتی ھیں۔
میرا ذاتی خیال ھے کہ شاعر اس وصف سے مبرا ھے
شاعر کو چمکتا کے بجائے روشن لکھنا چاھئیے تھا مگر برا ھو قوافی اور ردیف کا۔ شاعر کے تصورات کو محصور کر دیتے ھیں۔
چھٹا شعر
زمیں پہ پاؤں رکھوں اور فضا میں اڑنے لگوں
مجھے پرندہ بنا یا کوئی شرارہ بنا
اس شعر میں شاعر اپنے احسن تقویم ھونے پر نالاں ھے۔
وہ انسانیت کے بلند مرتبے سے اپنی معزولی چاھتا ھے۔
پرندہ یا شرارہ انسان کی دسترس میں ھیں۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ھو جو اپنے مرتبہ اور مقام سے کمتر مقام کی خواہش کرے۔
لہٰذا یہ شعر بھی غزل کا پیٹ بھرنے کی ایک ناکام کوشش ہی سمجھا جائے۔
ساتواں شعر
تجھے تو کوزہ گری کا ہنر بھی آتا ھے
گرا کے ساری عمارت اسے دوبارہ بنا
یہ بات فہم سے بالا ھے کہ کوزہ گری کا عمارت سازی سے کیا ربط ھے۔
میں چونکہ عمارت سازی کے فن پر دسترس رکھتا ھوں اور کوزہ گری کے رموز سے بھی کسی قدر آشنائی ھے۔ لہٰذا عرق ریزی کے باوجود دونوں فنون میں مماثلت کے آثار پانے سے محروم رہا۔
اس لیے یہ شعر بھی اوپر بیان کئے گئے اشعار کی فہرست میں شمار کیا جائے۔
آٹھواں شعر
میں تیرے در پہ کھڑا سوچتا ھوں مدت سے
سفر کا اذن مرے واسطے اشارہ بنا
بہت کوشش کی کہ دونوں مصرعوں میں کوئی ربط مل جائے۔ مگر ناکام رہا
کیا کوئی کسی کے در پے مدتوں کھڑا ھو کر سوچ سکتا ھے۔
بلکہ واثق امید یہی ھے کہ محلے کے لونڈے لپاڑے علاقہ میں بلا سبب کھڑے رھنے پر بخیئے ادھیڑ دیں گے۔
شعر بے ربط مصرعوں پر مشتمل ھے جو شعری وقار سے محروم ھے۔
نواں شعر
میں غم کی لذت, پیہم سے آشنا نہ رھوں
حیات نفع رہی ھے اسے خسارہ بنا
اس شعر کے مصرعۂ اولیٰ میں پیہم کو پہم لکھا گیا ھے جو شاعر کی شعر سے بے توجہی کی دلیل بھی شمار کی جا سکتی ھے اور سہو بھی ۔
دونوں مصرعوں میں شاعر اپنی بات کی خود نفی کر رہا ھے۔
یعنی پہلے مصرعہ میں شاعر لذت, پیہم سے بے زاری کا اظہار کررہا ھے اور فوراً دوسرے مصرعہ میں کہتا ھے کہ زندگی جو اب تک مزے اور خوشحالی میں گزر رہی ھے اس کو نقصان سے دوچار کردے۔
خوشحالی میں لذت, غم نہیں ھوا کرتی۔
خسارہ ھوتو غم ملتے ھیں۔
متضاد کیفیت کا حامل یہ شعر بھی فقط ردی ھے۔
دسواں شعر
ھوائے تازہ جہاں بھی زرا میسر ھو
فضائے حبس میں ایسا کوئی نظارا بنا
شاعر اس شعر کے مصرعۂ ثانی میں کہتے ھیں۔ فضائے حبس میں ایسا کوئی نظارا بنا۔
مگر یہ بتانے سے قاصر رھے کہ کیسا نظارہ ھو؟
ایسا اس وقت کہا جاتا جب مصرعۂ اولیٰ میں کوئی مثال دی گئی ھوتی۔
المختصر یہ شعر بھی معنویت سے خالی ھونے کے سبب محولہ بالا اشعار سے کسی طور کم نہیں۔
گیارھواں شعر
ھمارے دست, ہنر کو لپیٹنے والے
کوئی تو بگڑا ھوا کام بھی ھمارا بنا
پچاس برس کے ھوا چاھتے ھیں مگر دست, ہنر کو لپیٹنے کی مثال پہلی بار نظر سے گزری ھے۔
حسب, سابق اس شعر میں بھی مخاطت کا پتا نہیں چل رہا۔
سابقہ اشعار کی طرح یہ بھی اٹکل پچو کیفیت کا عکاس ھے۔
بارھواں شعر
یہ سارے دیس میں دل کی طرح دھڑکتا ھے
تو ایسے شہر و ایسے نہ مٹی گارا بنا
اس شعر میں بھی مخاطب مفقود ھے۔ اور یہ بھی نہیں معلوم کہ کیسے مٹی گارا بنانا ھے اگر ایسے نہیں بنانا تو۔
اس شعر سے بھی یقین راسخ ھوا کہ شاعر جان بوجھ کر ہر شعر میں غلطی کرتا ھے کہ شعر نہ سمجھنے والے متاثر ھوں گے کہ کیا بڑا شعر کہا ھے جو ھم ک