بھارت کی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والی شاعرہ اردو زبان اور شاعر مشرق علامہ اقبال سے عقیدت کی حد تک محبت کرتی ہیں ۔ ان کی شاعری کا محور اللہ تبارک و تعالی اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور عقیدت کا اظہار ہے اور اس کے علاوہ انہوں نے اپنی شاعری میں عوامی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر بھرپور توجہ دی ہے۔ وہ عام شہریوں کے دکھ درد اور مسائل کو اپنا دکھ اور اپنی ذات کا مسئلہ سمجھتی ہیں ۔
نسیم خانم صبا صاحبہ کے والد صاحب کا نام عبدالحئی ہے ۔ وہ ریاست کرناٹک کے ضلع بلاری میں پیدا ہوئیں ۔ پی یو سی ڈی ایڈ تک تعلیم حاصل کی اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئیں جہاں وہ درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں ۔ انہوں نے بچپن سے علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ کیا اور پھر اس شوق شاعری کے نتیجے میں خود بھی شاعرہ بن گئیں اور صبا تخلص اختیار کر لیا شاعری میں ریاض اے خمار صاحب آف بنگلور ان کے استاد ہیں ۔ صبا صاحبہ نے حمد و نعت ،غزل اور نظم وغیرہ کے اصناف میں خوب طبع آزمائی کی ہے اور اور اب تروینی صنف میں مشق سخن کر رہی ہیں ۔ مطالعے کے حوالے سے وہ سب سے زیادہ قرآن مجید اور تفسیر قرآن کا مطالعہ کرتی ہیں اس کے بعد شاعری میں سب سے زیادہ علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ اور اس پر غور و فکر کرتی ہیں ۔
عشق، پیار اور محبت کے حوالے سے ان کی سوچ بہت واضح اور مثبت ہے بلکہ وہ صرف اور صرف عشق حقیقی کی قائل ہیں ۔ جب ان سے عشق اور محبت کے موضوع پر سوال کیا گیا تو انہوں نے دوٹوک جواب دیتے ہوئے کہا کہ بالکل مجھے عشق ہے اور وہ عشق مجھے اللہ تبارک و تعالی اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و صلعم سے ہے اور اس ضمن میں انہوں نے علامہ اقبال کا مشہور زمانہ شعر پڑھ کر سنایا کہ
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
حضرت علامہ محمد اقبال کے علاوہ وہ جن ادباء و شعراء سے متاثر ہیں ان میں نسیم لکھنوی، عامر عثمانی، ناہید طاہر اور واجد اختر صدیقی صاحب شامل ہیں ۔ نسیم صبا نے باقاعدہ شاعری کا آغاز 2012 سے کیا ان کی شاعری بھارت کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہے اور خوب پذیرائی مل رہی ہے ۔ ان کو اپنی شاعری کی کتاب شائع کرانے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے ۔
نسیم خانم صبا صاحبہ نے ایک سوال کے جواب میں میں کہا کہ اردو ایک بڑی اور وسعت پذیر اور شیرینی زبان ہے جس کا دامن بہت وسیع اور کشادہ ہے ہے ۔ اردو زبان کو، کوئی خطرہ نہیں ہے ان شاءاللہ یہ قائم و دائم رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ادیب اور شاعر کے قول اور فعل میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے لیکن مجھے بہت افسوس کےساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے شعراء شہرت اور دولت کے حصول کے لئے شاعری کر رہے ہیں ۔ انہوں نے قارئین سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ وہ علم اور تعلیم کے حصول کو ترجیح دیں کیوں کہ تعلیم انبیائے کرام کی میراث ہے ۔ آخر میں نسیم خانم صبا صاحبہ کی شاعری سے کچھ انتخاب قارئین کی نذر
نمونہء کلام
نام اقبال تھا اقبال بھی رب نے بخشا
ان کو یہ مرتبہ تعظیمِ ادب نے بخشا
اپنے افکار خزینہ سے سجایا گلشن
جس نے امت کو دیا بیش بہا فکر کا دھن
اپنے پیغام سے امت کو جگایا اسنے,,,,
رب کے فرمان کو نظموں میں سمایا اس نے
کتنا مشہور ہوا قومی ترانہ دیکھو,,,,
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا, پڑھ لو.
بالِ جبریل سے یا بانگِ درا سے چن لو,,,
دل کو پُر نور جو کرنا ہو کہیں سے سن لو
پڑھ کے اقبال کے اشعار قرینہ آیے,,,,
اور دشمن کوئی پڑھ لے تو,,, پسینہ آیے.
ان کے افکار کتابوں میں درخشندہ ہیں,,,,
ان کی شاہین و خودی آج تلک زندہ ہیں
اب تو اقبال کی ہی قدر ہمیں کرنی ہے
اے صبآء نظم مری , نذر انہیں کرنی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار رحمت
بن کر شفاعتوں کا امکان آگیا ہے
سب کی عنایتوں کا فیضان آگیا ہے
تھا انتظار جس کا سائم کو سال بھر سے
عرش بریں سے اب وہ مہمان آگیا ہے
غفلت کی تیرگی میں ہونٹوں پہ زندگی کے
پھر روشنی کی بن کے مسکان آگیا ہے
سد شکر ہے اِلہٰی میری حیات میں پھر…
خوش قسمتی سے ماہ غفران آگیا ہے
دورِ خزاں تھا لیکن گلشن میں عاصیوں کے..
بن کر بہار رحمت رمضان آگیا ہے
کہتا ہے دل صبا کا ماہِ مبین میں ہردم …
پھر دل میں تازہ تازہ ایمان آگیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم سے بڑھ کر اثاثہ بے بہا کچھ بھی نہیں
علم سے خالی هو جو اس میں رہا کچھ بھی نہیں
خلق کی خدمت کی خاطر وقف کر دیجے حیات
قوم کی خدمت سے بہتر راستہ کچھ بھی نہی*
راہبر کے سامنے ہی لٹ گیا ہے کارواں
بس کھڑا دیکھا کیا ، اس نے کیا کچھ بھی نہیں
اس نے یہ کہکر سنوارے اپنے گیسو دیر تک
آپکی آنکھوں سے اچھا آئینہ کچھ بھی نہیں
کوئی بھی موسم رہے شکر خدا لب پر رہے
زندگی جہد مسلسل کے سوا کچھ بھی نہیں
اس کی خاموشی پہ اب تک سوچتی ہوں اے صبا
کیا ہوا ایسا کہ کہنے کو رہا کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا جلوہ دکھا گئیں آنکھیں
خوب محفل سجا گئیں آنکھیں
کچھ نہ کہنے کو رہ گیا باقی
سارا قصہ سنا گئیں آنکھیں
____
نسیم خانم صبا