نسائی جنسیات اور مذہبی معاشرہ
میں نے کوئی دس سال پہلے " محبت ۔۔ تصور اور حقیقت" کے عنوان سے کتاب لکھی تھی۔ یہ محبت سے متعلق تحقیق پر مبنی کتاب تھی۔ میرا ارادہ تھا کہ اس کے بعد "مباشرت ۔۔۔ تعیش اور ضرورت " کے عنوان سے ایک تحقیقی کتاب لکھوں گا اور پھر " مناکحت ۔۔۔ تسکین اور صعوبت" کے عنوان سے۔ میں نے شائع شدہ کتاب نذیر لغاری کو بھی دی تھی۔ پھر ہم جب اس کی گاڑی میں جا رہے تھے تو میں نے اسے اپنے اس ارادے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ جس پر اس نے سڑک پر نظریں گاڑے، انتہائی سنجیدگی سے اپنی سرائیکی زبان میں مشورہ دیا تھا، " پھر کوشش کرکے ان کو انٹر کے نصاب میں بھی شامل کروا دینا " میرا قہقہہ چھوٹ گیا تھا اور لغاری بھی ہنسنے لگا تھا۔
تاہم میں اس مذاق سے آزردہ خاطر نہیں ہوا تھا۔ میں نے جنسیات پر مواد اکٹھا کرنا جاری رکھا تھا۔ یہ ایسا موضوع ہے جو آٹھ سال سے اسی سال تک کے کم از کم مردوں کے لیے انتہائی موجب دلچسپی ہے۔ اس لیے اسے لکھنے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ رہی عورتیں تو عرض کرتا چلوں کہ 1970 کی دہائی میں جب معروف ماہر جنسیات ڈاکٹر نینسی فرائیڈے نے لوگوں کے جنسی تخئیلات Fantasies جمع کرنے کی ابتداء کی تو انہیں امریکہ جیسے آزاد، آزادخیال اور آزادی اظہار کے حامل ملک میں بھی بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ خواتین جنسیات اور خاص طور پر جنس یا جنسی عمل سے متعلق تخئیلات پر بات نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ مشرقی ملکوں اور خاص طور پر ان ملکوں کی تو بات ہی کیا کرنی جہاں مذہب سخت گیر ہو اور جس کی پابندی کرنے پر زور دیا جانا گھر گھر میں عام ہو بالخصوص بچیوں، لڑکیوں اور خواتین کے لیے۔
مواد تو میں نے اکٹھا کر لیا لیکن ہمت نہ ہوئی کہ ایسے موضوع کو اپنے انداز میں طشت از بام کروں چنانچہ میں نے اپنی آپ بیتی لکھنا شروع کردی جو گذشتہ آٹھ دس برس سے ایک پبلشر کے قبضے میں ہے۔ اس میں میں نے جنس پر بھی کچھ بات کی ہے۔ سوشل میڈیا آنے سے خواتین کے ساتھ جنس پر بات کرنا اس لیے کچھ آسان ہو گیا کہ اس میں انسان روبرو نہیں ہوتا۔ اس معاملے پر تو روس میں بھی خواتین روبرو ہو کر بات کرنے سے ہچکچاتی ہیں چہ جائیکہ پاکستان جیسے ملک میں۔
گفتگو کے شروع میں جنسیات سے متعلق بیزاری، شرمساری اور عدم دلچسپی کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن بہرحال توبہ توبہ کہتے بات ہو جاتی ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح سے تحقیق ہو سکتی ہے تاہم بنیادی بنت کا پتہ چل جاتا ہے۔ اگرچہ ان پڑھ، کم پڑھی لکھی اور دیہاتی خواتین سے سوشل میڈیا پر رابطہ ممکن نہیں تاہم آج اس بنت میں دو طرح کی خواتین آتی ہیں۔ ایک پڑھی لکھی برسر روزگار جوان بن بیاہی خواتین اور دوسری پڑھی لکھی شادی شدہ خواتین۔ پہلی صنف میں بھی دو طرح کی خواتین ہیں، ایک زیادہ مذہبی مگر جنس سے متعلق اپنی الجھن سے نکلنے کی خواہشمند، دوسری نسبتا" لبرل لیکن بر کے چناؤ سے متعلق پریشان۔
موبائل ٹیلیفون پر انٹرنیٹ کی سہولت کے سبب بیشتر جوان خواتین جنسی عمل سے متعلق (فحش) فلمیں دیکھ چکی ہیں۔ تجسس کے تحت یا تلذذ کی خاطر اس کے بارے میں پتہ نہیں کیونکہ یہ بات اگلوائے جانا مشکل ہے البتہ ایک بات ظاہر ہے کہ انہیں جنس سے متعلق آگاہی ضرور ہے، چاہے وہ فلموں کے کئی اعمال کو مناسب نہ بھی سمجھتی ہوں۔ دوسری بات یہ کہ وہ شریک حیات چننے میں اپنی مرضی کو ترجیح دینا پسند کرتی ہیں، یہ اور بات ہے کہ نچلے درمیانے یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باعث انہیں یہ حق کم ہی دیا جاتا ہے۔ اکثر لڑکیاں 25 سے نکلتی ہوئی عمر کی ہیں جس میں ایک طرف جذبات کی بجائے تعقیل جگہ پا لیتی ہے وہاں بیشتر جوان مردوں کے لیے وہ لڑکیوں کی عمر سے بڑی ہو چکی ہوتی ہیں۔ پسند نہ کیے جانے کی وجہ سے ان خواتین میں جنسی مایوسی کا پایا جانا عام ہے جس کے سبب وہ یاسیت کا شکار ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف ان میں چناؤ کے بہتر سے بہتر معیارات گھر کر لیتے ہیں، اس وجہ سے شاید ہی کوئی ایسا مل پاتا ہو جو ان معیارات پر پوری طرح نہ سہی بہت حد تک پورا اتر سکتا ہو۔
مگر سب سے زیادہ پریشان کن معاملہ پڑھی لکھی شادی شدہ خواتین کا جنس کی جانب رویہ ہے۔ بظاہر ان میں سے بیشتر خوشحال متاہل زندگی بسر کر رہی ہیں۔ بچے ہیں، شوہر ہے، گھر ہے، تعلیم ہے اور بہت سوں کا روزگار یا ذریعہ معاش بھی ہے مگر وہ جنس سے نہ صرف ناآگاہ ہیں بلکہ اسے غیر اہم خیال کرتی ہیں۔ ان کے لیے جنسی عمل ایک ان چاہا عمل ہے اور جنسی گفتگو غیر ضروری۔ اس وجہ سے بہت سی خواتین جنسی طور پر بیزار Frigid ہو چکی ہیں، جو ایک طرح کا نفسیاتی مرض ہے۔
ایسا ہونے کی بڑی وجوہ میں شوہروں کا اپنی بیویوں کو اس انسانی عمل میں ذہنی طور پر شریک نہ کرنا اور عورتوں کا مذہبی ہونے کے سبب اس انسانی عمل کو محض بچے پیدا کرنے کا "گندا" عمل سمجھنا ہے۔ شوہروں کا خیال ہوتا ہے کہ بیویوں کے ساتھ جنس سے متعلق کھل کر باتیں نہیں کرنی چاہییں کیونکہ ان سے ایسی باتیں نہیں کی جا سکتیں اور عورتوں کا خیال ہوتا ہے کہ سارے مرد ایسے ہوتے ہیں، انہیں ماسوائے اپنی جنسی تسکین کے کچھ اور نہیں سوجھتا۔
پاکستان جیسے ملک میں مردوں کو جنسی معاملات میں بہت حد تک آزادی ہوتی ہے۔ گندی گالیاں بکنے سے لے کر گندے معاملات میں ڈھکے چھپے حصہ لینے تک کی چنانچہ وہ اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ بیویوں کے پاس آتے ہیں تو چارو ناچار وظیفہ زوجیت سے عہدہ برآء ہوتے ہیں یا بیویوں کی توہین کرتے ہیں اور ان پر تشدد کرتے ہیں، جسمانی نہ سہی ذہنی سہی۔ عورت کو محبت کے عمل میں پوری طرح شریک نہ کرنے کے ذمہ دار خود ہوتے ہیں لیکن ان کی اس عمل میں عدم دلچسپی، بیزاری یا اس سے جان چھڑانے کے بہانے تراشنے کی پاداش میں انہی کو تختہ مشق بناتے ہیں۔ شوہروں کے اس نوع کے رویے سے ان کو مرد اور ان کے خیال میں مرد کی ہوس کار ضرورت سے مزید بیزاری بلکہ نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی مائیں اپنی بیٹیوں کی بھی اس ضمن میں کوئی تربیت نہیں کر سکتیں۔ انجام کار وہ بھی اپنے شوہروں کو بیزار کرنے اور ان سے بیزار ہونے کے گھن چکر میں شامل ہو جاتی ہیں۔
اگر ایسا کوئی ملک ہوتا جہاں اس بارے میں بات کرنے پر مذہبی، سماجی اور نفسیاتی قدغنیں نہ ہوتیں تو اس ذہنی نقص سے جان چھڑانے کی خاطر خواتین کو "کاؤنسلنگ" کا مشورہ دیا جا سکتا تھا۔ مشورہ دینے والا/ دینے والی انہیں محبت کے عمل کے تنوع میں شریک ہو کر حظ اٹھانے کی جانب راغب کر سکتا/ کر سکتی لیکن ایسے ماحول میں جہاں یہ ممکن نہ ہو پہلا مشورہ قانون ساز اداروں کے اراکین کو دیا جانا چاہیے کہ وہ لوگوں کی اظہار بارے آزادی سے متعلق قوانین بنائیں اور رائج کروائیں۔ پیشہ ورانہ گفتگو کو فحاشی پر مبنی بات چیت سے علیحدہ ثابت کرنے سے متعلق قانون سازی کریں تاکہ کم از کم ایسی خواتین جو اخراجات برداشت کر سکتی ہوں وہ تو ایسی کاؤنسلنگ سے استفادہ کر سکیں۔ مگر ہمارے ہاں تو ذہنی مسائل کو ذہنی امراض اور ذہنی مسائل کے حل میں مدد دینے والوں کو پاگل پن سے نجات دلانے والا سمجھا جاتا ہے اور ایسے ماہر یا ڈاکٹر کے پاس جانا موجب شرمساری۔
بچے پھر بھی پیدا ہو رہے ہیں اور بے تحاشا ہو رہے ہیں کیونکہ بچے تو کتوں بلوں اور دیگر جانوروں کے بھی ہو جاتے ہیں۔ جانوروں کے لیے تو قدرت نے مجامعت کے لیے مخصوص عرصہ رکھا ہے اور جس دوپایہ جانور کے اس
عمل میں شامل ہونے کے لیے وقت کی تحدید نہیں ہے اس کو یہ شعور نہیں کہ اس عمل کو کیونکر عبادت، استراحت اور کیف و تسکین آور بنایا جائے تاکہ یہ ایک جانب سے غصہ نکالنے یا دوسری جانب سے مظلوم بنے رہنے کا عمل ثابت نہ ہو۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“