شہر بھی اب سوچنے لگا ہو جیسے
گاؤں سوچ سوچ کر ضعیف ہوگیا۔۔۔
ہم بھی سوچتی آنکھوں کی
طرح سوچنے لگے ہیں ۔۔۔//
پر شہر کے مکین کیا سوچتے ہیں ۔۔۔؟
گاؤں کے معصوم لوگ سوچتے رہتے ہیں
کہ یہ شہر آلودگی سے پر شہر
تیرے وجود کو جھپٹ نہ لیں کسی روز
ہم شہروں میں بھی دہقان کی طرح ہی
آخر کیوں سوچتے ہیں ۔۔۔؟
ہم آخر گاؤں کے غریبوں کی طرح ہی
آخر کیوں سوچتے ہیں ۔۔۔؟
اس شہر میں سبھی اہل سیاست ہیں
یہاں کوئی دہقان کی طرح
آخر کیوں نہیں سوچتے ہیں۔۔۔؟
یوں خود سے جدا میں
اس بھرے شہر میں رہتا ہوں۔۔؟
میں شہر میں رہتا ہوں
پر دھیان میرا گاؤں میں رہتا ہے ۔۔//
لوٹ جاؤں میں یا پیچھا کروں ۔۔؟
ہر ہر قدم پر سوچتا ہ
کہ اب میں کیا کروں ۔۔۔۔؟
یہ شہر بھی اگلتا رہتا ہے اب انسانی لاشیں
قصد کروں ۔۔۔۔تو کیا اب میں گاؤں کا قصد کروں۔۔؟
چھوڑنے کو چھوڑ دوں یہ شہر مگر
شہر کو بھی تو یہ شور قیامت چاہئیے ۔۔۔؟
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...