انیسویں صدی میں ماہرین کا خیال تھا کہ زبان ہی نسل کی بنیاد ہے۔ یہ خیال اس طرح پیدا ہوا کہ آریائی یا ہند یورپی زبانوں کا خاندان ایران برصغیر، افغانستان اور یورپ میں، ہنگری، فن لینڈ، استھونیا، لیپ لینڈ، باسک اور ترکی کے علاوہ تمام زبانون کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔ اس لیے آریائی خاندان کی زبانوں کی بنیاد پر ایک آریائی نسل کی بنیاد رکھی گئی۔
وہ زبانیں جو اس خاندان میں شامل ہیں ان میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جن ملتے جلتے الفاظ تمام ہند یورپی زبانوں میں میں استعمال ہوتے۔ مثلاً گھٹنا، پاؤں، دانت، ایک سے دس کے اعداد، باپ، ماں، دختر، خواہر، بھائی، بھتیجہ، گائے، اون، زراعت اور بار برداری کے متعلق بہت چیزیں، دروازہ، درختوں کے نام، بھالو، اوٹر، پر، رات اور ستارے وغیرہ ہیں۔
ہم آریائی زبانوں بولنے والوں کی ایک ہزار ق م سے پہلے کی تاریخ کا علم نہیں رکھتے ہیں۔ ان کی زبان کے الفاظ ہی ان کی یاد گار ہیں۔ ہمارے پاس صرف یہی الفاظ ہیں جن کے ذریعہ ہم ان کے بارے میں کچھ ہی اندازے لگا سکتے ہیں اور ان الفاظ کی روشنی میں ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ چند ہزار سال پہلے ایک انسانی گروہ ایسی زبان بولتا تھا جس سے ہند یورپی کی تمام زبانیں نکلیں ہیں۔
یہ الفاظ ایک قدیم تمدن کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور یہ تمدن چرواہوں کا تھا۔ وہ لوگ اپنے جسم کے اعضا کا الگ الگ نام رکھ چکے تھے، اپنے قریبی عزیزوں کو الگ الگ ناموں سے پکارتے تھے، جھوپنڑیوں میں رہتے تھے، پالتوں جانورں کے علاوہ چند وحشی درندوں اور چند چھوٹے جانوروں مثلاً چوہوں سے ان کا واسطہ پڑچکا تھا۔
ہند یورپی یا آریائی زبان پر سب سے پہلے ایک فرانسسی ماہر لسانیات کوردوک Courdoax نے تحقیق کی اور اس کی کتاب چالیس سال کے بعد شائع ہوی۔ اس دوران 1883میں سر ولیم جونس کلکتہ ہندوستان پہنچے۔ انہوں نے ہندوستانی زبانوں کا مطالعہ شروع کیا اور سنسکرت اور دوسری یورپی زبانوں کے تعلق پر روشنی ڈالی۔ سر ولیم جونز نے ہی کلمہ آریا کو یورپی زبانوں میں مروج کیا۔ انہوں نے اس لفظ کو محض لسانی معنوں میں لیا لیکن بعد میں اسے نسل کے معنوں میں استعمال کیا جانے لگا۔
کلمہ آریا جس کے معنی معزز، عالی مرتبہ کے۔ یہ لفظ عموماً دیوتاؤں سے منسوب کیا جاتا تھا۔ یہ لفظ سنسکرت اور اوستا دونوں میں استعمال ہوا ہے اور اس بنے ہوئے کئی الفاظ جدید ہندوستانی اور ایرانی زبانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں آریا ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جو برہمنوں کے دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔ قدیم میدی اور ہخامنشی اپنے کو آریا کہتے تھے۔ ان کے قبائل میں سے ایک کا نام ہیروڈوٹس نے اری زن توس لکھا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے یہ لفظ برصغیر اور ایران بلکہ یونان میں بھی رائج تھا۔ یونانی اسے مشرق کے ایک خاص قبیلے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ خراسان اور افغانستان قدیم زمانے میں ایریانا Aryana کہلاتا تھا اور اسی سے ایران بھی مشتق ہوا ہے۔
سر ولیم جونز نے جس کام کو شروع کیا وہ بعد میں یورپ اور خصوصاً جرمنی میں جاری رہا۔ جرمنی کے محققوں کو مشرقی وسطہ خصوصاً ہندوستان اور ایران کی زبانوں اور ادبیات سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ ان میں سب سے پیش پیش فریدرش فان شلے گل تھا۔ اس نے خود سنسکرت سیکھی اور اپنے بھائی آگست ولہلم فان شلے گل کو بھی اس کا شوق دلایا۔ ۸۱۸۱ء میں آگست ولہلم فان شلے گل بون یونیورسٹی میں سنسکرت کا پروفیسر مقرر ہوا۔ وہ یورپ میں سائنس کا پہلا پروفیسر تھا۔ فریدرش فان شلے گل نے سب سے پہلے تقابلی قواعد زبان کے امکانات پر زور دیا اور اس کی کتاب Tleber die Speache und Weisheit der Inder. مقبول ہوئی۔ بہت سے محققین نے مزید تحقیق کام شروع کیا، ان میں سے راسک Rask نے خاص طور پر اس پر بحث کی زبان کو اس کے قواعد کی بنا پر جانچنا چاہیے۔ اس کے الفاظ کی بنا پر نہیں۔ راسک نے ہندوستان کا سفر بھی کی اور اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ ڈراویڈی زبانوں کا آریائی زبانوں سے الگ خاندان ہے۔
گرم Grimm نے ان اصولوں کو ترتیب دیا جس کی بنا پر صوتیاتی طور پر جرمانی زبانیں ہند یورپی زبانوں کے عام گروہ میں سے ایک علحیدہ شاخ بن گئیں۔ بولٹ بھی نے زبان اور انسانوں کے باہمی تعلق پر بحث کی اور آوازوں اور خیالات میں ایک خاص تعلق ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ زبان اور نسل کے نظریہ کی ابتدا اسی سے ہوئی ہے۔ اس کو ایک اور جرمن محقق شلائے شر نے ایک نئے نظریہ سے شروع کیا۔ شلائے شر لسانیات کو فلسفہ اور سائنس سے ملایا اور اس کا کہنا تھا کہ نسلوں کی بنیاد زبان پر ہے۔ دوسرے معیار یعنی رنگ یا سر وضع یا بالوں کی بنیاد پر نہیں۔ شلائے نے زبانوں کو تین گروہوں (!) علحیدیگی پسند زبانیں (2) چسپیدگی اختیار کرنے والی زبانیں (3) گرادان والی زبانیں انہی گروہوں کی مناسبت سے اس نے نسلوں کی تقسیم کی۔ اس نے قدیم ترین آریائی یا ہند یورپی زبان کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کی اور اس زبان میں ایک چھوٹی سی کہانی لکھی۔ اس کی مکر ترتیب پر آج بھی زبانوں کی تقابلی قواعد کا دارو مدار ہے۔
شلائے شر کے خیالات کو ایک اور ماہر لسانیات بیون سن نے فروغ دیا۔ یہ 1841ء تا 1854ء تک انگلستان میں پروشیا کا سفیر رہا۔ اس نے 1847ء میں برٹش اسوسیشن کے ایک جلسے میں زبان اور نسل اور لسانیات اور علم انسان کے باہمی تعلق پر زور دیا۔ اس وقت تک ڈاردن کی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ لیکن بیون سن نے انسان اور حیوانات کے درمیان باہمی فرق محض زبان کو قرار دیا۔ زبان ہی ایسی چیز ہے جو انسان کے سوا اور کسی جانور کو حاصل نہیں ہوسکتی یا کم از کم اب تک حاصل نہیں ہوئی۔ بیون سن انسانی گرہوں کی تقسیم زبان کے لحاظ سے کرنے کا حامی تھا۔ اس سے جو سائنس وجود میں آئی وہ لسانیاتی انسانیات کہلاتی تھی۔
نسل و زبان کی برتری
لیکن مشترکہ زبان و مشترکہ تمدن اور نسل میں بہت فرق ہے۔ اکثر حملہ آور قومیں جب کسی سرزمین پر حملہ کرتی ہیں تو فاتح یا مفتوح کی زبان میں تبدیلی آتی ہے۔ اگر بہت سی قومیں ایک زبان بولیں تو وہ ایک نسل ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے۔ لسانی اور نسلی نقطہ نظر سے اس نظریہ کی ذرا اہمیت نہیں ہے۔
زبان سے نسل کے تعلق کو سب سے زیادہ الزام فریدرش میکس ملر کو دیا جاتا ہے۔ کیون کہ اس نے ابتدا میں شلائشر اور بیون سن کے خیالات کو زیادہ ہمنوائی کی اور اس نے ایک اصطلاح آریائی کو مروج کیا تھا۔ اس کے لیے اس نے جو دلیلیں دیں وہ یہ تھیں۔
(1) ہند ایرانی شاخ تمام آریائی زبانوں سے پرانی ہے اور یہ اپنے وطن میں آریائی کہلاتی ہے۔ اس لیے اس خاندان کی زبانوں کو آریائی کہلانا چاہیے۔
(2) قدیم آریائی زبان جس خطے میں پرورش پائی وہ وسط ایشیا کا وہی حصہ ہوگا جس کو روما ایریانا کہتے تھے۔
میکس ملر نے پہلی مرتبہ آریائی کی زبانوں کی بنیاد پر آریائی نسل کا نظریہ قائم کیا تھا۔ بعد میں اس نے اپنا موقف بدل لیا اور اس کی تردید کی کوشش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ آریائی نسل یا سامی نسل سے میری مراد ان لوگوں سے تھی جو کہ آریائی یا سامی زبانیں بولتے ہیں۔ اس نے 1853ء میں بیون سن کو تورانی زبانیں کے عنوان سے ایک خط لکھا۔ اس میں اس نے لکھا تھا لسانی تحقیق اور انسانیات کی تحقیق کو ایک دوسرے سے جدا کر دینا چاہیے۔ کسی کھوپڑی کو آریائی قرار دینا ایسا ہی وحشت ناک ہے کہ جیسے کہ کسی ڈے لی کوسی فالک (لمبے اور پتلے سروں والی) زبان کا تذکرہ۔ جہاں تک ہمیں قدیم آریائی، سامی اور تورانی زبانوں کا علم ہے اور ہمیں یہی معلوم ہوا ہے بیرونی الفاظ سب ہی مستعار لیے گئے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ زبانیں بولنے والے آبا و اجداد ایک دوسرے کے قریبی ہمسائے تھے تو کیا ان میں امن کے زمانے میں شادیاں نہیں ہوئی ہوں گیں اور کیا جنگ کے زمانے میں وہ مردوں کو مار کر عورتوں پکڑ کر نہ لے جاتے ہوں گے؟ لسانیات کے طالب علم جب آریاؤں کا ذکر کرتے ہیں تو ان کا مطلب ان لوگوں سے ہوتا ہے جو کہ آریائی زبانیں بولتے ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آریا وہ لوگ ہیں جو آریائی زبانیں بولتے ہیں۔ چاہے ان کا رنگ و خون کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ ان کو آریا کہنے سے ہمارا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ان کی زبان کی گرامر آریائی ہے۔ مقدس قانونی کتابوں سے ہمیں دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ محض یہ امر ان میں مختلف نسلوں کے لوگون کو دیکھا جاتا ہے کہ انسانی فطرت ان احکامات سے ذیادہ زبردست ہے۔ قانون مین ممانعت ہو یا اجازت ہے لیکن باہمی شادیاں اور بیاہ ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں۔
میکس ملر کی تردید کے باوجود آریائی نسل کے نام پر انیسویں صدی میں یورپ میں نسلی امتیاز کے لیے ایک اچھا ہتھیار ہاتھ لگ گیا تھا اور فرانس کے گوبی نو Gobinean اور جرمنی کوزی نا Kossinna آریائی نسل کے نظریہ کو بڑھایا۔ یہاں تک انگلینڈ بعض ادیبوں مثلاً کار لائل اور چارلس کنگسلے نے بھی اپنے مضامین مین آریائی نسل کا ذکر کیا۔ اس طرح ایس جی ویلز نے اپنے تاریخ عالم میں آریائی زبان بولنے والوں کو آریائی نسل قرار دیا۔
علم انسانیات کے ایک ماہر ہوریشیوہیل اس بنا پر کہ ڈراویڈی زبانوں اور آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے قوائد میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں اور اس کے علاوہ اور دوسری بنیادوں پر ڈراویڈی اور آسٹریلیا کے قدیم باشندوں میں نسلی تعلق ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس کا دارومدار زبان پر تھا۔
انیسویں صدی میں یورپ کی ملک گیری اور شہنشاہی نے بہت زرایع اختیار کئے۔ ان میں ایک نسل کا کا نظریہ بھی تھا۔ جس کے مطابق بعض نسلیں طبعاً پست اور ادنی درجہ کی ہوتی ہیں اور اعلیٰ نسلوں کا فرض ہے کہ انہیں تعلیم دی جائے۔ اس نظریہ کے مطابق نسل کی بنیاد کبھی رنگ پر رکھی گئی اور کبھی زبان پر۔ اس طرح آریائی نسل کے نظریہ کو مقبولیت حاصل ہوئی۔
بعض نسلوں کی طبعی اور فطری فرستی کا نظریہ سب سے پہلے ایک فرانسیسی امیر ژوزف گوبی نو نے پیش کیا۔ اس نے اپنی کتاب انسانی نسلوں کی عدم مساوات جو 1855ء میں شائع ہوئی۔ اس میں آریائی نسلوں کی برتری کا دعویٰ کیا گیا۔ ایک اور فرانسیسی لاپوز نے اپنی کتاب لارین Laryen میں آریائی اور نارڈک نسلوں کو ایک ہی ثابت کرنے کی کوشش کی۔
جرمنی میں مشرقی پروشیا کے گستاف کوزی نا نے نسل کے تصور اور قدیم جرمنی کے آثار قدیمہ میں تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کوزی نا کے مطابق ناڈرک یا جرمانی یا آرین ہم معنیٰ ہیں اور جرمنوں کے علاوہ اہل اسکنڈی نیویا بھی آریائی یا نارڈک نسل کہلانے کے مستحق ہیں۔ یوں آریانی نسل کا نظریہ نارڈک نسل میں ضم ہوتا گیا۔ اس آریائی نسل کے نظریہ نے سفید نسل کے نظریہ کو جنم لیا کہ یہ سفید نسل دوسری نسلوں سے برتر اور اعلیٰ ہے۔
تہذیب و ترتیب
(عبدالمعین انصاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...