نسلِ انسانی کا اگلا پڑاؤ
(حصہ سوم)
پچھلی اقساط کے بعد اب ہم یہ باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کیسے مریخ پر پانی کے وسیع ذخائر کی موجودگی کے واضح شواہد مل چکے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ زندگی کی کوئی قسم مریخ کی سطح کے نیچے بھی موجود ہوکیونکہ جدید تحقیق ہمیں یہ بھی بتاتی ہےکہ مریخ پر وہ عناصر موجود ہیں جو زندگی کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں۔ چونکہ انسان فطرتاً متجسس ہے،نئے جہانوں کو کھوجنے کا عادی ہے،لہٰذا یہ ممکن نہیں تھا کہ اتنا سب جان لینے کے بعد بھی انسان زمین پر پُرسکون ہوکر ٹِکا رہتا۔یہی وجہ ہے کہ اپنی پیاس بھُجانے کی خاطر حضرتِ انسان نے مریخ پر ڈیرے ڈالنے کا فیصلہ کیا، یہ فیصلہ جہاں ایک گروہ کے مطابق خودکشی کے مترادف ہے تو وہیں دوسرا گروہ کائناتی اندھیرے میں امید کی کرن کے طور پہ اس opportunity کو دیکھتا ہے۔ مریخ پر انسانوں کی آبادکاری کے منصوبوں کی بازگشت کئی دہائیوں سے سنائی دے رہی ہے لیکن اس خواب کے شرمندہ تعبیر نہ ہوپانے کی ایک بڑی وجہ اس مشن کا مہنگا ہوناہے، اب تک کے حساب کتاب کے مطابق انسان کو مریخ پر پہنچانے کے لئے 500 ارب ڈالرز کا خرچہ آئے گا(رواں سال پاکستان کا کُل بجٹ تقریباً 400 ارب ڈالر ہے)، یاد رہے یہ انسان کو صرف مریخ پر پہنچانے کی قیمت ہے، آبادکاری اور مریخ کے باسیوں کی مکمل دیکھ بھال کے لئے ہمیں مزید فنڈز درکارہونگے، اسی خاطر آج سے 50 سال پہلے چاند پر قدم رکھ لینے کے بعد امریکی حکومت نے ناسا کے فنڈز معطل کردئیے تھے کیونکہ اُس وقت چاند پر مشن بھیجنا امریکا کو کچھ اِتناہی مہنگا پڑا تھا۔تمام تر مشکلات کو جاننے کے باوجوداس کٹھن منزل کی جانب ٹھوس قدم Space-X نامی پرائیوٹ کمپنی نے اُٹھائےاوراعلان کیا کہ 2024ء تک انسان کو مریخ پر پہنچا دیا جائے گا لیکن اس سے قبل 2022ء تک کچھ ربورٹس کو مختلف مشنز کے ذریعے مریخ کی سطح پر اتارا جائے گا جو وہاں پرمستقبل میں آنے والے انسانوں کے لئے بیس کیمپس (گھر)تعمیر کریں گے۔2015ء میں ناسا نےاعلان کیا کہ 2030ء تک انسان کو مریخ پر پہنچا دیا جائے گا، اس ضمن میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2020ء میں چندربورٹس کو مریخ کی جانب بھیج کر بیس کیمپس تعمیر کرلیے جائیں گے۔اسپیس ایکس اور ناسا کے دیکھا دیکھی چین نے 2040ء سے 2060ء تک انسانوں کو مریخ پر آباد کرنےکا اعلان کیا جبکہ روس نے 2040ء سے 2045ء تک انسان کو مریخ پر بھیجنے کا ٹارگٹ سیٹ کیا۔شروع میں سائنسدان مریخ کی جانب سفر کو آسان سمجھتے رہے لیکن اب ہمیں احساس ہوچکا ہےکہ یہ سفر نہ صرف انتہائی مشکل ہوگا بلکہ مریخ کی شدید کشش ثقل کے باعث one-sided بھی ہوگا کیونکہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ کسی کو مریخ پر پہنچا کر واپس لاسکیں، اگر ایسا کرنا ہے تو ہمیں راکٹ میں اضافی ایندھن بھی شامل کرنا ہوگا جس سے راکٹ کا بوجھ بہت زیادہ بڑھ جائے گا،سو فی الحال ہمیں ون سائیڈڈ مشنزپر ہی ساری توجہ رکھنی پڑے گی۔موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مطابقت (سائز، کشش ثقل) کے لحاظ سے سیارہ زہرہ بالکل ہماری زمین جیسا ہے اورقریب ترین بھی ہے ،زمین سے ہجرت کرکے کہیں اور آباد ہونے کےلئے سیارہ زہرہ ہماری بہترین چوائس ہوسکتا تھا مگر چونکہ وہ سورج کے انتہائی قریب ہے جس وجہ سے ہر وقت سینکڑوں ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت رہتا ہے ، لہٰذا وہاں انسانوں کا بس پانا ممکن نہیں تھا،سو کائنات میں معدوم ہوتی اس مخلوق کو اپنی بقا کی جنگ کے لئے دوبارہ مریخ کا ہی رُخ کرنا پڑا،ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مریخ پر جہاں زندگی گزارنے کی امید اور ضروری عناصر موجود ہیں وہیں کئی مشکلات بھی ہمارے استقبال کو تیار کھڑی ہونگی، یقیناً مریخ پر آبادکاری پھُولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ثابت ہوگی۔مریخ کی ہم سے دوری کا اندازہ ایسے لگایا جاسکتا ہےکہ اگر جدید ٹیکنالوجی سے لیس کوئی انسانی مشن چاند کی جانب روانہ ہوتو اسے تقریباً 2 دن لگیں گے مگر اگر وہی مشن مریخ کی جانب روانہ ہوگاتو اسےوہاں پہنچنے کےلئے تقریباً 9 ماہ کا عرصہ درکار ہوگا، اسی طرح مریخ سے اگر کوئی شخص کو آپ کو بذریعہ انٹرنیٹ ویڈیو کال پر "السلام علیکم"بولتا ہے تو تقریباً 23 منٹ بعد آپ تک یہ پیغام پہنچے گا اور آپ اس کے جواب میں جب "وعلیکم السلام" بولیں گے تو آپ کا جواب بھی اس تک تقریباً 23 منٹ بعد پہنچے گا، یعنی صرف علیک سلیک ہی 46 منٹ طویل ہوگی، کیسا غضبناک اکیلاپن ہوگا کہ مریخ پر رہتے ہوئے اگر آپ بیمار ہو کر ایمرجنسی situation میں پہنچ جاتے ہیں تو زمین کے باسیوں کو آپ تک "فرسٹ ایڈ" پہنچانے کے لئے 9 ماہ لگ جائیں گے، اگر فرسٹ ایڈ سے کام نہ چلے اور ڈاکٹر "اچھے ہسپتال" میں داخل ہونے کا مشورہ لکھ دے تو آپ کو زمین پر واپس لانے کے لئے مزید 9 ماہ لگ جائیں گے، یعنی یہ "ایمرجنسی سروس" 18 ماہ طویل ہوگی! اسی خاطر مریخ کی آبادکاری کے منصوبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کی ٹیم کے شامل ہونے کا بھی مشورہ دیا جاتا ہے، اِن highly qualified doctors کو اگر ایمرجنسی کے دوران زمینی ڈاکٹرز سے کوئی مشورہ طلب کرنا پڑا تو ہر سوال کے جواب کےلئے46 منٹ کا طویل انتظار کرنا پڑے گا۔ اب جب ہم مریخ پر ہجرت کرنا چاہ ہی رہے ہیں تو یہ "ناز نخرے "بہرحال ہمیں اٹھانے پڑیں گے کیونکہ کائناتی اصولوں کے تحت کوئی بھی چیز روشنی سے زیادہ رفتار حاصل نہیں کرسکتی اور یہ 46 منٹ کی communication روشنی کی رفتار سے ہی ہوگی، ایسے ایمرجنسی حالات سے نپٹنے کے لئے ہی یہ تجویز بھی سامنے لائی گئی کہ مریخ کے دونوں چاندوں پر بھی بیس کیمپس قائم کیے جائیں تاکہ کسی ہنگامی حالت میں ان دونوں چاندوں پر موجود انسان فوری طور پر مریخ کے باسیوں کی مدد کےلئے پہنچ جائیں کیونکہ مریخ پر آوارہ پتھروں کے گرنے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے کسی وقت کہیں بھی ایمرجنسی نافذ ہوسکتی ہے۔اگر ہم مریخ اور زمین کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ زمین پر ایک دن 24 گھنٹے کا ہوتا ہے جبکہ مریخ پہ ایک دن 24 گھنٹے اور 39 منٹ پرمشتمل ہوتا ہے، اس کا فائدہ ہمیں یہ حاصل ہوگا کہ طبعی طور پر سونے ، اٹھنے اور کام کرنے کے لحاظ سے انسانوں پرمریخ کے شب و روز کوئی خاص اثر نہیں ڈالیں گے، کیونکہ انسان ایسی جگہ پر بآسانی adjustکرسکتا ہے جہاں دن کا دورانیہ23سے25گھنٹے کاہو۔مریخ پر نائیٹروجن، ہائیڈروجن، آکسیجن ، فاسفورس اور کاربن جیسے بیش قیمت عناصر موجود ہیں جو زندگی کےلئے بہت اہم ہیں، انسان جب بھی مریخ پر پڑاؤ ڈالے گا تو یہ عناصر وہاں بطور تحفہ قدرت کی جانب سے پہلے سے موجود ہونگے ۔ہمیں معلوم ہے کہ سائنسدان جب بھی کسی سیارے کو دریافت کرتے ہیں تو اس کی خصوصیات اور ستارے سے دُوری کودیکھتے ہوئے معلوم کرتے ہیں کہ یہ کس علاقے(zone) میں موجودہے، اگر یہ اپنے ستارے سے بہت دُوریا بہت قریب موجود ہوتو یہ ڈیکلئیر کردیا جاتا ہے کہ یہ سیارہ habitable zoneمیں واقع نہیں سو یہاں پر زندگی پھل پھُول نہیں سکتی،ایسا علاقہ جہاں زندگی بآسانی نشونما پاسکے اسےہم Goldilocks zone کہتے ہیں، ہمارے نظام شمسی میں 2 ہی سیارے اس زون میں واقع ہیں، ایک زمین اور دوسرامریخ، زمین تو بالکل عین Goldilocks Zoneمیں واقع ہے، جبکہ مریخ اس کےکنارے پر واقع ہے جس کا مطلب ہے کہ مشکلات میں سہی مگر زندگی یہاں بھی پنپ سکتی ہے،یہی وجہ تھی کہ زمین سے باہر آبادکاری کے لئے مریخ ہماری اولین ترجیح بن گئی۔آج بھی مریخ پر اس حد تک پانی موجود ہے کہ اگر تمام پانی کو پگھلا کر مائع حالت میں لے آیا جائے تو مریخ پر پانی کی 30 فٹ اونچی تہہ بن سکتی ہے،چونکہ مریخ پر آکسیجن موجود نہیں لہٰذا مریخی انسان وہاں موجود پانی سے آکسیجن کو الگ کرکے استعمال کرسکیں گے۔مریخ کا سائز ہماری زمین کے مقابلے میں 28فیصد ہے، ہم جانتے ہیں زمین پر 71فیصد حصہ پانی نے جبکہ 29فیصد حصہ خشکی نے coverکیا ہواہے جس کا مطلب ہے کہ ہم جب مریخ پر جاکر رہیں گے تو ہمیں چہل قدمی کرنے کے لئے زمین جتنا وسیع خشک خطہ ہی میسر ہوگا لہٰذا مریخ پر پہنچنے والے انسانوں کے لئے مریخ زمین جتنا ہی ہوگا۔ایک اور خاصیت جو مریخ کو زمین سے مشابہہ بناتی ہے وہ اس کا اپنے محور پر 25 ڈگری تک جھُکا ہوناہے ،ہماری زمین اپنے محور پر 23.5 ڈگری تک جھُکی ہوئی ہے،کسی بھی سیارے پر موسم اُس سیارے کے جھکاؤ کے باعث ہی بنتے ہیں،جس کا مطلب ہے کہ زمین اور مریخ کے موسموں میں کافی حد تک مطابقت موجود ہے ،جیسے یہاں پر گرمی اور سردی کے موسم آتے جاتے رہتے ہیں ویسے مریخ کے باسیوں کے لئے بھی گرمی اور سردی اپنے رنگ دِکھاتی رہے گی مگر چونکہ مریخ زمین کی نسبت سورج سےزیادہ دور ہے جس وجہ سے وہاں ان موسموں کی durationدُگنی ہوگی یعنی اگر زمین پر گرمی 6 ماہ رہتی ہے تو مریخ پر ایک سال تک گرمی اور ایک سال تک سردی رہے گی۔جیسے زمین کے شمالی قطب پہUrsa Minorنامی ستاروں کا جھرمٹ موجود ہے ، ویسے ہی مریخ کے شمالی قطب پر Cygnusنامی ستاروں کا جھرمٹ موجود ہے جو ہمیں وہاں پر سمت معلوم کرنے میں مدد فراہم کرتا رہے گا، زمین اور مریخ میں جہاں پر یہ یکسانیت ہمارا حوصلہ بڑھاتی ہیں، وہیں پر یہ بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ مریخ ایک بےرحم اور پُرخطر سرزمین ہے۔مریخ مطابقت سے زیادہ خطرات اپنے اندر سموئے بیٹھا ہے۔یہ سچ ہے کہ انسان اس حد تک ذہین ہے کہ مریخ جیسے کسی بھی سیارے کو اپنے ماحول میں ڈھال سکتا ہےمگرمریخ پرآبادکاری کے دوران مسائل اور خطرات کو نظرانداز کرنا نسل انسانی کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے،لہٰذا مریخ پر ہمیں قدم پھُونک پھُونک کر رکھنے پڑیں گے، ہر لمحہ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ہم زمین سے کوسوں دور ہیں، کروڑوں کلومیٹر دور، اگر ہمیں کچھ ہوگیا تو زمین کے باسیوں کو 45 منٹ تک تو کانوں کان خبر بھی نہ ہوپائے گی ۔مریخ سے دوستی کرکے اِسے اپنا بنانے کے سفر میں کیا خطرات آسکتے ہیں اور ان کے ممکنہ حل کیا سوچے گئے ہیں،اگلےحصے میں اس پر ایک گہری نگاہ ڈالیں گے۔
(جاری ہے!)
زیب نامہ
اس سیریز کا حصہ دوم پڑھنے کے لئے اس لنک پر کلک کیجئے:
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“