اسٹائک فلاسفر ایپکٹیٹس کہتا ہے “کیا آپ فطری طور پر ایک ‘اچھے والد’ کے حقدار ہیں؟ نہیں، صرف ‘والد’ کے حقدار ہیں۔”
آجکل ایک ٹرینڈ بن چکا ہے والدین کو لعن طعن کرنے کا(کبھی میں بھی اسی ٹرینڈ کا حصہ تھی)۔ ہم جانتے ہیں کہ اکثر والدین کا ابیوز، انکا رویہ ہمیں کافی حد تک نقصان پہنچاتا ہے، اس بات سے انکار نہیں۔ کبھی کبھار والدین کی لاپرواہی یا انکے محدود نظریات ہمیں اپنا بیسٹ ورژن بننے سے روکتے ہیں۔ بچپن میں سہے جانے والے رویے اور ٹروما ہمارے ریلیشن شپز کی تباہی اور لت (addictions )کے ذمہ دار بنتے ہیں۔ ٹروما اور ابیوز کی کسی طرح بھی وکالت نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اپنا سارا وقت اور انرجی لعن طعن پر ضائع کرنا کوئی نتائج برآمد کرتا ہے؟ اور لعن طعن کیوں؟ کیا ہمارے والدین جان کر ایسا کرتے ہیں؟ اور کیا اپنی پختہ عادتوں اور نظریات کو بدلنا آسان کام ہے؟ اور کیا ہم دوسروں سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے اپنے نظریات بدل دیں؟
ہمارا معاشرہ trans-generational trauma کا شکار ہے، یہ رویے نسل در نسل منتقل ہوئے ہیں۔ ان دنوں کسی ایک بچی کی شادی اور اسکے والدین کا اس شادی کی جانب رویے پر کئی تجزیے ہورہے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جس نے میری طرح پیرنٹنگ پر چار مغربی بیسٹ سیلر کتابیں پڑھ کر ماں باپ کو قصوار ٹھہرانے کا ذمہ لیا ہوا ہے، تو دوسری جانب ایک طبقہ جو ‘ماں باپ کے قدموں تلے جنت ہے’ والے قول کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ابیوز کو بھی پیار کا نام دیتے ہیں اور اس بچی کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ان دو نظریات والوں سے بحث کرنا وقت کا زیاں ہے، اس سب میں ایک تیسرا نظریہ بھی موجود ہے اور وہ ہے :
“اس نسل در نسل منتقل ہونے والے زخموں کو بھرنے(heal) کا۔”
اس والے نظریے میں آپ کو کسی کو لعن طعن کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بس آپ نے ‘اپنی حرکتوں’ پر غور کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے والدین نے اپنی استطاعت، نالج اور انکی جو بھی محدود سوچ ہے اس کے مطابق ہمارے لیے بہتر سے بہترین کیا ہے، آپ ٹروما سے گزرے کیونکہ آپکی والدہ/والد اسکا شکار رہے، وہ آپ کو یہی دے سکتے تھے اور یہی انکی بیسٹ ٹریٹمنٹ تھی۔ اس بات کو ‘قبول’ (accept) کرنے کے بعد آپ اپنے والدین کی جانب ہمدردی (compassion) کا اظہار کریں گے۔ اور پھر اپنے ٹروما سے ملے زخموں کو بھرنے میں لگ جائیں گے۔ اب آپ نے اپنی ہیلنگ (healing) کی ‘ذمہ داری’ خود لینی ہے۔ آپ نے وہ رویے اپنانے کی پریکٹس کرنا ہے جو آپ کے بچوں میں اس نسل در نسل چل رہے ٹروما اور ابیوز کو منتقل ہونے سے روکیں……… اور یہی سب سے مشکل کام ہے۔
مثال کے طور پر: میرے ایک جاننے والے صاحب کے والد بہت لاپرواہ انسان تھے، بچپن میں ان صاحب کے ذہن میں سوالات تھے لیکن انہیں کبھی والدین جواب نہیں دیتے بلکہ یہ بول کر چپ کرا دیتے کہ ‘دماغ نہیں کھاؤ’۔ ان صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ جس طرح میرا ذہن مجھے جواب نہ ملنے کی وجہ سے بے چین رہا اور گروتھ نہیں کرسکا میں ایسا اپنے بچوں کے ساتھ نہیں ہونے دونگا۔ اور ان صاحب نے کبھی اپنے والدین کو لعن طعن نہیں کیا، بس والدین کی غلطی کی نشاندہی کی اور اس غلطی کو اگلی نسل کے ساتھ نہ دہرانے کا عظم کیا۔ میں ان صاحب کی عملی زندگی میں ان کے انتہائی annoying بچے کے سوالوں کا تحمل سے جواب دیتے دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اصل پیرنٹنگ یہی ہے……….کیونکہ یہ آسان کام ہرگز نہیں۔ (اور وہ اس عمل پر وڈیوز بنا کر فیس بک پر نہیں ڈالتے، کیونکہ جب آپ کی توجہ کا مرکز وڈیو بنانا ہو تو آپ ان لمحات کو اپنے بچے کے ساتھ جی ہی نہیں سکتے…..بیشک انسان بہت گہری (deep) مخلوق ہے)۔
اچھی پیرنٹنگ کے لیے سب سے ضروری شرط ہے اپنے بچپن کے جذباتی زخموں (emotional wounds) کو بھرنا، خود کو جاننا۔ زخمی انسان کبھی بھی معاشرے میں بہتر طور پر کردار ادا نہیں کرسکتا، چاہے وہ کردار دوست کا ہو، ہمسفر کا، والد/والدہ ہونے کا، ایک ذمہ دار ملازم ہونے کا، یا کوئی بھی کردار ہو، اولین شرط ‘ہیلنگ’ (healing) ہے۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...