(جشن بنات یوم تاسیس کے موقعے پر ادے پور میں بنات تنظیم کی کئی رکن ہندوستان کے مختلف صوبے سے جمع ہوئیں۔ ڈاکٹر ثروت خان نے ادے پور کی بنات کی دیگررکن کے ساتھ اپنی ساری طاقت ، محبت اور خلوص لگا کر اس پروگرام کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ۔اس موقعے پر ہم سب شرکا کے احساسات ایک جیسے تھے ۔ اپنے کلیدی خطبے میں بہت سی باتوں کے ساتھ عذرا نقوی نے کہا کہ اس تنظیم کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم فیمینزم کی کسی تحریک کے زیر اثر کام کر رہے ہیں۔ تو اپنے صدارتی خطبے میں نگار عظیم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم مرد اور عورتوں کے درمیان کوئ دیوار نہیں اٹھا رہے ہیں ۔ اور یہاں تک ان کی مدد سے ہی پہنچے ہیں۔ میں نے بھی اس تنظیم کے یوم تاسیس کے موقعے پر جو کچھ کہا وہ ان سے الگ نہیں تھا ۔ اپنی وہ تحریر یہاں شئر کر رہی ہوں ۔ تاکہ ہمارے خیالات ان تک بھی پہنچیں جو وہاں نہیں تھے۔)
’’مجھے اپنی فکر میں آزاد رہنے دو‘‘
گھر کی چہار دیواری میں مقید
میں عادی ہو گئی تھی
حفاظتی حصار کی
پھر اچانک
گھر کی دہلیزسےکھینچ کر
تم نے۔۔۔
مجھے
فیمینزم کے فریم میں
جڑ دیا !
مجھے اس چوکھٹ اور فریم سے
آزاد رہنے دو
کہ میں ۔۔۔
صرف ایک عورت نہیں
انسان بھی ہوں!
مگر تم مجھے
صرف ایک عورت سمجھتے ہو
اور
اس عورت کے وجود سے
اس قدر خوفزدہ
کہ
اسے کسی چوکھٹ اور فریم کے باہر
نہیں دیکھ سکتے۔
کسی بھی ادبی تنظیم کے اغراض ومقاصد اس ادبی تنظیم کی تعمیروترقی میں ،ہمیشہ بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور اپنے مقاصد کو پیش نظررکھتے ہوئے کام کرنا کسی بھی ادارے یا تنظیم کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے چنانچہ آج بنات ادبی تنظیم نے اپنے اکابرسے مشاورت کے ساتھ اپنے اغراض ومقاصد کو حاصل کرنے میں بڑی سبک روی سے کامیابی حاصل کی ہے۔ اور آج یوم تاسیس کے اس حسین موقعے پر میں سب سے پہلے ادے پور کے باسیوں اور اپنی پیاری میزبان ساتھیوں کی محنت پر تہ دل سے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے۔ انہیں اس خوبصورت محفل کو برپا کرنے کی مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی بنات کی منتظم کار بہنوں اور اس تنظیم کی ہر رکن کو بھی اس کامیابی پر مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
اب بات کرتے ہیں کہ ۔۔ اس ترقی یافتہ دور میں جب ہم یعنی عورتیں اتنی پابندیوں کے شکار نہیں پھر بھی اس تنظیم کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔ جیسا کہ اکثریت مانتی ہےکہ تخلیقی تجربے کے دوران تخلیق کار اپنی صنفی یا جنسی حیثیت سے بالاتر ہو جاتا اور یہ سچ ہے کہ تخلیق کار اپنی ذات کی گہرائی میں خود کو محض مرد یا عورت نہیں بلکہ اس سے کچھ زیادہ سمجھتا ہے۔ اس لئے مرد اور عورت دونوں کے شعورِ ذات کا معاملہ محض سماجی تشکیل نہیں رہتا بلکہ اس میں کچھ دیگر عوامل بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ایک سچا تخلیق کار ، اور کچھ بھی ہونے سے پہلے ایک سچا انسان ہوتا ہے ۔اس کی سماجی فکر، اس کا ادراک ذات، اس کی علمی دسترس کے ساتھ اس کے معاشرتی حالات اس انسان کی شخصیت اور اس کی تخلیق کی تشکیل میں باہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس لئے مرد اور عورت دونوں میں اچھے برے انسان یا اچھے برے تخلیق کار مل جاتے ہیں۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب شناخت کی بات آتی ہے۔اس وقت شخصیت ہو یا فن صنفی امتیاز در آتا ہے۔
ہماری تنظیم کسی تحریک اور کسی نظرئے کے تحت وجود میں نہیں آئی۔لیکن اس سچائی سے مفر ممکن نہین جو کہ ۔۔۔
فیمینسٹ تحریک کا ماننا ہے۔۔ کہ ادب مردانہ سماج کی نمائندگی کرتا ہے اور خواتین کے تعلق سے افسانوی تصورات پھیلاتا ہے اور خواتین کی اسٹریو ٹائپ منفی شبیہ پیش کرتا ہے جبکہ مردو ں کی طاقت،دبدبہ اور اختیار کو مستحکم کرتاہے۔ پدرسری معاشرے کی اس منفی رویے کے خلاف احتجاج کے طور پر بعض فیمینسٹ نقاد نے ایک نظریاتی ڈسکورس شروع کیا جس کے تحت خواتین اور کمزورکے استحصال کو
مو ضوع سخن بنایا گیا۔ اور ادب میں عورت کی پیش کش کا تانیثی زاویہ نگاہ سے جائزہ لیا جانے لگا۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں نیو فارملزم، پوسٹ کلونیلزم اور اور ادراکی ( Cognative) ) تھیوری نے تا نیثیت کے عمومی اور ایکوفیمینزم کے خصوصی مطالعہ کی راہ ہموار کر دی اور اس میں مزید وسعت پیدا کی۔ ایکوفیمنسٹ نقادوں نے پدرسری معاشرے کی برتری ( hegemony ) کو چیلنج کیا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں۔
’’ ان پورے چالیس برسوں میں خواتین کی Sensibility نے جو بڑی عمدہ مثالیں قائم کیں خواہ وہ فکشن ہو یا شاعری۔ لیکن انہیں ہم نے اپنی پوری انسانیت کا حصہ نہیں بنایا۔ وہ ابھی بھی حاشیہ میں کھڑی ہیں۔ عورت اب بھی بری طرح سماجی استبداد اور بے انصافیوں کا شکار ہے۔ جس طرح اور دوسرے دبے کچلے ہوئے طبقات ہیں، ان میں سے ایک عورت بھی ہے۔ سماج میں صدیوں کی تاریخ میں پورے کرہ ارض بشمول ہندوستان اور پاکستان کے معاشروں نے Phallocentric تہذیبوں کے زیر اثر تمام رویوں ، فلسفوں ، ادب اور فنون لطیفہ میں جو مرد کی سوچ نے قائم کئے ہیں کہیں نہ کہیں عورت اس کا شکار ہے۔‘‘
ادب میں خواتین کی ایک ہی قسم کی اسٹریو ٹائپ شبیہ تسلسل کے ساتھ پیش ہوتی ہے جو کہ قابل اعتراض ہے کیوں کہ خاتون کی یہ شبیہہ قاری پر منفی اثر ڈالتی ہے اور اس سے صنف کی تشکیل نشو نما پاتی ہے ،اس تانیثی نظریہ نے فیمنسٹ تنقیدی نظریات اور ادب کے مطالعے پر بہت گہرا اثر ڈالاہے۔اس نظریہ کے مطابق ادب میں مردانہ بصری تلذذ اس وقت ہوتا ہے جب ادبی اظہار خواتین کے جسم پر مرکوز ہوتاہے۔ اس پدرسری یا مردانہ کنٹرول والی پیشکش کو اکثر افسانوی ادب میں دیکھا جاسکتاہے۔۔ چونکہ پدرسری معاشرے کی سرمایہ دارانہ معیشت کی بنیاد مسابقت کے جذبے پر ہوتی ہے۔ لہٰذا مسابقت میں کامیابی اْسی انسان، گروہ یا قوم کا مقدر ٹھہرتی ہے جو طاقت کے بل بوتے پر اپنے مقابل کو کچل کر رکھ دے کیونکہ انسانی جبلت ہے کہ انسان اپنے زندہ رہنے کیلئے جہد للبقا یعنی struggle for existence کا متقاضی ہوتا ہے.
اس لئے خواتین قلم کاروں کی ایک بڑی تعداد نسائیت کے موضوع میں گہری دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔ نسائی شعور کے مسئلے سے ان کی دلچسپی کے محرکات و عوامل بالکل واضح ہیں۔ یہ موضوع ان کی اپنی ذات اور اس سے جڑے ہوئے کئی شخصی اور معاشرتی مسائل سے وابستہ ہے اور انھیں اپنے تشخص کے تعین اور اپنے معاشرتی وقار میں اضافے یا کم از کم اس کے اثبات کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ بعض اوقات تو ایک نوع کے کتھارسس کا فریضہ بھی سرانجام دیتا ہے۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ نسائی شعور ، بیانیے کی جرات اظہار ، احتجاجی لب ولہجہ اور تلخی یا بغاوت کا آہنگ ہے۔ گویا نسائیت کے تمام مباحث میں نسائی شعور کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے لیکن کثرت استعمال کے باوجود اس اصطلاح کے واضح معنی کا تعین کرنے کی کوشش کم ہی کی گئی ہے۔گو یہ ایک حقیقت ہے کہ ثنائی اختلاف Binary opposition کے ذریعے ہی شناخت کا عمل مکمل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے عورت کا نسائی شعور بھی مردانہ شعور کے بالمقابل رکھ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب ہم کسی مقابل وجود کے حوالے سے اپنی ذات کا تعین کرتے ہیں تو گویا اپنے لیے پہلے ہی ایک حد بندی، ایک محدودیت کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ ہم صرف انھی خصوصیات کو اجاگر کرتے ہیں جو اس مجادلے میں سامنے والے وجود کے حوالے سے ضروری سمجھتے ہیں۔ خواہ معاملہ مساوی مقام حاصل کرنے کا ہو یا فضیلت کا دعویٰ کرنے کا، دونوں صورتوں میں بنیادی حوالہ وہی رہتا ہے۔یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اردو معاشرہ مغربی معاشروں سے مختلف ہے اور اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ اس اردو معاشرے کی حرکیات بھی دیگر معاشروں سے خاصی مختلف رہی ہیں۔ لہذا اس نسائی ادبی فورم میں اس بات پر خصوصی توجہ رہی ہے کہ ہم اردومعاشرے ،میں اپنی شخصیت کے وقار کے ساتھ اپنی موجودگی درج کرائیں۔ اور ہر غلط انداز نظر ، سوچ اور رویے کو رد کریں ۔ گویا اپنے پیروں پر آپ کھڑے ہونے کی ایک ادنی سی خواہش ہے یہ ۔ بہر کیف علمی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اردو خواتین قلم کاروں کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں قدم جمانے اور اپنی شناخت حاصل کرنے کے مواقع نسبتاً زیادہ ہیں۔ ۔
نسائیت کو خود اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں دیکھا جائے، اور اپنے ہی سماجی و معاشرتی تناظر میں نسائیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تاکہ اپنی کم علمی کا ادراک و اعتراف کیا جا سکے۔