۱۔ میرے پاس یہاں آسٹریلیا میں بہت زیادہ تو نہیں البتہ کچھ اردو /انگریزی لغات موجود ہیں اور وہ کم از کم ایک عشرے سے زیادہ پرانی ہیں۔ ان لغات میں نسائت اور تانیثیت کا فرق وضاحت سے سامنے نہیں آتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لغات سماجی/علمی/ فکری ترقیات کے قدم بقدم چلتی ہیں؟ تو جواب اس کا نہیں میں ہیں، بالخصوص اردو کے حوالے سے۔ اردو لغات تو دور کی بات اردو کے علمی ادبی حلقے آج کے تیز رفتار انٹر نیٹ معلومات کے دور بھی ابھی تک نسائی اور تانیثی آوازوں کے مابین فرق پر پوری طرح واضح نہیں ہیں۔ اور یہ بات میں فیس بک پر مختلف پوسٹوں اور مباحث کے دوران دیکھ چکی ہوں۔ بہت سے صاحبِ کتاب، پی ایچ ڈی خواتین وحضرات بھی نسائی ادب Women Literature اور تانیثی ادب Feminist Literature کے باہمی فرق کے بارے میں چونکہ حساس نہیں ہیں اس لیے مغالطے کا شکار ہیں۔ اور نسائیت و تانیثیت کو ہم معنی سمجھے ہیں۔
۲۔ آپ گرائمر میں تذکیر و تانیث یعنی جنس کی بنیاد پر جانداروں کی تقسیم جانتے ہیں۔ تانیث جب انسانوں میں آتی ہے تو ان کی پہچان کے لیے زبانوں میں کئی مختلف الفاظ ہوتے ہیں مثلا" اردو میں عورت، نسا، زن وغیرہ۔ یہ تمام الفاظ صرف الفاظ نہیں ہیں بلکہ اپنے مفہوم میں تاریخی اور ثقافتی پس منظر کے حامل ہیں۔ یہ عورت کا وہ تصور پیش کرتے ہیں جو مرد حاکمیت کا معاشرے صدیوں بلکہ ہزاریوں کے سفر میں تشکیل دے چکا ہے۔
۳۔ عورتوں کی اپنے حقوق، پہچان اور معاشرے میں مساوی مقام کے حصول کی تحریک زیادہ قدیم نہیں ہے۔ یہی کوئی سو برس سے کچھ زیادہ۔ اسی تحریک کے اثرات تھے کہ یورپ کے وہ ترقی یافتہ ممالک جنھوں نے اپنی تمام تر ترقی کے باوجود اپنی عورتوں کے حقِ ووٹ کو تسلیم نہیں کیا تھا وہ اس حق کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوئے۔ درحقیقت عورتوں کے مساوی مقام کا شعور اجاگر کرنے کے لیے پہلا قدم روس اور جرمنی کی سوشلسٹ خواتین نے اٹھایا تھا۔ ۸ مارچ کو پوری دنیا میں عورتوں کے عالمی دن کا سلسلہ بھی انھی عورتوں کی جدوجہد سے آغاز ہوا تھا۔ ۸ مارچ کو پوری دنیا میں عورتوں کے عالمی دن کا سلسلہ بھی انھی عورتوں کی جدوجہد سے آغاز ہوا تھا۔ عورتوں کو ووٹ کا حق بھی سب سے پہلے سوویت یونین نے ۱۹۱۷ میں دیا تھا۔ بعد میں یہ تحریک اور تصور دنیا بھر کی ترقی پسند خواتین میں مقبول ہوا اور ادب میں اس شعور پر مبنی تحاریر سامنے آنے لگیں۔ اسی شعور پر مبنی ادب تانیثی ادب کہلاتا ہے۔
۴۔ اب آتے ہیں نسائی ادب کی طرف، آپ اسے عورتوں کا لکھا ہوا ادب کہہ سکتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک محترم دوست جناب قریشی منظور نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں ادب میں مردانہ اور زنانہ ڈبوں کی تقسیم پر اعتراض اٹھایا تھا اور اپنے موقف کے حق میں مضبوط دلائل دیے تھے۔ ان کی بات اس حق تک درست تھی کہ ادبِ عالیہ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ادب عورت کا لکھا ہوا ہے یا مرد کا بلکہ وہ ادب اپنے میرٹ کی بنیاد پر ادبِ عالیہ کا مقام پاتا ہے۔ میں ان کے موقف کے کسی قدر اختلاف کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ عورتوں کا لکھا ہوا ادب پوری دنیا میں مطالعے کی ایک شاخ ہے۔ یونیورسٹیوں میں عورتوں پر تحقیق و تعلیم کے الگ شعبہ جات ہیں اور یہ سب اپنی ضرورت کے تحت وجود میں آئے ہیں۔ اس پوسٹ پر تبادلہ خیال کا سلسلہ دیر تک چلا ۔ آپ کی دلچسپی کے لیے اس پوسٹ کا لنک کمنٹس میں دے رہی ہوں۔
۵۔ نسائی ادب کو تانیثی ادب سے الگ دیکھنے/سمجھنے کے لیے میں ذاتی طور پر بہت حساس ہوں۔ آج سے کوئی سات برس پہلے اس موضوع پر میری دوست افشاں ملک نے نسائی ادب کے بارے میں اردو افسانہ پر ایک پوسٹ لگائی تھی اور میں نے اس وقت احباب کی توجہ اس جانب دلائی تھی کہ عورتوں کا لکھا ہوا ادب اور عورتوں کے جدید شعور سے لیس ادب دو مختلف شاخیں ہیں۔
۶۔ پچھلے دنوں میں نے اسی موضوع پر ایک مختصر پوسٹ لگائی تھی اور مجھے خوشی ہوئی کہ احباب کی اکثریت نے ادب میں نسائِ اور تانیثی آوازوں کے فرق پر بہت واضح اور اچھا رسپونس دیا۔ اردو میں فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید اگر ادب میں تانیثی شعور کی علمبردار ہیں تو عورت کے روائتی تصور کی ترجمان بانو قدسیہ ہیں۔ اردو میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ یا اس شعور سے لیس ادیب، عصمت چغتائی، ڈاکٹر رشید جہاں وغیرہ۔
۷۔ تانیثی ادب صرف عورتوں تک محدود نہیں عورتوں کا بحثیت انسان مساوی مقام سے جڑے موضوعات پر مبنی ادب بلا تمیز مرد و زن تانیثی ادب میں شمار ہو گا۔ اور عالمی ادب میں ایسے ادیبوں کی کمی نہیں۔ ورجینیا وولف، سیمون دی بواغ، مارگریٹ ایٹووڈ، ٹونی موریسن ۔۔۔ اس تفصیل سے احتراز کرتے ہوئے اپ کی دلچسپی کے لیے ایک لنک حاضر ہے۔
۹۔ آخری بات یہ کہ یہ ایک وسیع موضوع ہے اور فیس بک پوسٹ کی بجائے کسی مقالے یا کتاب میں سمیٹا جا سکتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...