نرتکی ، ویشیا ، کسبی ، ٹکیائی یا کہ پھر طوائف
( تبصرہ ؛ قیصر نذیر خاورؔ )
نرتکی کہیں ، ویشیا یا کسبی کہیں ، ٹکیائی یا کہ پھر طوائف یہ سماج کے جس پیشے ( ادارے ) سے جڑی ہے وہ ' ہند سندھ ' کی تاریخ میں ایک طرف تو' امرپالی' ، جو اپنے جیون میں آم کے درخت کے نیچے پڑی شیر خوار بالیکا سے وشالی کی حسین ترین طوائف بنتی ہے اور پھر بدھا کی داسی بن کر اس کے دھرم کا پرچارکرتی پھرتی ہے ، کی یاد دلاتا ہے تو دوسری طرف سنسکرت کے ڈرامہ نگاروں ' بھاسا ' اور ' شدرکا ' کے ڈراموں پر نظر پڑتی ہے جن میں لگ بھگ پانچ صدی قبل از مسیح کی ' وسنت سینا ' پُرش کا دل بہلاتی اور اسے آسن سکھاتی نظر آتی ہے ۔ اردو کی طرف آئیں تو ہادی رسوا کا ناول ' امراوٗ جان ادا ' ( 1899ء ) اس موضوع کو اپنے انداز سے گھیرتا دکھائی دیتا ہے اور لکھنئوی کوٹھوں کا ماحول نظر کے سامنے آ جاتا ہے ۔ بنگالی ادب کی طرف نظر ڈالیں تو ' سرت چندر چٹوپادھیا ' کے ناول ' دیوداس ' (1917ء ) میں چندر مکھی آپ کو کولکتہ کے بازار حسن میں لے جاتی ہے ۔ اردو ادب میں منٹو (1912 ء تا 1955 ء ) اس موضوع پر لکھنے والا ایک قدآور نام ہے جس کے ساتھ ساتھ عصمت چغتائی (1915 ء تا 1991 ء) نے بھی اس پر قلم اٹھایا ۔ بعد میں دیگر کئی اردو ادیبوں نے عورت کے اس روپ کو اپنی تحریروں میں پیش کیا ۔
لاہور میں نرتکیوں ، ویشیاوٗں ، کسبیوں اور طوائفوں سے آباد علاقہ ہیرا منڈی یا شاہی محلہ کہلاتا ہے ۔ اس منڈی یا محلے کے اٹھائے جانے پر غلام عباس کا افسانہ ' آنندی ' اپنی جگہ ہے ۔ اس پر بنائی گئی شیام بینیگل کی فلم ' منڈی ' اس محلے کو اٹھا کر دکن میں لے جاتی ہے جبکہ اسی ہیرا منڈی کے کردار منٹو کے افسانوں میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں ۔ سلطانہ ، مختار اور شنکر کو آپ ہر شہر کے شاہی محلے یا اس کی ہیرا منڈی میں پائیں گے ۔
جس زمانے میں منٹو اور دیگر ادیب اپنی ' فکشن ' میں سماج کے اس ' ادارے ' (Institutionn ) اور اس سے جڑے افراد کو موضوع بنا رہے تھے اس وقت ' مجلس احرار اسلام ' کے ایک سیاسی رہنما ، دانشور اور مناظرہ کرنے والے آغا سورش کاشمیری ( 1017 ء تا 1975 ) نے ایک کتاب ' اُس بازار میں ' غالباً 1948 ء میں لکھنا شروع کی جو چھپی تو شاید کوئی بیس سال بعد ، لیکن یہ کتاب اردو میں غالباً وہ پہلی کتاب ہے جس میں کسی حد تک سماجیات کے علم کا سہارا لیتے ہوئے انہوں نے اس بازار پر قلم اٹھایا تھا ۔ انہوں نے لگ بھگ چھ سو طوائفوں سے انٹرویو کرتے ہوئے اپنی کتاب کا تانا بانا بُنا تھا ۔ وہ چونکہ احراری تھے اس لئے ان کا نکتہ نظر خالصاً اسلامی تھا اور اس کتاب میں سماج کے اس ' ادارے ' کو ایک بد نما داغ ثابت کیا گیا تھا ۔
خالص سماجیات کے علم میں بھی یہ موضوع تحقیق کا باعث رہا ہے ۔ پچھلے پچیس سالوں میں سماجیات کے حوالے سے اس علاقے پر دو اہم تحقیقیں ہوئیں ۔ ایک تو فوزیہ سعید نے 1990 ء کی دہائی میں کی تھی جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ، کراچی نے 2001 ء میں ' TABOO!: The Hidden Culture of a Red Light District ' کے نام سے شائع کی ۔ یہ بعد میں ' کلنک ' کے نام سے اردو میں بھی چھپی ۔ اس میں بھی تحقیق اسی بات کے گرد گھومتی ہے کہ یہ وہ ' ککنک ' ہے جسے سماج کے ماتھے پر نہیں ہونا چاہئے ۔
دوسری تحقیق جو سماجی علوم کے حوالے سے سامنے آئی وہ ایشیائی معاشروں کی محقق برطانوی ماہر عمرانیات لوئیس براوٗن , برمنگھم یونیورسٹی کی کتاب '
The Dancing Girls of Lahore: Selling Love and Saving Dreams in Pakistan's Pleasure District '
ہے جو 2005 کے وسط میں کتابی شکل میں شائع ہوئی ۔
عمرانی تحقیق کی یہ کتاب یوں تو سوشیالوجی کے میدان میں گنی جاتی ہے لیکن لوئیس براوٗن نے اس کتاب میں جو زبان استعمال کی ہے اور کرداروں کو جس چابک دستی سے الفاظ میں قید کیا ہے اس سے اس کی ادبی حیثیت بھی مسلّم ٹہرتی ہے۔ کردار حقیقی ہیں ، محل وقوع حقیقی ہے ، اقبال اور طارق بھی اصلی ہیں ۔ کیا ہوا کہ ماہا ، عربیہ ، نینا اور ان جیسی عورتوں کے نام من گھڑت ہیں لیکن ان کے پیچھے اصلی نرتکیاں موجود ہیں جو ناچ کے فن سے آسن سکھانے کے فن کے درمیان لٹکتی وہ ڈوریں ہیں جن کو کبھی کسی رئیس کی تنی پتنگ کاٹ جاتی ہے اور کبھی کسی عربی شیخ کا تنا گڈا ۔
یہ کتاب اردو میں ' لاہور کی نرتکیاں ' کے نام سے اردو میں ڈھلی ۔ ڈھالنے والے نعیم طارق ہیں جبکہ اس کو شائع فکشن ہاوٗس لاہور نے کیا ہے ۔ ترجمہ معیاری نہیں ہے لیکن انگریزی میں لکھی گئی یہ کتاب زبان کے اعتبار سے اتنی زرخیز ہے کہ اردو میں پڑھنے والا قاری اس میں سے وہ جوہر اخذ کر ہی لیتا ہے جو لوئیس براوٗن نے اس کتاب میں بین السطور بیان کیا ہوا ہے ۔ وہ چونکہ اس ' لال روشنی والے علاقے ' میں مشہور مصور اقبال حسین کے توسط سے خود بھی رچ بس گئی تھی اور اس نے کچھ ایسے تجربات خود بھی کئے جنہیں مغرب میں معیوب نہیں گردانا جاتا اسی لئے اس کی ' زبان ' میں وہ ادبی چاشنی بھر آئی کہ ہم ( کم از کم میں ) اسے عمرانی تحقیق کی کتاب مانتے ہوئے اردو فکشن کے زمرے میں بھی کھڑا کرتے ہیں ۔ کتاب سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ مصنفہ شاید اس کتاب کا دوسرا حصہ بھی لکھے گی کیونکہ اس نے کتاب کو جس موڑ پر لا کر بند کیا ہے ، اس سے آگے کا سفر ایک اور تحقیق و تحریر کا متقاضی ہے۔ شاید وہ ایسا کرے گی بھی بشرطیکہ یونیورسٹی آف برمنگھم موجودہ تحقیق کی طرح اسے اور فنڈ دے پائے ۔
' طوائفوں کی اگلی نسل ' نامی آخری باب کچھ یوں بند ہوتا ہے؛
" میں بچے کی پیدائش پر ہیرا منڈی جاوٗں گی۔میری دعا ہے کہ میری ٹائمنگ درست رہے ۔ میں چاہتی ہوں کہ میں لڑکی کی پیدائش پر ان کی خوشیوں میں شریک ہو سکوں اور اگر لڑکا ہو تو عربیہ اور اس کے کاندان والوں کو دلاسا دے سکوں ۔ ۔ ۔ ۔ ہم روز ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں کہ ڈائیٹنگ شروع کریں گے لیکن اگلے لمحے ہی جا کر مال روڈ سے پلیٹ بھی کر کھانا کھاتے ہیں اور کوک کے گھونٹ بھرتے ہیں ۔ پھر ماہا چرس کا پیکٹ نکال لیتی ہے اور میں سمرنوف وڈکا کی بوتل ۔ ۔ ۔ ۔
مصنفہ اس کتاب کے بارے میں خود لکھتی ہے؛
" ہیرا منڈی کی عورتوں کا بھی حق ہے کہ ان کی کہانی لکھی جائے اور لوگ اسے پڑھیں اور سنیں ۔ جب یہ پروجیکٹ شروع ہوا تھا تو میرے ذہن میں یہ خیال ہرگز نہ تھا کہ میں مسلسل چھ سال اس علاقے میں تواتر سے جاتی رہوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ' ماہا ' کے خاندان کے ساتھ آہستہ آہستہ جڑتی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں نے میری خاطر اپنی زندگی کے وہ راز بھی کھول کر رکھ دئیے جو صرف چھپانے کے لئے ہوتے ہیں ۔ "
موجودہ کتاب ایک ڈائری کی شکل میں لکھی گئی ہے لہذٰا اس میں وہ subjectivity اسی طرح موجود ہے جس طرح اس طرح کی تحریروں میں ہوتی ہے۔ ساتھ میں یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ تحقیق ' یونیورسٹی آف برمنگھم ' کی مالی معاونت سے کی گئی تھی جس نے اس کے ' پیرامیٹرز ' کو بھی پہلے سے طے کر رکھا تھا ۔ جب آپ اس کتاب کو پڑھیں گے تو ' پیرامیٹرز ' کی یہ پابندی آپ کو واضع طور پر محسوس ہو گی ۔
288 صفحوں پر مشتمل اس اردو ترجمے کی قیمت پاکستانی Rs.500/- ہے ۔ یہ پہلی بار 2012 ء میں شائع ہوا تھا لیکن اس کے بعد چھپنے والا ایڈیشن اب بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔