میرا ذاتی مشاہدہ ہے اور میری عمر کے تمام لوگوں کا بھی یہی تجربہ ہے کہ ہر پچاس برس بعد معاشرے میں بہت ساری تبدیلیاں غیر محسوس طریقے سے رونما ہوتی ہیں۔۔۔ نہ صرف رہن سہن،لباس، اخلاقیات کے معیار بلکہ عقیدے میں بھی کسی حد تک ردوبدل ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خوراک بھی بدل جاتی ہے۔۔۔ سچ کے معیار بھی زد میں آجاتے ہیں۔ چلئے ہم اپنے آپ کو خوراک تک محدود رکھتے ہیں۔ آج سے ستر اسی برس پیشتر پنجاب کی خوراک بے حد سادہ تھی۔ شہروں میں بھی خوراک کی اتنی ورائٹی نہ تھی۔ یہاں مجھے ایک دلچسپ قصہ دہرانے دیجیے جس کا ذکر میری امی جان کیا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب آج سے تقریباً اسی برس پیشتر ان کی شادی ہوئی اور وہ ایک نئی نویلی ٹین ایج دولہن تھیں تو گاؤں سے میرے ابا جی کی برادری کا کوئی ایک چاچا شہر لاہور دیکھنے کے چاؤ میں طویل مسافتیں طے کرتا آ گیا اور یاد رہے کہ ابا جی کے آبائی گاؤں کے بیشتر افراد نے تب تک نہ ریل گاڑی دیکھی تھی اور نہ ہی کوئی بس یا شاہراہ وغیرہ تو ان زمانوں میں لاہور آجانا ایک ایڈونچر تھا۔ امی جان نے گاؤں سے آنے والے چاچا جی کی اپنے تئیں بہت خاطر کی اور انہیں بھنا ہوا گوشت اور آلو شوربہ وغیرہ کھلا دیا۔۔۔ چاچا جی اگلے روز شدید بیمار ہو گئے اور مرتے مرتے بچے۔۔۔ علاج معالجے کے بعد جب کسی حد تک صحت مند ہوئے تو آمی جان کو پاس بلا کر کہنے لگے۔۔۔ بیٹی میں جانتا ہوں کہ تم میری خدمت خاطر کر رہی ہو پر ۔۔۔ تمہیں پتا ہے میں کیوں بیمار ہو گیا؟۔۔۔ تم نے مجھے سالن کھلادیا اور یہ ہانڈی پر چڑھائے جانے والے مرچ مصالحے میرے لیے زہر ہیں۔ میں نے زندگی میں پہلی بار سالن کھایا تو بیمار ہو گیا، اب یہ نہ کھلانا۔ امی جان نے پریشان ہو کر پوچھا کہ ۔۔۔ چاچا جی پھر میں آپ کو کھانے کے لیے کیا پیش کروں تو وہ کہنے لگے ’’دودھ کا ایک پیالہ اور گندم کی دو روٹیاں‘‘ اور یہ حقیقت ہے کہ پنجاب کے دیہات میں ہانڈی چڑھانے اور مرچ مصالحوں کا چلن نہ تھا۔ گندم کی موٹی روٹی، اچار کے ساتھ یا دودھ اور چاٹی کی لسی کے ساتھ کھانے کا رواج تھا۔ بہت عیاشی کی تو خربوزے کے ساتھ یا پیاز کے ساتھ روٹی کھا لی۔ سالن ان زمانوں میں ایک زہر سمجھاجاتا تھا۔
ازاں بعد جوں جوں زندگی پیچیدہ ہوتی گئی ہماری خوراک بھی پیچیدہ ہوتی چلی گئی۔ ایک اور ذاتی یاد ہے کہ جب میری چھوٹی خالہ جان کی شادی ہوئی اگرچہ وہ لاہور میں پڑھتی تھیں لیکن شادی تو گاؤں میں ہونی تھی اور بارات بھی دیہاتیوں کی ہونی تھی تو میرے ماموں جان چوہدری نذیر حسین چیمہ جو گاؤں کے نمبردار وغیرہ بھی تھے نے اپنی لاڈلی ہمشیرہ کی شادی کے موقع پر خصوصی طورپرلاہور سے باورچی بلائے اور یہ باورچی کسی حد تک نرگسی کوفتوں کے موجد تھے۔۔۔ بارات کی مدارات کے لیے جو کھانے پیش کیے گئے، بیشتر باراتیوں نے صرف پلاؤ اور زردہ کھایا اور باورچیوں کے بنائے ہوئے کھانوں کو ہاتھ تک نہ لگایا بلکہ نرگسی کوفتے ان کے لے تفریح کا سامان ہو گئے کہ بھلا یہ گول گول سا کیا ہے اور اس کے اندر انڈا کیسے چلا گیا۔ اب اُنہی دیہات میں برگر کی دکانیں کھل گئی ہیں اور دیسی پیزا پارلر پاپولر ہو چکے ہیں۔ یقین کیجیے میں نے ایک دور افتادہ گاؤں میں ایک کھوکھا ہوٹل دیکھا جس کے باہر ایک بورڈ آویزاں تھا ’’بہتر ین چکن کاں سُوپ‘‘ کارن نہیں کاں یعنی کوا سوپ۔۔۔ یہ ابھی اگلے روز کی بات ہے کہ لاہور ریڈیو سٹیشن میں ایک نوجوان نجمہ محبوب ہنستی جا رہی تھی کہ میں نے سنا ہے کہ کوئی شے چکن تکہ نام کی بھی آ گئی ہے، یہ کیا بلا ہے۔ میں اپنی ہمشیرہ پر وین کی شادی کے موقع پر شاپنگ کے لیے لنڈی کوتل گیا اور اُن دنوں خاور زماں نوشہرہ میں اے ایس پی تعینات ہوا تھا اور وہ میرے ہمراہ تھا۔ دوپہر کے کھانے کے وقت لنڈی کوتل کے قبائلی سرداروں نے ہماری تواضع کی اور ہمارے سامنے دھویں سے سیاہ ہو چکی کڑاہیاں رکھ دیں جن میں گوشت، ہری مرچیں اور ٹماٹر سلگتے تھے۔ ہمیں سمجھ نہ آئی کہ یہ کیا خوراک ہے اور اسے پیش کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ کڑاہی گوشت کی ابتدا ہمارے صوبہ خیبر پختونخواہ میں لنڈی کوتل میں ہوئی اور اب کڑاہی گوشت۔۔۔ قومی نشاں ہے ہمارا۔ دنیا بھر میں، نیو یارک، لنڈن یا ٹوکیو میں ’’کڑاہی گوشت ہوٹل‘‘ اور ’’کڑاہی کڑاہی ‘‘ نام کے ریستوران کھل چکے ہیں۔ اسی طور ’’ٹکاٹن‘‘ یا ’’ٹکا ٹک‘‘ کا آغاز لاہور کے میکلوڈ روڈ سے ہوا، کیپٹل سنیما کے برابر میں ، اُس پگوڈے کی قربت میں جہاں کبھی ابن انشاء قیام پذیر ہوتے تھے وہاں ایک صاحب دال اور قیمے کی بہت چھوٹی چھوٹی ٹکیاں بنا کر توے پر بھون کر۔۔۔ اُن میں مکھن اور عجب مصالحوں کی دُھول شامل کر کے کیا ہی آسمانی خوراک تیار کرتے تھے۔ آغاز میں ایک ٹکی کی قیمت ایک ٹکا تھی اور وہ ٹکا ٹکی کہلاتی تھی اس کے ’’ٹکا ٹک‘‘ اور جب انہیں توے پر ڈال کر ایک ٹکوے سے کوٹا جاتا تھا تو ’’ٹک ٹک۔۔۔ ٹکاٹن‘‘ کی آواز آتی تھی تو یہاں سے پیدائش ہوئی ’’ٹکا ٹک‘‘ یا ’’ٹکا ٹن‘‘ کی۔
میرے ایک دوست تنویر خواجہ کو پچھلی عید پر ایک صدمے سے دو چار ہونا پڑا۔۔۔ انہوں نے قربانی کے بکروں کا گوشت اپنی نگرانی میں بھونا اور دیگچوں میں تیار کروایا۔۔۔ چانپیں الگ اور روسٹ ران الگ۔۔۔ اور جب وہ دوپہر کے وقت اس مشقت سے فارغ ہو کر اپنے بچوں کو بلانے اور سر پرائز دینے گئے تو بچہ لوگ میکڈونلڈ کے برگر اور پیزا ہٹ کے پیزے کھا رہے تھے اور انہوں نے دیسی خوراک کھانے سے انکار کر دیا۔۔۔ تنویر خواجہ آج تک اس صدمے سے سنبھل نہیں سکے۔
ویسے یہ صرف ہم نہیں جو امریکی جنک فوڈ کے رسیا ہو چکے ہیں۔تھیان من سکوئر بیجنگ میں ماؤزے تنگ کے مقبرے کے عین سامنے ایک میکڈونلڈ کھل چکا ہے جس کی نیون روشنیاں ماؤ کے مقبرے پر پڑتی ہیں، یعنی وہ شخص جو امریکہ کو ایک ’’کاغذی شیر‘‘ قرار دیتا تھا تو یہ کاغذی شیر اپنی تمامتر ہیبت ناک طاقت سے اسے زیر نہ کر سکا۔۔۔ اور اسے میکڈونلڈ کے ایک برگر نے فتح کر لیا۔ ہر پچاس برس بعد صرف سچ کے نہیں خوراک کے پیمانے بھی بدل جاتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...