“نرگسیت” ایک نفسیاتی کیفیت ہے جس کے شکار افراد خود پسندی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ خودپسندی کی اس کیفیت کا نام ایک یونانی دیومالائی کردار “نارسیسس” کی کہانی پر رکھا گیا جو جھیل میں اپنا عکس دیکھ کر اپنی ہی محبت میں ایسا گرفتار ہوا کہ اسکے لئے خود کو اس مقام سے ہٹانا ناممکن ہو گیا اور بلاخر وہ اسی جگہ بیٹھے بیٹھے ختم ہوگیا۔
اس کیفیت کو سائنسی اور نفسیاتی حلقوں میں ‘بیماری’ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے علاوہ اس ذہنی بیماری کی مثال ہٹلر کی ہے۔
کچھ اور کہنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بیماری کی تعریف کیا ہے؟
“بیماری ذہنی یا جسمانی طور پر ابتر، بےترتیب اور پراگندہ ہونے کا نام ہے”
نفسیاتی معالج نرگسیت کی جو علامات بیان کرتے ہیں ان میں سے چند کی فہرست درج ذیل ہے:
1۔ اپنی اہمیت، صلاحیت اور کامیابیوں کو بار بار بڑھا چڑھا کر پیش کرنا
2۔ اپنی دانست میں طاقت، ذہانت، رومان، خوبصورتی اور کامیابی میں خود کو غیر حقیقی طور پر سرفہرست سمجھنا۔
3۔ ہمہ وقت توجہ اور شاباش کی توقع رکھنا۔
4۔ تنقیدکے نتیجے میں شرمندگی اور ذلت محسوس کرنا اور اسکا جواب شدید غصّے سے دینا۔
5۔ آسانی سے حسد کا شکار ہو جانا۔
6۔ غمخواری اور ہمدردی کے اظہار میں کمتر ہونا اور دوسروں کے احساسات کے مجروح ہونے سے بے خبر ہونا۔
7۔ اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کا استمعال کرنا۔
8۔ صحتمند ذاتی اور سماجی تعلقات نہ رکھ سکنا۔
9۔ غیر حقیقی مقاصد کی جستجو۔
10۔ بغیر کچھ کیے بہترین کی توقع رکھنا اور اسے اپنا حق سمجھنا۔
11۔ جذبے اور جذباتیت میں فرق نہ کر سکنا۔
12۔ طاقت اور قوت کی جستجو میں رہنا۔
نفسیاتی معالج اور ماہرین اس بیماری کی بہت سی وجوہات بتاتے ہیں جنمیں سرفہرست
بچپن کی بے ضابطگیاں ہیں مثلاً:
حد سے زیادہ توجہ یا بے توجہی
غیر حقیقتمندانہ توقعات
بدسلوکی
قوموں کے حوالے سے یہ بے ضابطگیاں مذکورہ قوم کی تاریخ میں چھپی ہوتی ہیں اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ پاکستانی قوم کی تاریخ میں یہ تینوں وجوہات بدرجہاتم نظر آتی ہیں۔
حد سے زیادہ توجہ یا بے توجہی:
پاکستان کے قیام کی سیاسی وجوہات برصغیر پاک و ہند میں ہندو مسلم برادریوں کے درمیان سماجی اور معاشرتی عدم توازن تھا۔ یعنی ایک کو دوسرے سے کمتر سمجھا جاتا تھا ۔ اس حوالے سے قیام پاکستان کا مقصد اس عدم توازن کو ختم کرنا تھا تاکہ اس خطّے کے مسلمان اپنے مساوی حقوق منوا سکیں۔
لیکن نظر یہ آتا ہے کہ عالمی سطح پر برابری کی بجاۓ پاکستانی بغیر وجہ برتری کے خواہشمند ہیں اور اس طرح حقیقتً وہی غلطی کر رہے ہیں جو قیام پاکستان سے پہلےانگریز اور ہندو سیاستداں کر رہے تھے۔
غیرحقیقتمندانہ توقعات:
توقعات دو اقسام کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو ہم دوسروں سے رکھتے ہیں اور دوسری وہ جو ہم خود سے رکھتے ہیں۔
اپنی ذات سے بےپناہ توقعات رکھنا یا دوسروں کی توقعات پر سو فیصد پورا اترنا دونوں غیر حقیقتمندانہ رویۓ ہیں۔
بہترین فلسفہ وہ ہے جہاں ان دونوں کے درمیان توازن قایم ہو۔ لیکن یہ فارمولا ایک مخصوص ذہنی بلوغت حاصل کیے بغیر کارآمد نہیں۔
پاکستانی قوم جہاں دوسروں سے بے پناہ توقعات رکھتی ہے وہاں اپنی ذات سے توقعات رکھنے پر کچھ خاص یقین نہیں رکھتی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری اقدار کا احترام تمام عالم پر فرض ہے لیکن عالمی اقدار کا احترام کرنا ہمارا فرض نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے مذہبی احساسات کو تمام عالم میں تحفظ ملنا چاہیے لیکن دیگر مذہب کو ہم تحفظ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تمام عالم کو اپنے امور بجا لاتے ہوے ہماری ترجیحات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے لیکن اپنے امور بجا لاتے وقت ہم عالمی ترجیحات سے آنکھیں چرا لیتے ہیں۔
بدسلوکی:
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے قیام کی ضرورت کی ایک بڑی وجہ وہ بدسلوکی تھی جو سماجی سطح پر برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی گئی۔ اس معاملے میں کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیں۔
فرق تب پیدا ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسی طرح کی بدسلوکی دوسری جنگ عظیم میں جرمنی، فرانس اور اٹلی کے یہودیوں کے ساتھ ہٹلر کی افواج نے بھی کی جس کے نتیجے میں یہودیوں کو دنیا کے مختلف کونوں میں چھپ کر جان بچاناپڑی۔ پاک و ہند کے مسلمان البتہ ایک ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بکھرے یہودی ایک قوت بن کر ابھرے لیکن پاکستانی ایک قوم بن کر اپنا لوہا نہیں منوا سکے؟
حاصل بحث:
تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو سمجھ آتا ہے کہ یہودیوں نے ہٹلر کی بدسلوکی کا بدلہ خود کو کامیاب سے کامیاب تر بنا کر لیا، جبکہ پاکستانی قوم نے بدلہ لینے کے لئے ہندوستان پر زبانی، کلامی اور عسکری طور پہ حملہ آور رهنے کو ترجیح دیا۔
اپنے قیام سے پہلے اور دوران قیام کے ان تاریخی حقایق کی بدولت ہم ایک نفسیاتی مرض کا شکار ہیں۔ نفسیاتی مریض ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مریض خود کو مریض سمجھنے میں ہتک محسوس کرتا ہے جسکی وجہ سے بیماری کا خاطرخواہ علاج کرنا ممکن نہیں۔
نفسیاتی مرض کا سب سے بڑا فایدہ یہ ہے کہ اگر مریض تیار ہو تو شفا بہت آسانی سے حاصل ہو سکتی ہے۔
نفسیاتی معالج سمجھتے ہیں کہ انسانی ذہن کاتمام تر علاج تشخیص میں ہے۔ اور تندرستی تبھی ممکن ہے جب اس ذہن کا مالک تندرست ہونے میں دلچسپی رکھتا ہو۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...