نکاراگوا نے 2010 میں کوسٹا ریکا پر حملہ کر کے علاقے (کلیرو آئی لینڈ) پر قبضہ کر لیا۔ نکاراگوا نے اس کا جواز یہ پیش کیا کہ اس علاقے کو گوگل میپ میں نکاراگوا کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد کوسٹا ریکا نے سب سے پہلے کس سے رابطہ کیا؟ اقوامِ متحدہ سے؟ نکاراگوا سے؟ امریکہ سے؟ ثالثی کروانے کے لئے کسی اور ہمسائے سے؟ نہیں۔ ان میں سے کسی سے بھی نہیں۔ کوسٹا ریکا نے سب سے پہلے اس واقعے کے بارے میں گوگل سے رابطہ کیا۔ کیونکہ دنیا کی نظروں میں گوگل اس وقت نقشے کے لئے ڈی فیکٹو سٹینڈرڈ بن چکا ہے۔
گوگل کے پاس کوئی عالمی سرحدبندی کی کوئی قانونی اتھارٹی نہیں ہے لیکن اس معاملے میں اس وقت گوگل دنیا کا سب سے اہم اور طاقتور کھلاڑی ہے۔
سرحدیں کوئی قدرتی شے نہیں، انسانی تصور ہیں۔ آج دنیا کی کوئی بھی سرحد صرف اس لئے ہے کہ ہم عمومی طور پر اس لکیر کو سرحد مانتے ہیں۔ ان کی موجودگی کا سب سے ٹھوس ثبوت نقشہ ہے۔ نقشہ بنانا آسان کام نہیں۔ یہ بڑا مہنگا اور صبر آزما کام ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک صرف دنیا میں یہ کام کرنا صرف حکومتیں افورڈ کر سکتی تھیں۔ نقشہ بنانے کی سائنس کارٹوگرافی کہلاتی ہے۔ اس کی بنیاد اس پر ہے کہ حقیقت کو تصویر کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کا نقشہ بنانے کی کئی طرح کی تکنیک ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ ان میں سے سب سے مشہور جو عام استعمال ہوتی ہے، مرکیٹر پراجیکشن کہلاتی ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ہے کہ خطِ استوا کے قریب کے علاقے اپنے سائز سے چھوٹے اور قطبین کے قریب کے علاقے اپنے سائز سے بڑے نظر آتے ہیں۔ عام طور پر ہمارے ذہنوں میں دنیا کا یہ کچھ تھوڑا سی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ یہاں پر مسئلہ ایک تھری ڈائمنشنل گلوب کو ایک دو ڈائمنشل صفحے یا سکرین پر دکھانے کا ہے۔ گوگل میپ بھی مرکیٹر پراجیکشن استعمال کرتا ہے۔ دنیا کا پہلا نقشہ جو دنیا کے جغرافیے کو سیاسی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے، سترہویں صدی میں بنایا گیا۔
تاریخی طور پر جب کسی جگہ پر قبضہ جمانا ہوتا تھا تو جس کے پاس طاقت تھی، وہ یہ نقشہ بدل دیا کرتا۔ کالونیل ازم بنیادی طور پر یہی تھا۔ (قتل و غارت کا اضافہ کر لیں)۔ اس کی ایک مثال افریقہ تھا۔ 1884 میں اس کا دس فیصد یورپی کنٹرول میں تھا۔ تیس برس بعد 1914 میں نوے فیصد۔ یہاں سے ہزاروں میل دور زمین کے بارے میں مذاکرات ہوئے، معاہدات اور کاغذ پر سرحدیں بنائی گئیں جس میں مقامی اور کلچرل سرحدوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ 1914 میں بنایا گیا یہ نقشہ آج ممالک کی صورت میں موجود ہے اور سب ان لکیروں کا احترام کرتے ہیں۔ سب آج کہیں گے یہ لکیریں سچائی اور حقیقت ہیں لیکن 130 برس پہلے ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس نقشہ حقیقت میں بدل گیا۔ ملک وجود میں آئے، ان کے پاسپورٹ اور ویزے، حکومتیں، افواج، جھنڈے، اقوام اور حب الوطنی بھی۔ نقشے نے اپنا آپ منوا لیا۔
جب تک ان نقشوں کا کنٹرول ممالک کے پاس تھا، اس وقت تک سرحدی تنازعات کا حل آسان تھا۔ دونوں ملک اپنا اپنا نقشہ بنا لیتے تھے۔ ان کی شہری دوسرے کا بنایا نقشہ کبھی دیکھتے ہی نہیں تھے۔ ہر ایک کا بھرم بھی رہ جاتا اور دنیا چلتی رہتی تھی۔ چین کے پاسپورٹ پر اس وقت اپنے ملک کا جو نقشہ بنا ہے، اس پر تائیوان، ویت نام، انڈیا، ملیشیا، فلپائن اور برونائی کو اعتراض ہو گا، لیکن ان میں سے ہر ایک کے پاس دنیا کا اپنا اپنا نقشہ ہے۔
پھر انٹرنیٹ آ گیا۔ قومی نقشوں کا رواج ماند پڑنے لگا۔ لوگ ایک دوسرے کا نقشہ دیکھ سکتے تھے۔ گوگل میپ نے بڑی جلد اس مارکیٹ پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ لیکن نہیں۔ ملک اتنی جلدی ہار ماننے والے نہیں تھے۔ گوگل کو بھی ملکی قوانین کی پاسداری کرنا پڑتی ہے۔ ملکوں کے پاس سنسرشپ کا ہتھیار ہے۔ سرحد کوئی معروضی حقیقت بھی نہیں۔ یہ لکیر کہاں پر لگائی جائے کہ سب خوش رہیں؟ دنیا میں اس وقت سینکڑوں سرحدی تنازعات ہیں۔ صرف چین اور انڈیا کی سرحد پر بڑے علاقے پر تنازعہ ہے۔ کوئی بھی ایسی لکیر نہیں جو دونوں کے لئے قابلِ قبول ہو اور دنیا کی ایک تہائی آبادی صرف ان دو ملکوں میں رہتی ہے۔ مثال کے طور پر اروناچل پردیش کے علاقے کو انڈیا اپنا صوبہ کہتا ہے جبکہ اسی علاقے کو چین جنوبی تبت کہتا ہے۔ دونوں ملکوں میں بنے نقشوں میں یہ ان ممالک کا حصہ ہے۔ (اس وقت انڈیا کے ایک لاکھ فوجی اس جگہ پر تعینات ہیں)۔ دونوں ممالک کے قوانین کے مطابق، نہ صرف اس علاقے کو دوسرے ملک میں نہیں دکھایا جا سکتا بلکہ اسے متنازعہ علاقہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا حل کیا ہو؟
اس کے لئے گوگل تین الگ نقشے دکھاتا ہے۔ اگر آپ انڈیا سے دیکھیں تو یہ انڈیا کا حصہ، اگر آپ چین سے دیکھیں تو چین کا حصہ اور دنیا کی باقی دو تہائی آبادی کو یہ متنازعہ علاقے کے طور پر نظر آتا ہے۔ اس کے گرد لکیر سالڈ نہیں، نقطوں سے بنی ہے۔
اس سے پہلے کوئی بھی نقشہ بنانے والا ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ ٹیکنالوجی ایس نہیں تھی۔ نقشہ بنانے والے کو کسی سائیڈ کا انتخاب کرنا پڑتا تھا کہ کسے خوش کرے اور کسے ناراض۔ جگہ کو دیکھ کر نقشہ دکھانے کے طریقے کی وجہ سے عام انڈین یا چینی کو اس پر جھگڑے کا علم ہی نہیں تھا لیکن پھر ایک مسئلہ ہو گیا جو گوگل کے پروگرام کی غلطی تھی۔ یہ 2007 میں غلطی سے سوئچ ہو گیا۔ انڈیا کے لوگ چین والا اور چین کے لوگ انڈیا والا نقشہ دیکھنے لگے۔ یہ عالمی واقعہ تھا۔ دونوں ممالک میں اس پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سکرین پر نظر آنے والی تصویر میں لگی لکیر اسی جگہ پر ہی کیوں نہیں جیسی وہ دیکھتے آئے ہیں؟ اس سے پہلے زیادہ تر چینیوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اس جگہ پر کوئی تنازعہ بھی ہے۔ انڈیا کی پارلیمنٹ میں گوگل کے خلاف قرارداد منظور ہوئی۔ گوگل پر دونوں طرف سے الزام لگایا گیا کہ یہ ان ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کی سازش ہے اور جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔ یہ جان کر ہوا یا نہیں لیکن زمین پر کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ لیکن یہ واقعہ دونوں ممالک کی طرف سے تصویروں میں لگی لکیروں کی اور ان لکیروں پر گوگل کے کنٹرول کی طاقت کا اعتراف تھا۔
آن لائن نقشوں کی ایک اور بڑی طاقت ان کی تبدیلی کی رفتار ہے۔ نئے نقشے کو لانے میں برسوں لگتے تھے، اب یہ گھنٹوں کا کام ہے۔ جب روسی فوج نے کریمیا پر فروری 2014 میں فوج کشی کی تو اگلے چند روز میں ہی گوگل نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ اگر آپ روس میں ہوں تو اس کو روس کا حصہ دکھایا جائے گا، یوکرائن میں ہوں تو یوکرائن کا اور باقی دنیا میں متنازعہ علاقہ۔ اس کو اقوامِ متحدہ یا کسی اور کے پاس جا کر اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ گوگل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کا پابند نہیں۔ اس بین الاقوامی ادارے کی طاقت اور اثر کسی ملک سے کم نہیں۔ اقوامِ متحدہ آہستہ کام کرتی ہے۔ اس کا ادارہ، یونائیٹڈ نیشن ریجنل کارٹوگرافک کانفرنس، جو اس سے متعلق ہے، کا اجلاس ہر تین سے چار سال بعد ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ گوگل کو سرحدوں اور ناموں کے فیصلے روز کرنے ہیں۔ اس کے نقشوں کی قانونی حیثیت تو کچھ نہیں لیکن اس معلومات کا سب سے اہم ذریعہ یہی ادارہ ہے۔
جب جنوبی سوڈان 2011 میں الگ ملک بنا تو اس کے ووٹ نے سرحدوں کا ٹھیک فیصلہ نہیں کیا تھا۔ کئی آبادیوں کو خود علم نہیں تھا کہ وہ کس کا حصہ ہیں۔ گوگل نے اس علاقے کی کمیونیٹی کی شراکت سے مپینگ ایونٹ کئے۔ مقامی لوگوں نے ان جگہوں کے تفصیلی نقشے بنائے جو پہلے نہیں تھے اور ایک نیم جمہوری عمل کے ذریعے کئی جگہ پر ٹھیک سرحد کا فیصلہ کیا۔ ابھی کچھ جگہ پر سرحدی تنازعہ باقی ہے اور اس میں خونریزی بھی جاری ہے لیکن کسی عالمی ادارے یا ملک کو ملوث کئے بغیر صرف مقامی کمیونیٹی کی مدد سے گوگل نے بڑی حد تک سرحد کا تعین کر لیا۔ گوگل کے بغیر دونوں ممالک کے فیصلہ کرنے والوں کو بھی خود اس علاقے کا اچھا علم نہیں تھا۔
گوگل کی طرف سے مقامی کمیونیٹی کی مدد سے کسی جگہ کا تفصیلی نقشہ تیار کرنے کی یہ واحد مثال نہیں۔
دنیا میں سینکڑوں جگہ پر قومی سرحدیں فطری حقیقت نہیں لیکن ہمارے ذہنوں میں قائم گہری حقیقت ہیں (یہ بہت اہم اور ضروری حقیقت ہے)۔ لیکن یہ ہیں کہاں پر؟ اس کے جواب کا ایک حصہ یہ ہے کہ آپ خود کون ہیں اور کہاں پر ہیں۔ گوگل اس مسئلے کو جس ٹیکنالوجی سے حل کرتا ہے، کمپیوٹر سائنس میں اس کو لوکلائزیشن کہتے ہیں۔
پہلی تصویر میں اروناچل پردیش کے تین نقشے
دوسری تصویر میں افریقہ کا سیاسی نقشہ تین ادوار میں
نکاراگوا اور کوسٹاریکا تنازعے پر
https://www.telegraph.co.uk/…/Google-maps-error-sparks-inva…
اروناچل پردیش اور گوگل میپ
https://www.pcworld.com/article/174205/article.html