معروف ادیبہ اور کالم نگار بشریٰ رحمان سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کوئی خاتون مزاح نگار نہیں ہے، کیاخواتین مزاحیہ تخلیق سے گھبراتی ہیں؟ بشریٰ رحمان نے فوراً جواب دیا’’خواتین کی سب سے مزاحیہ تخلیق مرد ہیں‘‘۔ہم آپ اکثر دیکھتے ہیں کہ خواتین اکثر طنزو مزاح کی صلاحیتوں سے محروم ہوتی ہیں لیکن اب شائد ایسا نہیں۔ اب تو فیس بک کی بدولت خواتین بھی ایسا ایسا سٹیٹس لکھتی ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔آج خواتین مزاح نگاروں کی بھی کمی نہیں ‘ کچھ کی تو باقاعدہ کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔پہلے ایسا نہیں تھا‘ مجھے یاد ہے میں نے ایک مزاح نگارہونے کی دعویدار خاتون کی کتاب کی تقریب رونمائی میں بڑے مان سے کہا کہ اِن کے اندر ایک شرارتی بچی موجود ہے۔ا س بات پر انہوں نے بھری محفل میں انتہائی خوفناک احتجاج کیا اور سختی سے اس ’’الزام‘‘ کی تردید کی۔خواتین کے طنزومزاح سے بھرپور تیکھے جملوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ بانوقدسیہ آپا نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں اپنے نام کا مطلب پتا ہے؟ میں نے شرمندگی سے سرکھجاتے ہوئے کہا’’جی ہاں! تازہ کھلا ہوا پھول‘‘۔سوال کیا’’نام کس نے رکھا تھا؟ ‘‘میں نے کہا’’نانی نے‘‘۔ پوچھنے لگیں کہ ’’کیا وہ پڑھی لکھی خاتون تھیں؟‘‘۔ میں ہنس پڑا’’نہیں آپا! ہماری نانیاں تو خالصتاً دیہاتی تھیں، حقہ پیتی تھیں‘ سیدھی سیدھی بات کرتی تھیں اور چٹی ان پڑھ تھیں‘‘۔ بانو آپا نے کچھ لمحے مجھے دیکھا ‘ پھر اطمینان سے بولیں’’یہ حرکت کوئی ان پڑھ عورت ہی کر سکتی تھی۔۔۔‘‘
پچھلے دنوں ایک کتاب آئی’’نقش پائے یوسفی‘‘۔ پہلے تو حیرت ہوئی کیونکہ اگر یہ یوسفی صاحب کی کتاب تھی تو ابھی تک میری نظر سے کیوں نہیں گذری۔ پھر مندرجات پر نظر پڑی تو بے اختیار دل مچل اٹھا۔ یہ کتاب یوسفی صاحب سے محبت کرنے والوں نے شائع کی تھی ‘ اس میں ’’مبینہ ‘‘طور پرنوجوان لڑکے لڑکیوں کے مزاحیہ مضامین شامل کیے گئے ہیں ۔مجھے اس لیے بھی یہ کتاب اچھی لگی کیونکہ شاعری کی دھڑادھڑ آتی ہوئی کتابوں میں یہ سب سے الگ تھی۔عام طور پر نوجوانی میں شاعری کا کیڑا زیادہ تنگ کرتا ہے لیکن یہ’ نوجوان‘ مزاح جیسے شگفتہ موضوع کی طرف آ نکلے۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ کتاب میں خواتین کی تعداد نمایاں تھی۔یہ کتاب ینگ ویمن رائٹرز فورم کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس کی روح رواں بشریٰ اقبال صاحبہ ہیں‘ جرمنی میں رہتی ہیں لیکن اُردو ادب سے خاص لگاؤ کی وجہ سے پاکستان میں مسلسل تقریبات کرواتی رہتی ہیں۔مجھے کچھ روز پہلے کہا گیا کہ ’نقش پائے یوسفی ‘ کی تقریب رونمائی اکادمی ادبیات اسلام آباد میں منعقد ہورہی ہے لہذا حاضری دوں۔ یہ میرے لیے سعادت کی بات تھی‘ مسکراہٹوں بھری کتاب تو پہلے ہی مجھ میں خوشی بھر چکی تھی لہذا تمام تر مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تقریب میں شمولیت کی۔ چیئرمین اکادمی ادبیات جناب ڈاکٹر قاسم بھگیو کی صدارت میں یہ بلاشبہ ایک منفرد اور قہقہہ بار تقریب تھی جس میں بھگیو صاحب نے بھی دلچسپ گفتگو فرمائی۔ینگ ویمن رائٹرز فورم کے نام میں بھی ایک دلچسپ چیز موجود ہے‘ تقریب میں شرکت سے پہلے مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ویمن‘ ینگ کیسے ہوسکتی ہیں‘ لیکن پھر احساس ہوا کہ یہ نام یقیناًزندہ دلی اور مسرت کے پھیلاؤ کو مد نظر رکھا گیا ہے جو انسان کو ہمیشہ ینگ رکھتی ہیں۔
اب اس کتاب میں شامل مضامین سے کچھ شاندار اقتباسات ملاحظہ کیجئے اور دیکھئے کہ کیسا شاندارانتخاب ہے ۔خرم بقا لکھتے ہیں’’ہماری شادی بالکل ویسے ہوئی جیسے لوگوں کی وفات ہوتی ہے یعنی بے وجہ اور بے ارادہ‘‘۔سید حسین تاج رضوی لکھتے ہیں’’اپنے نام کے سلسلے میں بس یہ کہوں گا کہ اکثر لوگ اپنی زبان دانی کا ثبوت دینے کے لیے اسے الٹ دیتے ہیں‘‘۔فوزیہ قریشی اپنے خاندان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں’’کشمیری ہونے کی وجہ سے تعصب میں مبتلا ہیں اور گمان یہ ہے کہ ’ہے کوئی ہم سا رنگ روپ والا‘۔ فخر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا آج تک‘‘۔ہُما فلک اپنے بارے میں لکھتی ہیں’’سُتواں ناک‘ غزالی آنکھیں‘کتابی چہرہ‘گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ‘ دودھیا رنگت۔۔۔کاش میں ایسی ہوتی ۔۔۔‘‘جاوید مرزا لکھتے ہیں’’ہر سال سرد موسم میں سردترین ملک چلے جاتے ہیں اورگرم ترین موسم میں واپس آجاتے ہیں گویا فریج سے نکل کر گرم گرم توے پر جائے نشست لگاتے ہیں‘‘۔ناصر خان ناصر لکھتے ہیں’’مرزا صاحب کا تعارف کرانا سورج کو چراغ دکھانا تو کیا خالی تیل کی کپی اور دیئے کی بجھی مسکی بتی دکھانے کے مترادف ہے‘‘۔سلمان باسط لکھتے ہیں’’وقت ضائع کرنا اس کا محبوب مشغلہ ہے‘ وہ وقت ایسے ضائع کرتا ہے جیسے بگڑے ہوئے امیر زادے مرحوم باپ کی دولت ضائع کرتے ہیں‘‘۔کوثر ناز لکھتی ہیں’’آئینہ ہمیں کہتا ہے کہ نظر کا ٹیکا لگا لو اور امی حضور کی نظریں کہتی ہیں جاکرمنہ دھولو‘‘۔رضا شاہ جیلانی لکھتے ہیں’’ہم روز بڑے شوق سے بروس لی بننے کے کے لیے جاتے اور انڈین فلموں کے آخری سین والا ولن بن کر لوٹتے‘‘۔عتیق رحمان باکمال شاعر اور افسانہ نویس بھی ہیں‘ مزاح کے میدان میں دبنگ انٹری دیتے ہوئے لکھتے ہیں’’قدرت نے آغاز جوانی میں ہی ہمیں کشادہ پیشانی سے نواز کر اپنی خندہ پیشانی کا ثبوت فراہم کیا۔آل حسن خان لکھتے ہیں’’بیس سال کی عمر میں ایل ایل بی کیا توانڈر ایج ہونے کی وجہ سے ایک سال تک وکیل نہیں بن سکا اور پرائمری ٹیچر کو دعائیں دیتا رہاجس کی مہربانی کا انعام اب آکر ملا تھا۔‘‘فاطمہ عمران اپنے تعارف میں لکھتی ہیں’’میرا حلیہ ایسا ہے کہ اگر اچانک کوئی آجائے توبے اختیار کہہ اٹھتاہے ارے یہ تم نے کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟‘‘۔ربیعہ کنول لکھتی ہیں’’کسی کو ہماری آنکھیں پسند ہیں تو کوئی بالوں پر لٹو ہے مگر ہمیں اپنے کان پسند ہیں جو کسی کو نظر نہیں آتے اور کام کلاسیک کرتے ہیں۔‘‘احمد نعیم ہاشمی لکھتے ہیں’’میرا وزن اتنا کم ہے کہ خراب موسم میں باہر نکلنا ہو تو بیگم احتیاطاً چند پتھر جیب میں ڈال دیتی ہیں تاکہ توازن برقرار رہے‘‘۔معافیہ شیخ لکھتی ہیں’’کالے رنگ کا اور ہمارا ساتھ ازل کا ہے‘ یہ صرف چہرے تک محدود نہیں بلکہ اللہ کے فضل سے اس کا اثر زبان میں بھی پایا جاتاہے‘‘۔مریم ثمر لکھتی ہیں’’ہم نے کبھی پاس ہونے کی کوشش نہیں کی لیکن فیل بھی کبھی نہیں ہوئے‘‘۔خالد محمود چشتی لکھتے ہیں’’ناچیز کو خالد محمود چشتی کہتے ہیں لیکن یہ کوئی اہم بات نہیں کیونکہ دنیا والے ہر کسی کو کچھ نہ کچھ ضرور کہتے ہیں۔‘‘مریم جہانگیر لکھتی ہیں’’گھر میں عزت واجبی سی رہی لیکن باہر لوگوں نے ہمیشہ واہ واہ کی اسی لیے بندہ چاہے دروازے کے اندر لانے کے لائق بھی نہ ہو میں ہاتھ تھام کر کہتی‘ روٹی کھا کر جانا۔‘‘طارق عزیز لکھتے ہیں’’شادی کے بعد بیگم سے پہلے میرا پیٹ نکل آیا‘‘۔فرحین جمال لکھتی ہیں’’ہمارا خاندان پشت در پشت شاہی رہا‘ لیکن اِس دورِ پُرآشوب میں ‘ نوکرشاہی ہوگیا‘‘۔ ارشد محمود لکھتے ہیں’’میرا نام دیکھیں اور اس کا مطلب دیکھیں اور پھر مجھے دیکھیں‘ دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو۔‘‘امجد علی شاہ لکھتے ہیں’’ہر مرد ایک فرضی محبت کرتا ہے اور وہ شادی کہلاتی ہے‘‘۔
سچ پوچھئے تو’نقش پائے یوسفی‘‘ پڑھ کر مجھے شدید کم مائیگی کا احساس ہوا‘ کاش میں بھی اتنا اچھا مزاح لکھ سکتا۔۔۔!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔