کہتے ہیں جاپانی ایک بار پاکستان آئے اور ایک دور افتادہ قصبے میں جب انہوں نے اپنی بنائی ہوئی سوزوکی پک اپ کے اندر بیس آدمی بیٹھے ہوئے اور بیس ہی باہر لٹکے ہوئے دیکھے تو انہیں معلوم ہوا کہ انہوں نے کیا زبردست سواری بنائی ہے۔اسی طرح شاعر مشرق آج ہوتے تو اپنی شاعری کی نئی تفسیریں دیکھ کر ضرور کہتے کہ وہ جتنے بھی بڑے شاعر تھے ‘اہل پاکستان نے انہیں اس سے بھی بڑا شاعر بنا دیا ہے۔یہی مصرع دیکھیے ؎
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
ہم اہل پاکستان نے جو جہان نو پیدا کیا ہے اس میں صدیوں پرانے محاورے‘ضرب الامثال ‘کہاوتیں ،بجھارتیں ‘ سب کچھ بدل چکا ہے۔یہ جو کہا جاتا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے تو یہ غلط ثابت ہو چکا۔ہمارے ٹائیگر جنرل نیازی نے ڈھاکہ میں اس محاورے کو بدل کر دکھایا اور اب اس میں ذرہ بھر اشتباہ نہیں کہ گیدڑ کی سو سال کی زندگی شیر کی ایک دن کی بیکارلڑائی سے بھر پور زندگی سے کئی درجے بہتر ہے۔پہلے اصول کی خاطر زندگیاں قربان کر دی جاتی تھیں اب اصول وہ ہے جس سے کچھ وصول ہو۔قائد اعظم کے زمانے میں ہماری قومی عمارت کے بنیادی ستون تین تھے۔اتحاد‘ایمان اور تنظیم ،اب ہم نے چوتھا ستون بھی کھڑا کیا ہے اس کا عنوان ہے ’’گزارہ‘‘ یعنی ’’اتحاد‘ایمان‘تنظیم اور گزارہ‘‘۔گزارہ کا مطلب ہے کہ نظام بنانے کی چنداں ضرورت نہیں۔سسٹم جس کے تحت کام خود بخود ہوتے جائیں‘فضول تصور ہے۔سارا سلسلہ عارضی بنیادوں(ایڈہاک ازم)پر چلائیں۔اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک دیوار بہت بوسیدہ ہے‘اسے گرا کر نئی بنانے کی کسی کو فکر نہ ہو۔بس جہاں سے اینٹ گری‘وہاں اینٹ لگا دی‘جہاں سے گارا اکھڑا‘ وہاں گارے کا تھوبا ڈال دیا‘جہاں حوا کی کسی بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی‘حاکم اعلیٰ وہاں پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ ہم اندھیرے ختم کر دیں گے‘سسٹم بنانے یا بدلنے کا کوئی تصور نہیں‘جہاں خود پہنچ گئے‘پولیس نے مقدمہ درج کر دیا اور ملزموں کو پکڑ لیا جہاں نہ پہنچے ‘وہاں مظلوموں کو پکڑ لیا گیا۔
اس چوتھے ستون’’گزارہ‘‘ کی تابندہ ترین مثال دہشت گردوں کے بارے میں وفاق کی پالیسی ہے۔’’جہاں وہ حملہ کریں اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے‘‘یعنی جہاں وہ حملہ نہ کریں وہاں کسی ایکشن کی ضرورت نہیں۔بے شک پھلتے پھولتے رہیں۔پرامن بقائے باہمی کے اصول کا اطلاق اپوزیشن جماعتوں پر ہو نہ ہو‘ریاست کے مسلح باغیوں پر ضرور ہو۔گزارہ!
لیکن اس چوتھے ستون’’گزارہ‘‘کی بہترین مثال دو دن پیشتر دیکھی گئی اور پوری قوم نے دیکھی اور پڑھی۔سینئر کالم نگار جناب ہارون الرشید نے پندرہ مئی کو فریاد کی کہ اچ شریف کے گائوں لکھن بیلہ میں پرائمری سکول کے طلبہ کی تعداد ساڑھے تین سو ہے اور استاد صرف ایک!
’’گزارہ‘‘کا سنہری اصول حرکت میں آیا۔اسی دن ’’ایکشن‘‘ لیا گیا۔وزیر اعظم کے پریس سیکرٹری جناب محی الدین وانی نے سینئر کالم نگار کو پیغام بھیجا۔’’حکومتی پالیسی کے مطابق لکھن بیلہ سکول کے لیے 16مئی کو دو سرکاری اساتذہ کی منظوری دیدی گئی۔‘‘آپ نے نوٹ کیا؟’’حکومتی پالیسی کے مطابق‘‘ جی ہاں!حکومتی پالیسی کے عین مطابق!!حکومتی پالیسی کیا ہے؟کوئی شور مچائے تو کشکول میں کچھ ڈال دو۔نہیں تو چلنے دو۔ایہہ جہان مٹھا۔اگلا کِس ڈٹھا!
اس پر بھی غور کیجیے کہ یہ شعبہ پنجاب حکومت کا تھا لیکن ایکشن کی اطلاع وزیر اعظم کے پریس سیکرٹری دے رہے ہیں‘یعنی تو من شدی‘من تو شدم تا کس نگوید بعد ازین من دیگرم تو دیگری‘ حکمران خاندان تو ایک ہے!اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وفاق کی ذمہ داریاں چھوٹا بھائی پوری کر دے اور بڑے بھائی کا وفاق‘صوبے کا تعلیمی نظام سنبھال لے۔آخر پہلے بھی تو حاکم صوبہ کے صاحبزادے جو وفاق میں ایم این اے ہیں‘صوبہ پورے کا پورا چلا ہی رہے ہیں۔ فراق نے اسی صورت حال کو شعر کیا تھا ؎
بزم ساقی سے اٹھا ہے کوئی یوں رات گئے
پا بدست دگرے‘ دست بدست دگرے
یعنی پائوں دوسرے کے ہاتھ میں‘اور دوسروں کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں‘جیسے سوزوکی پک اپ میں ٹھنسے ہوئے مسافروں کو نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اپنا بازو کھجا رہے ہیں یا دوسرے کا بقول شاعر ع
مری باہیں تری باہیں‘ تری باہیں میری باہیں
اب جس نے بھی کام کرانا ہو ’’گزارہ‘‘اصول کے تحت کرائے۔چنانچہ ہے کوئی کالم نگار‘کوئی لکھاری؟کسی وزیر اعظم کا پریس سیکرٹری ؟جو ضلع اٹک تحصیل فتح جنگ کے گائوں جھنڈیال میں اس ڈسپنسری کے لیے صوبائی حکومت سے بجٹ دلوا دے جس کی منظوری کو 9سال ہو چکے ہیں ‘زمین محکمہ صحت کے نام منتقل ہو چکی ہے۔تعمیر کے لیے بجٹ روکے جانے کی دو ہی وجوہ تاحال محققین اور مورخین کو معلوم ہو سکی ہیں۔ یا تو اس لیے تعمیر نہیں کی جا رہی کہ منظوری اس وقت کی ضلعی حکومت نے دی تھی اور یہ ضلعی حکومت مسلم لیگ قاف کی تھی‘اور یا اس لیے کہ اس قریے کا تعلق جس کالم نگار سے ہے وہ صوبائی حکمرانوں کی گڈ بکس میں نہیں!!
جناب محی الدین وانی سے ان کے والد بشیر احمد وانی یاد آ گئے ۔اس کالم نگار کے دوست اور کرم فرما!شریف النفس اور دیانت دار، شائستہ اور یاروں کے یار’’اللہ تہاڈا بھلا کرے‘‘ان کا تکیہ کلام تھا۔سول سروس میں تھے کہ مڈ کیریر پر جان‘جان آفریں کے سپرد کر دی۔بیگم باہمت خاتون تھیں۔شوہر کے مشن کو مکمل کیا اور ہر بچے کو اس کی منزل تک پہنچایا ۔تین بچے سول سروس میں ہیں!
واپس‘’’اتحاد‘ایمان‘ تنظیم اور گزارہ ‘‘کی طرف پلٹتے ہیں!ادارے! کون سے ادارے؟ادارے تو ختم ہو گئے۔سسٹم ! کون سا سسٹم؟سسٹم جو فرنگی حکومت چھوڑ کر گئی تھی ،کرپشن اور نااہلی کی نذر ہو کر گر چکا۔ریلوے تو نظر آتی ہے اور سب کہہ رہے ہیں کہ جو نظام ریلوے کا ملا تھا‘ہم سے نہ چل سکا اور زمیں بوس ہونے کو ہے!لیکن جو ادارے باہر سے نظر نہیں آ رہے ‘وہ درجنوں ہیں۔اس سے بھی زیادہ!سب منہدم ہو گئے جس طرح پاکستان کا موجودہ شاہی خاندان ہر بیورو کریٹ کی تعیناتی یا ترقی کے وقت پوچھتا ہے کہ ’’ساڈا واقف اے؟‘‘اسی طرح جس شہری کا جس ادارے میں بھی کام ہو‘پہلے اپنے کسی واقف کو تلاش کرتا ہے!بچے کو سکول میں داخل کرانا ہے‘ٹیلی فون لگوانا ہے‘زمین یا پلاٹ یا مکان کا انتقال کرانا ہے۔گیس لگوانی ہے‘نئی گاڑی کی رجسٹریشن کرانی ہے‘کسی بھی شعبے سے آپ کا تعلق ہے ‘وکیل ہیں یا ڈاکٹر‘طالب علم ہیں یا پراپرٹی ڈیلر۔کوئی ایک کام بھی کسی کا سسٹم کے تحت نہیں ہو رہا ۔دو ہی راستے ہیں :روابط یا رشوت!تاجروں سے شکوے بھی بہت ہیں لیکن جس عذاب سے وہ ہر روز گزرتے ہیں اس کا بھی اندازہ لگانا چاہیے۔برآمد یا درآمدکرنے والوں سے پوچھیے‘ کتنے دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں اور کس کس کے کشکول میں کیا کیا ڈالنا پڑتا ہے۔ایک ایک دن میں کتنے سرکاری محکموں سے کتنے ’’بھکاری ‘‘ آتے ہیں، یہاں تک کہ تاجر چیخ اٹھتا ہے ؎
چنان بود درعمر من زندگانی
کہ درگور جان کندن و سخت جانی
زندگی یوں گزر رہی ہے جیسے قبر میں جان کو کوئی کھود رہا ہے!
ایڈہاک ازم!سارا ملک سارا سلسلہ ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے اور ایڈہاک ازم کا ترجمہ ایک دوست نے کیا مناسب کیا ہے :نقش برآب!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔