روس کی ایک بہت مقبول ملکہ ہوا کرتی تھیں یعنی ملکہ معظمہ ایکاترینا دوم ۔ انہوں نے اپنے لوگوں اور اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کیا اور بہت کچھ مزید کرنے کی کوشش کی۔ ماسکو میں آج تاریخی مسجد نام سے موسوم ماسکو کی پہلی مسجد تعمیر کرنے کی اجازت بھی انہیں نے دی تھی۔ وہ سلوک بین المذاہب کی بہت بڑی امین تھیں۔
مگر وہ جو کہتے ہیں کہ بادشاہ تو بادشاہ ہوتے ہیں۔ وہ تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ کر دو، وہ کر دو۔ ایسا ہونا چاہیے، ویسا ہونا چاہیے مگر کرنا تو سب کارپردازان حکومت نے ہوتا ہے اور اصراف بھی جمع خزانے سے کیا جانا ہوتا ہے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی جیبیں بھی بھرنی ہوتی ہیں۔ اپنی اور اپنے بادشاہ یا ملکہ کی شان و شوکت کو دوبالا کرنا نہیں تو کم از برقرار بھی ضرور رکھنا ہوتا ہے۔
تو ان ملکہ معظمہ کا ایک وزیر ہوا کرتا تھا۔ فیمیلی نام جن کا تھا پتومکین۔ وہ ملکہ کو سب اچھا بلکہ بہت اچھا کی رپورٹ دیا کرتے تھے۔ یہ بھی بتاتے تھے کہ بدعنوانی نام کو نہیں رہی۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتاجا رہا ہے۔ لوگ اتنے خوشحال ہو چکے ہیں کہ فراغت ہی فراغت ہے چنانچہ عیش کوش رہتے ہیں اور آپ کی بلندی اقبال کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔
ملکہ کبھی کبھار نکل کر دارالحکومت سینٹ پیٹرزبرگ گھوم لیا کرتی تھیں، جہاں فی الواقعی ترقی ہوئی تھی۔ کاروبار چل رہے تھے۔ لوگ خوش و خرم گھوما پھرا کرتے تھے مگر ایک روز ملکہ کے جی میں آئی کی باقی ملک بھی دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے حکم دے دیا کہ ان کے دریائی سفر کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ دریا کے کنارے بستیوں کے لوگوں کو بھی ہنستا کھیلتا دیکھ سکیں۔
کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے مگر یہ تو گسپادین ( عالی جناب ) پتومکین تھے، کورنش بجا لائے اور کہا جو حکم آپ کا مگر تین ہفتے تو لگیں گے ہی آپ کے شاندار سفر کا اہتمام و انصرام کرنے میں۔ ملکہ نے اجازت دے دی تو جناب پتومکین جت گئے کام کرنے میں ۔ جو پچاس سو میل کا ملکہ معظمہ کو چکر لگوانا تھا، وہاں تک دریا کے دونوں کناروں پر نقلی بستیوں کے شاندار سیٹ لگوائے گئے۔ کئی ہزار لوگوں کو اداکاری سکھائی گئی اور جب ملکہ سفر پر نکلیں تو ہر جانب کوشل منگل تھا۔ لوگ سروں پر پھول سجائے، مینڈولین کی دھن پر رقصاں تھے اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر ملکہ کے بیڑے کا استقبال کر رہے تھے۔
ملکہ اطمینان و تسکین سے محل لوٹیںتو ان کے پیچھے سیٹ ہٹا دیے گئے۔ اداکار بھگا دیے گئے۔ ان بستیوں کو آج "پتومکین بستیاں" کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ نقلی کروفر اور بھرپور کارکردگی یوں دکھانا کہ دیکھنے والا مطمئن ہوئے بنا نہ رہ پائے۔
لگتا ہے جیسے پاکستان کے لوگوں کی اکثریت کو بالعموم کارکردگی کی پتومکین بستیاں دکھا کر مطمئن کر دیا جاتا ہے پھر سبھی لوگ خود کو بادشاہ و ملکہ خیال کر لیتے ہونگے۔ یہ کھیل تب سے جاری ہے جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ اس وتیرے کی تازہ ترین مثال وزیر خارجہ سید شاہ محمود قریشی کا دورہ نیویارک ہے۔
ہم نے دنیا میں فعال ترین اور اہم ترین روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروو کی یہاں کے اخبارات پر ایسی ایک بھی تصویر نہیں دیکھی جیسی قریشی صاحب کی تصویروں سے پاکستانی اخبارات پٹے پڑے ہیں۔ قطر کے وزیر خارجہ پاکستانیوں کو ایک لاکھ ملازمتیں پیش کر رہے ہیں ( باقی بچیں 99 لاکھ ملازمتیں ) سعودی عرب کے وزیر خارجہ شاید خود قرض لے کر دس ارب ڈالر پاکستان کے خزانے میں ٹرانسفر کرنے کی یقین دہانی کروا رہے ہیں۔ یورپی یونین کی وزیر خارجہ بھی پاکستانیوں کے لیے ویزا کی پابندیاں ہٹائے جانے کا عندیہ دے رہی ہونگی، وغیرہ وٍغیرہ۔ قریشی صاحب ہیں کہ ہر ایک کے ساتھ تصویر ایسے بنوا رہے ہیں جیسے کوئی گمنام ادیب مشاہیر کو اپنی پہلی کتاب پیش کرتے ہوئے شاداں و فرحاں ہوتا ہے۔
ارے بھائی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کی گئی اہسی ملاقاتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی۔ یہ ملاقاتیں خیر سگالی کے ضمن میں آتی ہیں۔ ہر ملک کے نمائندے کی ایسی دو طرفہ ملاقاتیں ان کے پہنچنے سے پہلے طے ہوتی ہیں۔ پندرہ سے بیس منٹ کی ان ملاقاتوں میں پانچ منٹ تو تصویریں بنوانے اور حال احوال پوچھنے میں لگ جاتے ہیں۔ باقی دس پندرہ منٹ میں کچھ معاملات بارے ایک دوسرے کا موقف سنا سنایا جاتا ہے اور بس۔ ایسی ملاقاتوں سے متعلق عموما" رسمی بیانات دیے جاتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا پر ہندوستان کی وزیر خارجہ سشمیتا سوراج کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر کا ایک حصہ بہت وائرل ہوا ہوا ہے۔ یہ تقریر انہوں نے غالبا" پچھلے برس کی تھی۔ اس میں انہوں نے پاکستان کے خوب لتے لیے کہ ہمارا ملک آئی ٹی کا رہنما بن گیا اور آپ کا ملک بین الاقوامی دہشت گردی کا سرغنہ وغیرہ وغیرہ تو قریشی صاحب کو چاہیے کہ وہ تقریر سن کے جاتے اور اس کا جواب بھی اسی فورم پر جا کے دیتے مگر صاحب ہیں کہ ہمیں پتومکین بستیاں دکھائے جا رہے ہیں۔
یہ تو اچھا ہوا کہ ٹرمپ نے اپنی گمبھیر تھانیداروں ایسی تقریر میں سارے الزامات ایران پر عائد کر دیے اور ہمارے ملک کا نام نہ لیا مگر تعریف انہوں نے بہر طور ہندوستان، سعودی عرب اور اسرائیل کی ہی کی جس کا دوسرا مطلب ہمیں نظر انداز کرنا ہے۔ افغانستان کے تناظر میں بات کرتے ہوئے اشارتا" پاکستان کو بھی کان کروا دیے۔ قریشی صاحب میں ہمت ہوتی تو ٹرمپ کو جواب دیتے۔
حکومت پر کوئی تنقید کی جائے، کسی جانب توجہ دلائی جائے، کسی نوع کا مطالبہ کیا جائے تو ایک ہی جواب ہے کہ ہم تو ابھی آئے ہی ہیں۔ روز فیصلے کیے جاتے ہیں اور تیسرے روز تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ وزیر اطلاعات ایسے شخص کو مقرر کیا گیا ہے جو انتہائی ڈھیٹ "سپن ڈاکٹر " ہے۔ ان کے خیال میں لوگوں کو حکومت کی کہی اصل بات سمجھ ہی نہیں آتی وہ ہر بار نئی تشریح کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہ بھی پتومکین بستیاں دکھائے جانے کی ایک مثال ہے۔
ایسا بہت دیر نہیں چل پائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کہنے کو تو کہہ دیتے ہیں کہ اس کام کی بھی میں ذاتی طور پر نگرانی کروں گا اور اس کام کی بھی مگر ان کی آنکھوں پر تو ان خوشامدیوں اور جواز تراشوں کے گہرے سیاہ چشمے چڑھے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی روشنی ان کی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ انہیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہیں ورنہ یہ پتومکین ایسے وزراء شاہ محمود، فواد چوہدری، شیخ رشید وغیرہ ان کو گتے کی بنی بستیاں اور خوش ہوتے اداکار عوام دکھاتے چلے جائیں گے تاوقتیکہ بارش سے گتے گل نہ جائیں اور اداکار درختوں تلے پناہ لینے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ یاد رہے بارش آتے دیر نہیں لگا کرتی جو آنا"فانا" موسلا دھار ہو جایا کرتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...