نقد سفر
صاحبو !!
ھم نے جب…. کوٹ ادو…… سے بے تعلقی کے تعلق کو قائم رکھنے کے لئے رخت سفر باندھا تب اتوار کی ایک چمکیلی دوپہر تھی. اپریل کی 29 تاریخ تھی….. اماں بہشتن کہا کرتی تھیں کہ….. شالا لمۓ نہ جاویں وے…… مگر ابھے کی کملی جوانی کا زمانہ تھا…… دل کی بادشاہی کے دن تھے…… سسی کے دیس دیکھنے کی دعوت ملی .اتنا سنتے ہی پھول کر شیخ چلی ہو گیا اور لگا خیالی پلآؤ کے چاول محل اسارنے…….. رحیم یار خان سے تقریباً دس میل دور مشہور رومانی کردار سسی…. بھٹہ واہن میں کبھی رہتی تھی…… جنم بھومی تو عہد اکبری کے نامور عالم ملا مبارک کے تاریخی کردار, ابوالفضل اور فیضی (فرزندان ارجمند) کی بھی یہی بتای جاتی ہے مگر تب اپنےآپ کو خان پنل سے کم نہ جانتے تھے………. سسی تھل مارو دفنیساں….. میں لاثانی کردار بن گیی اور ایک دن لمے سے پٹھانی ابھے کی وسنیک بنی……. یہ صادق آباد کی کہانی ہے……..
زمانوں کی دھند سے ابھرتے افسانے…… چیچہ وطنی سے چلتے وقت بےنام اندیشوں کا زنگار کھرچ ڈالا اور تین گھنٹوں کے سبک رفتار سفر سے ملتان دستک دی تو جاوید اقبال سہو پابہ رکاب تھا….. ایک چپ کا چاقو ھم دونوں کے حلق میں پیوست تھا کہ زبان دے چکے تھے…. جس کی بات نہیں اس کی کوئ بات نہیں ہوتی…….. کوٹ ادو ابھی ایک سو میل سنگ مسافت کی مساحت پر تھا……
تسلیوں کی تھپکی کی پھکی میں کتنے ہی خیال راستے تھے…… دونوں جانگلی….. ابھیچٹر…… رچناوی دریاے چناب سے گزرے تو کچے گھٹرے کو آنسووں سے بھرتی سوچ کی صراحی میں ڈالا کہ زبان, بت طناز کی طرح دغا دے گیی…… اب کوئ صحرا نہ اونٹوں کی قطاریں.. بس کہیں کہیں کھجوروں کے دیپک راگ گاتے درخت….. ایک آدھ جگہ اپلے تھپی ایک خستہ دیوار داغوں کے لباس میں کھٹری نظر آی. کھیتوں میں کٹتے گندم کی بالیاں……… خنک بس میں العطش العطش کی طلب ہوئ تو میزبان دوشیزہ نے….. خبر…. دی کہ یہ سہولت اب نہیں مل سکتی کیونکہ کمپنی بہادر…… نے مظفر گٹرھ کے بعد یہ فیاضی کی بخشیش بند کردی ہے…….. درد کی بٹری ضرب اور کرب سے اس کربیلے اعلان کو سنا……….. کارپوریٹ کلچر تیزی سے .,Thank S less ness کی تربیت دے رہا ہے کہ لمے والے محرومیوں کی آکاس بیل بن رہے ہیں….. ان کا جرم یہی ہے کہ کوئ جرم نہیں ہے ورنہ یہ سہولت ادائیگی کے باوجود یہاں کے مسافروں سے چھینی نہ جاتی……… اے علی ٹریولز کے نو دولتیو!!
زندگی کو کربلا نہ بناؤ…….. جون کی دھوپ کی تیزی جیسا حکم واپس لو……..
جب بینائ ساون نے چرائ ہو تو سناٹے کی زبان کا پہرہ بے تحریر ھاتھوں میں تحریر دکھ بن جاتا ہے…….
ھم دونوں پیاس بھرا مشکیزہ لئے پریس کلب کوٹ ادو میں وارد ہوے تو بہت حد تک سوختنی ہو چکے تھے………….. اسلام آباد /راول پنڈی سے ھمارے مشترکہ فیس بکی فرینڈ اور 19 کتابوں کے مصنف. مؤلف اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ادبی وصحافتی شناخت نامہ……. جبار مرزا….. کوٹ ادو کو مری سمجھتے ہوے کوٹ سمیت مہمان خصوصی ہوتے دیکھا تو یاد آیا کہ انگریز سرکار اپنے ریکارڈ میں….. ادو کوٹ….. کیوں لکھا تھا ؟؟
کوٹ, ہندی زبان کا لفظ ہے جو, شہر پناہ, یا, چاردیواری, کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے……. مرزا صاحب کے اجداد کی اقلیم میں کوٹ ادو بھی شامل تھا…… بےشک انگریزوں نے ھاتھ کی صفائ دکھائ اور آباء ھاتھ ملتے رہ گئے مگر مرزا غالب ہوں یا جبار مرزا…. اردو ہے جس کانام…… وابستگی کے کوٹ پر اخلاص کے پھول انہی کو سجتے ہیں……. اسی لئے تو خاکی وردی یعنی خاکی کاغذ میں خاکسار کے لئے منظوم تاریخ زبان اردو از عبدالحفیظ خان اشکی بھوپالی (برادر اکبر محسن پاکستان) خاص طور پر لاے کہ کیتا قول قرار……… صدر صدر نشیں…… تھل میں ادب کے سلطان پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین تھے….. اردو میں علم بیان اور علم بدیع کے مباحث…… جیسے وقیع موضوع پر پی. ایچ. ڈی کی ڈگری کو توقیر بخشی…… تحقیق تنقید کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان کو ادبی شناخت دینے کے لئے قابل توجہ مکالمہ کو خرد افروزی کے لئے نشان امتیاز بنا رہے ہیں….. دو کتابیں میرے لئے بطور خاص لاے اور ایک سال پہلے تین کتابوں سے علمی ضیافت کو جوے شہد غزل بنایا………. شکریہ ابھی تک ادا نہیں کیا کہ ھل من مزید کا کشکول بھرا نہیں……….. نسیم سحر کی باد بہاری…. اقتدار کے اصل مرکز پنڈی سے زینت تقریب بنی کہ دیار دل میں بٹرا احترام ہے تیرا…….. مدتوں دیار عرب کے ریگزاروں میں اردو کو سرسبز و شاداب جزیرہ بنایا…… تبرک کے چھواروں کی طرح ادب کی خوشبو تقسیم کی….. کیی موقر کتابوں کے مصنف اور نعت کو توشہ خاص سمجھنے والے دیدہ بینا کے ساتھ ساتھ واحد خاتون ناول نگار…. چھ کتابوں کی مصنفہ…. جنابہ دردانہ نوشین خان سمٹی سمٹای رونق بزم تھیں جنہیں تقریب کی مناسبت سے وقت نے پھر دلہن بنا دیا تھا کہ سب ان کی پزیرائ کے لئے چنیدہ احباب کو سحاب بنا دیا گیا تھا……………….. نقیب اجلاس نے جب فقیر رھگزر کو بھی مسند نشینوں میں کرسی نشین ہونے کا فرمایا تو اللہ جانتا ہے کہ میں زھنی طور پر قطعا تیار نہ تھا….. ..مجید امجد یاد آے جو کسی زمانے میں….. مظفر گٹرھ اور لیہ…… میں بھی فوڈ انسپکٹر رہے
میں اجنبی, میں بے نشاں
میں پابہ گل!!
نہ رفعت مقام ہے, نہ شہرت دوام ہے
یہ لوح دل! یہ لوح دل
نہ اس پہ کوئ نقش ہے,. نہ اس پہ کوئ نام ہے
…………………. سلگتی ہوئ گیلی لکٹری کی طرح ایک کونہ میں روسٹرم کے پیچھے سمٹاؤ کیا………..
…………………………………….
صاحبو!!
اس طرح کی تقاریب میں گفتگو…. فرمایشی… آرائشی… نمائشی اور مصنوعی سمجھی جاتی ہے…. جب کہ ایک کثیر تعداد ایسی تقاریب کو لکھاری کے لئے تازہ آکسیجن سمجھتی ہے….. تحسین سخن شناسی زندوں کو اور زندگی دیتی ہے ورنہ مرگیے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا… کاغزی پھول بن جاتے ہیں…………… ھم کسی کے ادبی مزارع نہیں اسلیے کہتے ہیں وہی بات سمجھتے ہیں جسے حق
یہ تقریب شاندار ,جاندار تھی…… صاحبہ تقریب نے اپنا بنا کے چھوٹر دیا تو مختصر وقفہ کے بعد ایک غیر رسمی اور بے ساختہ…… ادب کے تاروں کی بارات صحن دل میں خوشبو پھیلا گیی………… میں تو ازل سے لے کر اب تک دھوپ اوٹرھ کر, کبھی برف پہن کر سانس لینے کا قرض ادا کر رہا ہوں………. یہ قرض محبت آج اتارنے کی کوشش کی……. قلب مضطرب, کیلنڈر کے حساب سے نہیں چلتا اور نہ ہی ڈایریوں میں مقید ہوتا ہے…… ان کا نک سک واضح نہیں ہوتا………
عمران میر…… خوش کلام نے کہا کہ میری خواہش کہ تمہیں پھولوں سے فتح کروں…… پھول چہرہ سخن وروں نے ہمیں خرید لیا………. تھل کی اصلی…. سچی اور سچی شاعری کو ساحری میں بدلتے دیکھا کہ ایک جہان آ رزو ان کی سواگت کو آیا………….. عمران میر…….. شوکت عاجز…. مختار مخلص……. شبیر شرر…… جاوید باقی…… منظور انگٹرا……. عمران راکب…… حیدر شیراز……. سید نوازش علی نوازش…… دلبر حسین مولای…………
عمدہ شاعری کی اساتزہ نے پہچان بتای تھی کہ…… از دل خیزد بر دل ریزد……….. سمجھ اب آ ی……
دکھ کے لہجے میں لپٹی ہوئ خوش بیانی….. جیسے دل میں کنکر سے چبھے ہوے تھے………. اصلی شاعری جو عوام کے درمیان میں سے آی تھی اور عوام سے کلام کرنا جانتی تھی………. رومان پرور انقلابی شاعری……. جن کی آواز میں جیسے ہولے سے باد نسیم چلتی ہے, وہ روانی بھی تھی اور ایک بے دریغ بلند اھنگی بھی, بگولوں کی مانند اٹھتی دلوں پر اثر کرتی ہے……………. پروفیسر عمران میر……… تھل کی کوک میرے ہوک اور سسکاری بن چکی ہے……….. میری زبان…. میرا دل…. میرے ھاتھ ان اصل آ واز وں کو سلام محبت پیش کرتے ہیں………. خواجہ فرید لٹریری فورم کوٹ ادو کو نزرانہ اشک پیش کرتے ہیں…… سمے سمے کی بات ہے کہ یہ بیت الغزل تقریب ھمارے لئے پھولوں کی سیج بن گئ………….. ھم نہ تین میں نہ تیرہ میں……. صرف پدرم شاعر بود……. لیکن اتنی محبت کہ آٹو گراف لینے کو ارمغان سمجھیں……….
رخصت کے رخساروں پر آنسو بن کر گرتے لمحے کے ھاتھوں میں اپنے ہونے کا آینہ دینے والو ,. میں دل کی گہرائ جس کی پیمائش ممکن نہیں, سے شکریہ ادا کر تا ہوں………… گھوکدے رھو
.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“