نقدونظر
نظم
محترم شہزاد نیر
گفتگو
احمدمنیب۔
شہزاد نیر ایک نفیس اور منظم انسان، بہترین اخلاق و آداب کی حامل شخصیت، خوب صورت لہجہ کے شاعر کا نام!
آپ نے یہ نظم اس عاجز کے ان باکس میں ارسال فرمائی ہے جس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی خواہش ہے کہ میں اس پر کچھ عرض کروں۔
سچ پوچھیں تو آپ کی اس نظم نے ایک میٹھی سی کسک دل میں پیدا کی اور نوک قلم قرطاسِ ابیض پر الفاظ کاڑھنے لگا۔
یہ نظم ایسا بخیہ ہے کہ آنکھیں گلاب گالوں پر آنسووں کا عرق نچوڑنے لگتی ہیں۔
نیویارک یا لندن کی یخ بستہ رات کے ایسے منظر کا میں عینی شاہد ہوں اور اُس وقت میری سوچ بھی تیسری دنیا کے ممالک کی جُھگیوں میں بسنے والی رانیوں ، راجوں، شہزادیوں اور شہزادوں کی طرف مبذول ہو جایا کرتی ہے۔
یہ ہر اس شاعر اور ادیب کی بپتا ہے جو ایک دردمند دل اور حساس طبیعت کا مالک ہو۔
جس کا دل متمول لوگوں کو دیکھ کر غربا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہو اور پھر اللہ نے اس کو یہ ملکہ بھی عطا کیا ہو کہ وہ اپنےدرد کو نثر یا نظم کی صورت بیان کر دے۔ سوچنا تو ان کے بارہ میں ہے جنہیں یہ ملکہ بھی نہیں!
اب آئیے اس نظم کے مترشحات کی طرف۔ سب سے پہلے عرض کر دوں کہ میری کسی بھی بات سے اتفاق کرنا آپ کے لیے ضروری نہیں ہے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ عنوان ہے یہ نظم لندن میں کہی گئی تھی!
حالانکہ پہلے مصرع میں گرائے ہوں گے کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ نظم تخیلاتی ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں یہ عنوان ہٹا دینا چاہیے کیوں کہ نظم کا تخیلاتی ہونا زیادہ زورآور ہے۔
پھول ہاتھوں میں کئی پھول،
بہت خوبصورت جملہ ہے جس کا اپنا ہی لطف ہے۔
مگر تیرے نہیں اجنبی ہاتھ
کا کوئی قرینہ نظر نہیں آ رہا۔
اپنے پیاروں کی بہاروں میں چلے جاتے ہیں اس کی سمجھ نہیں آئی۔
تیرے چہرے سے نظر پھول پہ یوں کرتے ہیں جیسے تو پھول نہیں معذرت کے ساتھ عرض داشتم کہ تخیل پر الفاظ کی گرفت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔
تیسرے درجہ کی دنیا ہو کہ پہلی دنیا
پہلی دنیا سے مراد پہلے درجہ کی دنیا ہے لیکن یہاں پہلی دنیا سے مراد قدیم زمانہ کی دنیا لگ رہی ہے نہ کہ پہلے درجہ کی دنیا۔ بہرحال دونوں میں سے کوئی بھی معنی لے لیں اگلا جملہ دونوں پر صادق آتا ہے جو بہت خوب صورت اور المناک حقیقت پر مبنی ہے کہ
زر کی تلوار وہی
مفلسی اس طرح وار کیا کرتی ہے ایک پرویا ہوا مصرع ہے۔ مبارکباد کا مستحق!
نظم کا اگلا بند بہت گہری کسک لیے ہوئے ہے لیکن آخری جملہ نے ذرا سا کمزور کر دیا جس کی لفظی بُنت میں کوئی کمی سی لگتی ہے یعنی جو امیروں کے لیے آگ جلاتی رہتی! مصرع تشنہء الفاظ لگ رہا ہے۔
کتنا چاہا ہے میں بھی وہی نامکمل جملہ سازی کا عنصر در آیا ہے اگر اسے یوں کر لیا جائے کہ کتنا دل چاہا کہ تو مکمل ہو کر لوب صورت ہو جائے گا۔
آج کی شام کا بازار مرے ہاتھوں سے میں مرے ہاتھوں سے کو دہرایا نہ جائے تو زیادہ مزا آئے گا مری تجویز یہ ہے کہ اسے یوں کر لیں آج کی شام کا بازار مرے جذبوں سے
دھوپ کے ساتھ کہیں اور پھسل جائے گا کیونکہ پھول اور بازار تو واحد استعمال ہوا ہے۔
مجموعی طور پر نفسِ مضمون کے اعتبار سے بہت پیاری اور عین حقیقت نظم کی ہے جس نے دل میں درد بھی پیدا کیا اور احساس کے تار بھی چھیڑے ہیں۔ مبارکباد قبول ہو۔
دعاگو
احمدمنیب
15فروری 2019