بچے فلک بوس عمارتوں میں مقیم ہوں یا جھونپڑیوں میں پرورش پانے والے، سبھی میٹھی لوریوں کے منتظر رہتے ہیں ۔یہ ایسے گیت، شاعرانہ کلام یا لوک کتھائیں ہوتی ہیں جن میں امی کی ممتا، باجی کی شفقت، اپیا کا دُلار، دادی نانی کے نیک جذبات شامل ہوتے ہیں۔اِنھیں ہلکے سُروں میں گا گا کر روتے بچوں کو بہلایا جاتا ہے۔
ابن ہشام سیرت کی پہلی کتاب میں درج ہے کہ آپ صلی الله عليه وسلم کے بچپن کا واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ سیدہ شیما آپ صلی الله عليه وسلم کی رضاعی بہن آپ صلی الله عليه وسلم کو اپنی گود میں سمیٹتیں اور جھومتے ہوئے لوری گاتیں۔عربی زبان کی اس لوری کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ
” اے ہمارے رب! میرے بھائی محمد صلی الله عليه وسلم کو سلامت رکھنا۔آج یہ پالنے میں بچوں کا سردار ہے کل وہ جوانوں کا سردار بھی ہوگا۔” وہ گاتیں اور جھوم جھوم جاتیں۔
ماہرین یہ کہتے ہیں کہ حمل کے 24 ویں ہفتے میں بچہ ماں کی آواز سننے لگتا ہے۔روس میں ماہریں اطفال مائیکل یزاریو کہتے ہیں کہ ” ماں کی آواز پل کی طرح ہوتی ہے جو یوٹریس میں بچے کو باہر کی دنیا سے جوڑتی ہے۔”
بقول گوڈارڈ ہلیتھ ” ماں اور بچے کے درمیان بات چیت یہی لوریاں ہوتی ہیں ۔بچوں میں تال اور سُر کو سمجھنے کی انوکھی صلاحیت ہوتی ہے۔
لوری گانے کی تاریخ 2 ہزار قبل مسیح تک لے جاتی ہے۔جسے مٹی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر تحریر کیا گیا تھا۔محکمہء آثار قدیمہ نے اسے دستیاب کیا اور اسے لندن کی برٹش میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ہتھیلی کے برابر اس مٹی کے ٹکڑے پر موجود تحریر ” کیو نیفارم سکرپٹ ” میں ہے۔جسے لکھائی کے ابتدائی اشکال سے سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب کچھ یوں ہے کہ
” جب بچہ روتا ہے تو گھروں کا خدا ناراض ہو جاتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ خطرناک ہوتا ہے۔’
ان دنوں لوریوں میں خوف اور ڈر کا عنصر غالب رہتا تھا۔ بچے کو کسی ان دیکھی مخلوق یا جنگلی جانور سے ڈرایا جاتا تھا۔اس کی ایک مثال کینیا کی لوری ہے جس میں بچے کو لکڑبگھے سے ڈرایا جاتا تھا جو ان کا دیوتا تھا۔
جنوبی ایشیاء کی لوریوں میں محبت اور دعائیہ کلمات ملتے ہیں اور کہیں صرف صوتی آوازیں اوں۔۔اوں۔۔ہوں ۔ہوں۔۔آہا آہا۔۔
چار ہزار سال قبل عراق میں بابِل کی تہذیب میں بھی اس کی بازگشت گونجی تھی ۔موسیقار ذوی یامر نے بتایا کہ لوگ ان میں بچوں کو نصیحت کرتے تھے کہ ” بہت شور کر چکے، اب بری روحیں جاگ جائیں گی اگر نہ سوئے تو تمہیں کھا جائیں گی ۔”
برطانیہ کی مائیں ” راک اے بائی بےبی ” نامی لوری گاتی تھیں جس میں بھی خوف کا عنصر پایا جاتا ہے۔کچھ لوریاں ملک کی تاریخ کو دُہراتی ہیں ذوئی پامر ایک موسیقار ہیں جو لندن میں رائل اسپتال میں وہاں موجود ماؤں کو لوریاں سکھا رہے ہیں ۔ان ماؤں کا تعلق بھارت، بنگلہ دیش، چین، اٹلی، اسپین، فرانس اور مشرقی یورپ سے ہے۔
اردو زبان میں لوریاں لکھی گئی ہیں۔” جھولنا” جس کی مثال ہے۔1870 میں برطانوی ہند میں ایک انگریز سرجن جنرل ایڈورڈ بالفور نے اردو زبان میں لوری نامہ شائع کیا تھا۔جو اس صنف کا سب سے پہلا مجموعہ تھا۔34 صفحات پر 18 لوریاں لکھی گئی تھیں۔
بالی وڈ Bollywood کی فلموں نے بھی اسے کمال کے درجے پر پہنچایا 1951 کی فلم
” البیلا” کی لوری جو راجندر کرشن نے لکھی تھی اور رام۔چندرا نے موسیقی سے نوازا تھا، لتا منگیشکر نے اپنی دلکش آواز میں اسے گایا تھا، آج بھی یاد کی جاتی ہے
” دھیرے سے آ جا ری انکھین میں نندیا آجاری آجا دھیرے سے آجا
چپکے سے نینن کی بگین میں نندیا آجاری آجا، دھیرے سے آ جا”
اسی طرح لالی وڈ کی فلم ” نوکر ” میں قتیل شفائی کی لوری جسےجی ۔اے چشتی نے موسیقی سے سجایا اور کوثر پروین نے گایا تھا بھی مقبول ہوئی تھی ۔
” راج دُلارے تو ہے، دل میں بساؤں، تو ہے گیت سناؤں
میری انکھیوں کے تارے، میں تو واری واری جاؤں ”
اسی طرح فلم ” کبھی کبھی میں ساحر لدھیانوی کی لوری میں ” میرے گھر آئی ایک ننھی پری” کو موسیقار خیام نے اپنی دھنوں سے سجایا تھا۔
فلم سجاتا کی لوری ” ننھی پری سونے چلی ہوا دھیرے آنا” مجروح سلطان پوری کے زور قلم اور آر ڈی برمن کی دھنوں کا ثمرہ ہے جسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امی کے بجائے ابا نے بھی لوری گائی ہو اس کی مثال فلم “مکتی” میں
” للا للا لوری دودھ کی کٹوری
دودھ میں بتاشہ
منی کرے تماشہ” آج بھی دہرائی جاتی ہے۔
اسی طرح
” چندا ہے تو میرا سورج ہے تو
او میری آنکھوں کا تارہ ہے تو
خواتین یاد کرتی ہیں۔
آج بھی لوریاں گائی جاتی ہیں لیکن نسبتاً کم ضرور ہو گئی ہیں ۔اس کے یہ معنی نہیں کہ بچوں نے رونا کم کر دیا یا سوتے نہیں بلکہ واقعتاً سچائی یہی ہے کہ موبائل نے اس کی اہمیت کو کم کر دیا ہے۔ماؤں کے پاس لوریاں گانے کا وقت نہیں، مصروفیت جو بڑھ گئی ہے ۔بہر حال پھر بھی کچھ جیالے ہیں جنھوں نے ادب کے اس منظوم کلام پر صرف نحو کیا ہے اور اس روایت کو زندہ رکھنے کی ایک بہترین کوشش کی ہے جس، میں محترم فاروق سید بھائی نے لوریوں کے جوبن میں گل بوٹے سجائے ہیں وہیں محترم المقام الیاس صدیقی سر ۔۔مالیگاؤں کی ایک لوری میں صنوبر پری کی نئ اصطلاح سے نوازا ہے۔جیوتسنا راجیوریا اور شیو راجیوریا کی جگل بندی نے رات کا سماں باندھ دیا ہے۔
را را ری رارا ری را۔۔را را ری راراری را۔۔۔
منی کی آنکھوں میں کاجل کی ڈوری
ننھے سے ہاتھوں میں گھی کی کٹوری
آئی ہے لے کر صنوبر پری
سوجا میری لاڈلی۔
اسی طرح معزز سراج عظیم بھائی کے بچپن گروپ پر بھی کئ قابل قدر ساتھیوں نے لوریوں کی روایت کو قائم کیا ہے۔
اکثر لوریوں میں منی کا ہی ذکر ہوتا ہے لیکن ملاحظہ فرمائیں یہ گجراتی لوری
مارا دِکرا
ننیندر بھری رے گُلالے بھری
مارا لاڈکانی آنکھڑی بھری
مارا دِکرانی انکھڑی نیندر بھری
مراٹھی لوری چاند سے باتیں کرتی کہتی ہے کہ
چاندوبا بھاگلاس کا
نمبوڈی سا جھاڑیا مدھے لپلاس کا؟
راجستھانی لوری
سوجا سوجا ننڈلی رانی
بھری مونیا نے دعا دے
سکھ سے تو آجا رے
پنجابی ماں نے کہا
گُھلّے مُنّا سوندھا ہے
سوندھے سوندھے بھوک لگی
کھالے پُتر مونگ پھلی
ایک انگریزی لوری کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ
ًHush little one, don’t say a word
Moma’s gonna buy u a mocking bird
And if that mocking bird don’t sing
Momma’s gonna buy u a diamond ring
گھر گھر کی زینت اس لوری کے دعائیہ کلمات اور ماں کے جذبات
لا الہ اللہ۔۔اللہ اللہ کی باتیں بڑی
میرے موسیٰ کی حیاتی بڑی
اللہ اللہ اللہ اللہ۔۔اللہ اللہ اللہ اللہ۔
سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم
اللہ اکبر اللہ اکبر ۔۔لا الہٰ اللہ۔
اللہ اکبر ۔۔اللہ اکبر وللہ الحمد۔
بہترین دعائیہ کلمات اگر ماں ادا کرے تب بچہ اور ماں دونوں نیکی کے مستحق ہو جاتے ہیں۔
وقت ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ کچھ بھولا کچھ یاد رہا ، اس صنف کو فراموش نہ کر اسے اس کے مقام سے نوازیں۔
شکریہ