ہسپانوی افسانہ
( 1942, Funes el memorioso )
خورخے لوئیس بورخیس (Jorge Luis Borges)
مترجم کا نوٹ
دماغ میں لگی چوٹ کیا گُل کھلائے گی اس کا پتہ فوراً نہیں چلتا ۔ پتہ چلتا ہے بعد میں ، کبھی جلدی اور کبھی دیر سے ۔ میں نے پچھلے دنوں برطانوی نژاد امریکی سکرین رائٹر ، ٹی وی پروڈیوسر و ہدایت کار اور ادیب جوناتھن نولن کے افسانے ’ مومینٹو موری ‘ ( Memento Mori ) کا ترجمہ کیا تھا جس کا مرکزی کردار تب دماغی چوٹ کھاتا ہے ، جب وہ اپنی بیوی کو بلادکار و قتل ہونے سے بچانا چاہتا ہے اور حملہ آور کی مزاحمت کرتا ہے جو اسے دماغ پر ضرب لگا کر بیہوش کر دیتا ہے ۔ یہ کردار جب ہوش میں آتا ہے تو اس کی یادداشت نہ صرف اپنی بیوی کے بلادکار و قتل پر ہی منجمد ہوجاتی ہے بلکہ وہ نئی یادداشتیں بھی نہیں بنا سکتا اور اسے ہر بات فقط دس منٹ تک ہی یاد رہتی ہے ۔ اسے طب کی زبان میں ‘ anterograde amnesia ‘ کہا جاتا ہے ۔
اس وقت آپ جو افسانہ پڑھنے جا رہے ہیں اس کا تعلق بھی ایسی ہی ایک دماغی چوٹ سے ہے جو ‘ anterograde amnesia ‘ تو نہیں کرتی لیکن کچھ ایسی انہونی ضرور کر دیتی ہے جس کا بیان افسانے میں موجود ہے ۔
یہ افسانہ ارجنٹینی نژاد سوئس ادیب خورخے لوئیس بورخیس (Jorge Luis Borges) نے 1942ء میں لکھا تھا اور یہ پہلی بار ہسپانوی زبان میں ارجنٹینا کے قدامت پسند اخبار ’ La Nación ‘ میں ماہ جون میں شائع ہوا تھا ۔ 1944 ء میں یہ بورخیس کے افسانوں کے مجموعے ’ Ficciones ‘ ، جلد دوم میں شائع ہوا ۔ اس کا پہلا انگریزی ترجمہ 1954 ء میں سامنے آیا تھا ۔
یوں تو خورخے لوئیس بورخیس ( اگست 1899 ء ۔ جون 1986 ء ) ہسپانوی زبان اور عالمی ادب کا ایک بڑا نام ہے ۔ وہ ادیب شاعر اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا مترجم بھی تھا لیکن اس نے سیاسی اور سماجی طور پر بلکہ نظریات کے اعتبار سے بھی اتنے پلٹے کھائے کہ اسے نہ تو آمر و فاشسٹ پسند کرتے تھے ، نہ قدامت پسند ، نہ جمہورہت پسند اور نہ ہی اشتراکی بلکہ شاید وہ انارکسٹوں میں بھی ناپسندیدہ گردانا جاتا تھا ۔ اس کے ، اگر کوئی قدردان تھے اور ہیں تو وہ لوگ تھے اور ہیں جو ” ادب برائے ادب “ کے قائل تھے اور ہیں ۔ شاید ، اس کی شخصیت کی یہی پلٹے بازیاں تھیں کہ اسے ادب کے نوبل انعام کا حقدار نہ ٹھہرایا گیا جس کا اسے قلق بھی تھا ۔
مجھے بورخیس کچھ زیادہ پسند نہیں ہے ، کیوں ؟ اس کے لیے مجھے اس پر الگ سے مضمون لکھنا پڑے گا فی الحال تو اس کا یہ افسانہ پڑھیں جسے میں نے ترجمے کے لیے فقط اس لیے چُنا ہے کہ یہ دماغ میں لگی چوٹ کا ایک اور ہی رنگ دکھاتا ہے ۔
************************
میں اسے یاد کرتا ہوں ، ( گو مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ میں اس مقدس فعل ’ یاد کرنا ‘ کو برتوں جسے برتنے کا حق اس دھرتی پر صرف ایک بندے کو تھا ، جو مر چکا ہے ) ؛ اس کے ہاتھ میں کالا گل ِصلیبی ہوتا اور وہ اسے ایسے دیکھتا جیسے کبھی کسی اور نے نہ دیکھا تھا ؛ وہ شاید اسے صبح کے جھٹپٹے سے لے کر شام کے دھندلکے تک دیکھتا رہتا یا شاید وہ ساری زندگی ہی اسے دیکھتا رہا تھا ۔ میں اسے یاد کرتا ہوں ؛ سگریٹ کے پیچھے موجود اس کے چہرے کو ، جو انڈین لوگوں جیسا تھا ؛ وہ کم گو تھا ؛ وہ الگ تھلگ رہتا اوردوسروں سے کم ہی واسطہ رکھتا ۔ میں یاد کرتا ہوں ( میرا خیال ہے ) ؛ اس کے کونیی ہاتھ بالوں بھرے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے ہاتھوں کے ساتھ لوکی نما بازو تھے جن پر یوراگوائے کے’ کورٹ آرمز‘ کا نشان موجود تھا ؛ مجھے یاد ہے کہ اس کے گھر کی کھڑکی کے زرد پردے کے باہر جھیل کا ایک مبہم نظارا موجود تھا ۔ مجھے واضح طور پر اس کی آواز بھی یاد ہے ؛ وہ آہستہ بولتا تھا اور اس کی آواز میں گِلا ہوتا ، ناک سے نکلتی اس آواز سے یہ احساس ہوتا جیسے یہ کسی دیہات کے قدیم باسی کے منہ نکل رہی ہو اور جس میں وہ اطالوی سسکاری موجود نہ ہو جو اب ہماری آواز میں ہوتی ہے ۔
میں نے اسے تین سے زیادہ بار نہیں دیکھا تھا ؛ اور آخری بار یہ 1887 ء کا سال تھا ۔ ۔ ۔ میرے لیے یہ زیادہ باعث اطمینا ن ہوتا اگر وہ سب ، جو اسے جانتے تھے ، اس کے بارے میں لکھیں ؛ اس کے بارے میں میرا بیان شاید سب سے مختصر ہو گا اور سب سے بھدا بھی ، لیکن اس میں ایسی کوئی جانب داری نہیں ہو گی کہ اسے کانٹ چھانٹ کی ضرورت پیش آئے ۔ میری عام سی ارجینٹینی حیثیت ، مجھے اس بات سے باز رکھے گی کہ میں اُس جوشیلی اور پُرجوش مناجات میں پڑوں جو یوراگوائے میں ایک لازمی صنف گردانی جاتی ہے ، جبکہ موضوع بھی ایک یوراگوائی بندے کے بارے میں ہو ۔ ’عقل کُل‘ ، ’ شہری بابو‘ ،’ ڈوڈ ‘ ؛ فیونز جذبات کو مجروح کرنے والے اس طرح کے الفاظ کبھی نہیں بولتا تھا ، لیکن مجھے یقین ہے کہ میں اس کے بارے میں ایسی ہی بدتمیزیاں کرتا رہا ہوں ۔’ پیڈرو لینڈرو اپوچی ‘ نے لکھا ہے کہ فیونز سپر مین کا ایک پیش رو تھا ، ” ۔ ۔ ۔ ایک دیسی زرتشتی پیغمبر “ تھا ؛ میں اس نکتے پر بحث نہیں کروں گا ، لیکن بندے کو یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ وہ ’ فرے بینٹوس‘ کا ایک ایسا بچہ تھا جوکچھ مخصوص لاعلاج مسائل کا شکار تھا ۔
فیونز کے بارے میں میری پہلی یادداشت بہت واضح ہے ۔ میں 1884 ء کے فروری یا مارچ کے مہینے کی ایک دوپہر کو دیکھ سکتا ہوں ۔ میرے والد ، اس برس گرمیاں گزارنے کے لیے ، فرے بینٹوس گئے تو مجھے ساتھ لے گئے ۔ میں اپنے عم زاد ’ برنارڈو ہیڈو ‘ کے ہمراہ ، سان فرانسسکو باڑے ( رینچ ) سے لوٹ رہا تھا ۔ ہم گھوڑوں پر آگے بڑھتے ہوئے گاتے بھی جا رہے تھے ؛ میری خوشی کی وجہ صرف یہی نہ تھی کہ میں گھڑ سواری کر رہا تھا ۔ ایک حبس بھرے دن کے بعد آسمان میں ایک سلیٹی رنگا ایک بڑاطوفان چھپا ہوا تھا اور جنوبی ہوا کے چلنے سے درخت بے قابو ہو نے لگے تھے ؛ مجھے ڈر تھا (مجھے امید تھی ) کہ اس کھلی جگہ پر بارش ہمیں اچانک آ لے گی ۔ ہم ایک طرح سے طوفان کے ساتھ دوڑ لگا رہے تھے ۔ ہم ایک تنگ گلی میں داخل ہوئے جو نیچے اتر رہی تھی اور جس میں دونوں طرف اینٹوں سے بنے پیدل چلنے کے راستے بھی تھے ۔ ایک دم اندھیرا چھا گیا ؛ میں نے اوپر کی طرف ، تیزی مگر خاموشی سے اٹھتے قدموں کی چاپ سنی ؛ میں نے نظریں اوپر کیں اورمیں نے ایک لڑکے کو تنگ اور ٹوٹے پھوٹے فٹ پاتھ پر دوڑتے دیکھا ؛ فٹ پاتھ جو ایک ٹوٹی ہوئی پتلی دیوار کی مانند لگ رہا تھا ۔ مجھے اس کی ڈھیلی ڈھالی ’ گائوچو‘ ( کاﺅ بوائے ) پتلون اور بٹی ہوئی رسی کے تلووں والے جوتے یاد ہیں ، مجھے اس کا سخت چہرہ اور منہ میں دبا سگریٹ بھی یاد ہے جس کے پیچھے طوفانی بادل دور دور تک پھیلے ہوئے تھے ۔ برنارڈو اچانک اس پر چلایا ؛ ” ارینیو ، کیا وقت ہوا ہے ؟ “ ، اس نے آسمان کو دیکھے بغیر اور رُکے بِنا ، جواب دیا ؛ ” ارے جوان ، برنارڈو جوآن فرانسسکو ، آٹھ بجنے میں ابھی چار منٹ ہیں ۔“ ، اس کی آواز تیزچیخ جیسی تھی اور اس میں تمسخر بھی تھا ۔
میں کچھ زیادہ سمجھدار نہیں ہوں کہ اس کا کہا جملہ میری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا اگر میرا عم زاد اس پر زور نہ دیتا ؛ میرا عم زاد ، مجھے یقین ہے ، مخصوص مقامی فخر سے چِڑا تھا اور وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ اسے دوسروں کے ایسے دوٹوک جوابوں میں دلچسپی نہ تھی ۔
بعد ازاں ، اس نے مجھے بتایا کہ گلی میں جو ہمیں ملا تھا وہ ’ ارینیو فیونز ‘ تھا جو اپنی مخصوص عادات کی وجہ سے جانا جاتا تھا ؛ وہ لوگوں سے کم کم ہی ملتا تھا اورایک گھڑی کی مانند ، اسے ہر وقت یہ معلوم ہوتا تھا کہ کیا بجا تھا ۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ قصبے میں کپڑے استری کرنے والی ، ’ماریا کلیمینٹینا فیونز‘ کا بیٹا تھا اور کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کا باپ ، گوشت کو ڈبوں میں بند کرنے والوں کے ہاں ایک ڈاکٹر تھا ۔ وہ ایک انگریز تھا اور اس کا نام ’ او ، کارنر ‘ تھا ۔ اس کے برعکس دوسرے یہ کہتے تھے کہ وہ گھوڑے سِدھایا کرتا تھا یا شاید ’ سالٹو‘ ضلع کا ایک سکاﺅٹ تھا ۔ ارینیو اپنی ماں کے ساتھ ’ لوریلز‘ کے مکان کے پاس نکڑ پر کہیں رہتا تھا ۔
اٹھارہ سو پچاسی اور چھیاسی کے سالوں میں ہم نے اپنی گرمیاں ’ مونٹیویڈیو‘ میں گزاریں اور میں 1887 ء میں ایک بار پھر ’ فرے پینٹوز‘ واپس گیا ۔ جیسا کہ فطری ہے ، میں نے ، جان پہچان کے سب لوگوں کے بارے میں پوچھا اور آخر میں ’ وقت پیما ‘ فیونز کے بارے میں بھی دریافت کیا ۔ مجھے بتایا گیا کہ سان فرانسسکو رینچ پر ایک نیم سِدھے گھوڑے نے اسے گِرا دیا تھا ، جس کی وجہ سے وہ جسمانی طور پر بری طرح مفلوج ہو گیا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ اس خبر نے میرے اندر ایک جادوئی قسم کی بے چینی پیدا کر دی تھی ؛ میں نے ، حالانکہ ، اسے صرف ایک بار ہی ، تب دیکھا تھا ، جب ہم گھوڑوں پر سوار ، سان فرانسسکو رینچ سے واپس لوٹ رہے تھے اوروہ اونچی پگڈنڈی پر دوڑ رہا تھا ؛ میرے عم زاد نے جب مجھے یہ بتایا تو پچھلی واردات ایک خواب کی شکل میں میرے سامنے آ کھڑی ہوئی ۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ گھوڑے سے گرنے کے بعد سے، وہ اپنی کھاٹ سے کبھی نہ اٹھا اور اس کی آنکھیں ، ہمیشہ ، مکان کی پشت پر لگے انجیر کے درخت یا پھر مکڑی کے جالے پر ہی جمی رہتیں ۔ دوپہرکے وقت اسے کھڑکی کے پاس لے جایا جاتا ۔ وہ ایسے نظر آتا ، جیسے وہ جھٹکا جس نے اسے گرایا تھا ، اس کے لیے مفید ثابت ہوا ہو ۔ ۔ ۔ میں نے اسے دو بار کھڑکی کی کھردری آہنی جالی کے پیچھے موجود دیکھا ، جو کرختگی سے اس کی مستقل قید کی حالت کو ظاہر کرتی تھی ؛ ایک بار وہ آنکھیں بند کیے بے حس و حرکت پڑا تھا ، دوسری باربھی وہ ساکت ہی تھا لیکن اس بار وہ ’ سانتونیکا ‘ درخت کی ایک خوشبو دار ڈالی کو سونگھتے ہوئے کسی گہر ی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ۔
میں شیخی نہیں بگھار رہا لیکن ، میں اس وقت لاطینی زبان کا باقاعدہ مطالعہ شروع کر چکا تھا ۔ میرے تھیلے میں’ لہومونڈ ‘* کی ’ڈی ویرس اِلسٹریبس ‘* ، قاموس ِکیوکہرٹ* ، جولیس سیزر کے ہم عصر اور ’ پلینی ‘ * کی ’ نیچرلس ہیسٹوریا‘* موجود تھیں ۔ یہ سب ، تب میری سمجھ سے باہرتھیں اور ابھی بھی باہر ہی ہیں کہ میں اب بھی لاطینی ، بس واجبی سی ہی جانتا ہوں ۔ ایک چھوٹے قصبے میں ہر بات پھیل جاتی ہے ؛ ارینیو کو بھی قصبے کے نواح میں ، اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی ، جلد ہی ان غیر معمولی کتابوں کے بارے میں پتہ چل ہی گیا ۔ اس نے مجھے ایک زیبائشی اور پُرتکلف خط بھیجا جس میں اس نے ہماری پہلی ملاقات کا ذکر کیا تھا ، گو یہ بہت مختصر تھا ، ” 1884 ء کے فروری کے مہینے کے ساتویں روز ۔ ۔ ۔ “ ، اس نے میرے چچا ، گریگوریو ہیڈیو مرحوم ، جو اسی برس فوت ہوئے تھے ، کی ان خدمات کی تعریف کرتے ہوئے ، جو انہوں نے جنگ ِ ’ اتوزینگو‘ * میں ہماری دونوں قوموں کے لیے بہادری سے سرانجام دی تھیں ، یہ درخواست کی کہ میں اسے ان کتابوں میں سے کوئی ایک بمع لغت مستعار دوں تاکہ وہ اصل متن کو صحیح طور پر سمجھ سکے ، کیونکہ وہ تب تک لاطینی سے نابلد تھا ۔ اس نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اس نے انہیں پڑھتے ہی ، صحیح حالت میں مجھے جلد ہی لوٹا دینا تھا ۔ اس کی لکھائی عمدہ تھی اور متن کی نوک پلک بھی درست تھی ؛ اس کی اِملا ’ آندریس بیلو‘* سے متاثر تھی ؛ وہ y کے جگہ i ، j کی جگہ g لکھتا تھا ۔ پہلے تو مجھے یہ مذاق لگا لیکن میرے عم زاد نے مجھے یقین دلایا کہ یہ ارینیو کی خاصیتوں میں سے ایک تھی ۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میں اِسے گستاخی سمجھتا ، لاعلمی گردانتا یا بے وقوفی کہ مشکل لاطینی کو لغت کے بغیر سمجھنا ممکن نہ تھا ، اس کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ، میں نے اسے ِکیوکہرٹ کی ’ گریدس ایڈ پارناسم ‘* اور ’ پلینی ‘ کی کتاب بھیج دی ۔
فروری کی 14 تاریخ کو مجھے بیونس آئرس سے ایک تار مِلی کہ میرے والد کی طبعیت ٹھیک نہ تھی اور مجھے کہا گیا تھا کہ میں فوراً واپس پہنچوں ۔ میرا خدا مجھے معاف کرے ؛ فوری تار پانے کی وجہ سے ملنے والی اہمیت ، فرے بیٹوس کے سارے لوگوں کو یہ بتانے کی خواہش کہ اس پیغام کی منفی ہیئت اور الفاظ کی قطعیت میں کیا تضاد تھا ، اپنی اذیت کو ڈرامائی بنانے کی ترغیب اور مردانہ وار دکھ سہنے کا اثر ، ان سب نے مل کر میرے لیے شاید وہ سارے راستے مسدود کر دئیے تھے کہ میں اپنے والد کے بیمار ہو جانے کا غم درست طور پر محسوس کر سکوں ۔ اور جب میں نے اپنا سامان لپیٹا تومیں نے نوٹ کیا کہ ’ گریدس ‘ اور ’ نیچرلِس ہسٹوریا ‘ کی پہلی جلد موجود نہیں تھی ۔ ’ زحل ‘ نامی بحری جہاز نے اگلے روز صبح کے وقت چلنا تھا ؛ اس رات میں کھانے کے بعد فیونز کے گھر کی طرف چل دیا ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہ رات بھی اتنی ہی گھٹن والی تھی ، جتنا کہ وہ دن حبس زدہ تھا ۔
میرے لیے ، اس چھوٹے لیکن باعزت مکان کا دروازہ فیونز کی ماں نے کھولا ۔
اس نے مجھے بتایا کہ ارینیو پچھلے کمرے میں تھا اور یہ کہ مجھے اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ وہاں اندھیرا ہونا تھا ۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیونز جانتا تھا کہ ایسے وقت میں ، جب کوئی کام نہ ہو تو موم بتی کے بغیر کیسے رہا جاتا تھا ۔ میں نے ٹائلوں والے آنگن میں ننھا راستہ عبور کیا اور پھرمیں دوسرے صحن میں پہنچا ۔ یہ انگوروں کی بیل سے ڈھکا ہوا تھا ۔ مجھے مکمل تاریکی کا احساس ہوا ۔ اچانک مجھے ارینیو کی تیز ، تمسخرآمیز آواز سنائی دی ۔ وہ لاطینی میں بات کر رہا تھا ؛ اس کی آواز ، (جو اندھیرے سے ابھر رہی تھی ) ایک ایسا بیانیہ ، دعا یا پھر منتر ترتیب دے رہی تھی ، جس میں اپنے لیے خوشی اور دوسروں کے لیے بے مروتی کا احساس نمایاں تھا ۔ رومن حروف مٹی کے اس کچے آنگن میں گونج رہے تھے ؛ مجھے لگا کہ انہیں بد تہذیبی سے بولا جا رہا تھا اور انہیں سمجھا بھی نہ جا سکتا تھا ، لیکن بعد میں ، اس رات جو بڑا مکالمہ ہوا ، اس سے میں یہ جان گیا کہ یہ حروف ’ نیچرلس ہیسٹوریا ‘ کی ساتویں کتاب کے 24 ویں باب کا پہلا پیرا گراف ترتیب دے رہے تھے ۔ اس باب کا موضوع ’یادداشت ‘ ہے ؛ جس کے آخری الفاظ تھے؛ جو کچھ بھی سنا جاتا ہے اسے دوبارہ انہیں الفاظ میں دہرایا نہیں جا سکتا (ut nihil non iisdem verbis redderetur auditum.) ۔
آواز میں ہلکی سی بھی تبدیلی کیے بغیر ، ارینیو نے مجھے اندر آنے کی دعوت دی ۔ وہ اپنی کھاٹ پر تھا اور سگریٹ پی رہا تھا ۔ مجھے اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں نے اس کا چہرہ سحر ہونے تک نہیں دیکھا تھا ، ہاں ، البتہ ، مجھے یقین ہے کہ میں اس کے سلگتے سگریٹ کی ، وقفے وقفے سے ابھرتی ، دمک کو یاد کر سکتا ہوں ۔ کمرے میں نمی کی ہلکی سی باس تھی ۔ میں بیٹھا اور میں نے اپنے والد کی بیماری اور تار کی کہانی دہرائی ۔
اور پھر میں اپنی بات کے سب سے مشکل نکتے پر پہنچا ۔ یہ بات ( میرا خیال ہے کہ قارئین اب تک یہ جان چکے ہوں گے ) اور کچھ نہیں تھی سوائے اس مکالمے کے جو نصف صدی پہلے ہمارے درمیان ہوا تھا ۔ میں اس کے الفاظ دوبارہ سے دہرا نہیں پاﺅں گا کیونکہ یہ پھر سے کہے ہی نہیں جا سکتے ۔ میں ، البتہ ، دیانت داری سے، ان میں سے کئی باتوں کا خلاصہ ضرور پیش کر سکتا ہوں جو ارینیو نے مجھے بتائیں ۔ بلاواسطہ سٹائل کمزور اور ضبط ِ بعید کے مترادف ہوتا ہے ؛ مجھے معلوم ہے کہ میں اپنے بیانیے کی تاثیر کو قربان کر رہا ہوں ؛ میرے قاری ، ہچکچاہٹ بھرے ان موقعوں کا تصور خود ہی کر لیں ، جو اس رات مجھ پر طاری ہوئے تھے ۔
ارینیو نے لاطینی اور ہسپانوی زبان میں وہ ’ یادداشت ‘ کے حوالے سے وہ سارے بڑے مقدمے بیان کرنا شروع کیے جو ’ نیچرلس ہسٹوریا ‘ میں درج تھے : ‘ پرشیا ‘* کا بادشاہ ، ’سائرس‘ * ، جو اپنی فوج کے ہر سپاہی کو اس کے نام سے بلاتا تھا ، ’متھریڈیٹس یورپیٹر ‘ * جو اپنی سلطنت میں ، قانون کا نظام ، بیس زبانوں میں چلاتا تھا ، ’سیمونیڈس ‘*جو حِفظ کرنے کی سائنس کا بانی تھا ، ’ میٹروڈورس‘ * جو بہت وفاداری سے اپنے اس فن کو دہراتا تھا کہ جو بات وہ ایک دفعہ سن لیتا تھا ، وہی انہی الفاظ کے ساتھ پھر سے کہتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ ارینیو ، اچھی نیت کے ساتھ ، ان مقدمات کے حیران کُن ہونے پر خود بھی ششدر تھا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ بارش والی جس دوپہر ، نیلگوں سرمئی گھوڑے نے اسے گرایا تھا ، اس سے پہلے وہ باقی انسانوں جیسا اندھا ، گونگا بہرہ ،غیر حاضر دماغ اور منتشرخیالات رکھنے والا لڑکا تھا ۔ ( میں نے کوشش کی کہ اسے یاد کراﺅں کہ وہ تو گھڑی کی مانند ، درست وقت بتاتا تھا اور ناموں کے حوالے سے اس کی یادداشت پہلے ہی بہت اچھی تھی ، لیکن اس نے میری بات پر دھیان نہ دیا ۔) وہ انیس برس تک ایسے رہا جیسے بندہ خواب دیکھ رہا ہو ؛ وہ دیکھتا تھا لیکن اسے نظر نہیں آتا تھا ، وہ سنتا تھا لیکن سمجھ نہیں پاتا تھا ، وہ اشیاء بھول جاتا تھا ، تقریباً ہر شے ہی اسے یاد نہ رہتی ۔ جب وہ گِرا تو بیہوش ہو گیا تھا اور جب وہ ہوش میں آیا تو یہ ہوش مندی تیز ، تیکھی اور اس کثرت سے تھی کہ ناقابل برداشت تھی ، ساتھ ہی اس کی انتہائی پرانی اور معمولی یادیں بھی لوٹ آئیں ۔ اسے کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ وہ جسمانی طور پر مفلوج ہو گیا تھا ۔ اسے اس حقیقت کی کبھی پرواہ نہ ہوئی ۔ اس نے دلیل دی ( اسے لگتا تھا ) کہ متحرک نہ رہنا ، بہت ہی کم اور معمولی قیمت تھی جو اس نے چُکائی تھی جبکہ اس کے دیکھنے، سننے ، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں اور یادداشتیں بے عیب ہو گئی تھیں ۔
ہم ایک ہی نظر میں میز پر لگے تینوں شیشوں کو دیکھ سکتے ہیں ، فیونز نے کہا تھا ، اور یہ بھی کہ انگوروں کی وائن بنانے میں پھلوں کے علاوہ پتے اور کونپلیں بھی شامل ہوتی ہیں ۔ اسے یہ واضح طور پر یاد تھا کہ 30 اپریل 1882 ء کی صبح جنوبی بادلوں کی شکل کیا تھی اور وہ اسے ، اپنی یاداشت میں موجود اس ہسپانوی کتاب کی جلد پر بنی رنگدار دھاریوں سے مِلا رہا تھا ، جو اس نے صرف ایک بار دیکھی تھی ۔ وہ اسے چپوﺅں سے بننے والی اس جھاگ سے بھی تشبیہ دے رہا تھا جو ’ کیوبریکو‘ * کی بغاوت سے پہلے ’ ریو نیگرو‘ * میں اٹھی تھی ۔ یہ یادداشتیں سادھی نہیں تھیں ؛ ہر بصری عکس کسی نہ کسی توانا اور گرم جوشی سے بھرے احساس اور کچھ انہی سے ملتے جلتے احساسات کے ساتھ جڑا تھا ۔ وہ اپنے خوابوں اور کچے پکے خوابوں کو پھر سے بُن سکتا تھا ۔ اس نے دو تین بار ، اُس دن کو بار بار بُنا اور ایسا کرنے میں وہ بالکل بھی نہ ہچکچایا ، لیکن پھر سے مرتب کرنے کے لیے اسے پورے ’ ایک دن‘ کے واقعات درکار ہوتے تھے ۔ اس نے مجھے بتایا ؛ ” مجھ اکیلے کے پاس یادداشتوں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ شاید دُنیا بھر کے انسانوں کے پاس نہیں ہو گا بلکہ اس وقت سے جب سے دنیا وجود میں آئی ہے ، اس وقت سے اب تک کسی کے پاس بھی نہ ہو گا ۔“ اور پھر اس نے کہا ؛ ” میرے خواب ایسے ہیں ، جس طرح تم لوگ جاگتے میں وقت گزارتے ہو ۔“ اور پھر جب صبح نزدیک تھی تو اس نے کہا ؛ ” جناب ، میری یادداشت کوڑے کے اس ڈھیر کی مانند ہے جو روز بروز بڑھتا جاتا ہے ۔“ ، تختہ سیاہ پر بنے ایک دائرے ، ایک عمودی تکون اور ایک شکل معین ۔ ۔ ۔ یہ سب اشکال وہ ہیں جنہیں ہم سب اچھی طرح اور ذکاوت کے ساتھ جان سکتے ہیں ؛ ارینیو یہی کچھ ایک بے قابو ٹٹو کے بالوں کے ساتھ کر سکتا تھا ، انہیں گِن سکتا تھا ۔ وہ ایسا ہی کچھ پہاڑی پر موجود مویشیوں کے ریوڑ کے ساتھ بھی کر سکتا تھا اور وہ بھی ایسے وقت جب رات میں آگ راکھ میں بدل رہی ہو اور جب بے حس و حرکت بندہ لمبے جگ رَتے کے باعث اپنے چہرے کے کئی رنگ بھی بدل چکا ہو ۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ آسمان میں کتنے ستارے گنتا ہو گا ۔
وہ سب کچھ ، جو اس نے مجھے بتایا ، میں نے تب بھی اور اس کے بعد بھی ، اسے کبھی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا ۔ اس زمانے میں نہ سنیما تھا اور نہ ہی تصویریں ؛ بہرحال ، یہ عجیب لگتا ہے اورحیرت انگیز بھی کہ کسی نے کبھی بھی فیونز کے ساتھ کوئی رابطہ نہ کیا اور اس کے کہے کو تجربے میں نہ ڈالا ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیاں یوں گزارتے ہیں کہ وہ سب رد کر دیا جائے جسے رد کیا جا سکتا ہو ؛ شاید ہم اپنے اندر ، دور کہیں ، سمجھتے ہیں کہ ہم لافانی و ابدی ہیں اور جلد یا بدیر ہم چھوڑی ہوئی چیزوں سے بھی نپٹ لیں گے اور ہر شے کو جان لیں گے ۔
فیونز کی آواز اندھیرے سے ابھرتی ، مجھ سے باتیں کرتی رہی ۔
اس نے مجھے بتایا کہ 1886 ء میں اس نے اعداد کا ایک نیا اور اصلی نظام وضع کیا تھا اور چند ہی روز میں اس نے چوبیس ہزار کا ہندسہ پار کر لیا تھا ۔ اس نے اسے لکھا نہ تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ جو شے ایک بار سوچ لیتا تھا وہ اسے بھول نہیں پاتا تھا ۔ میرا خیال ہے کہ اس کام میں اس کا پہلا محرک یوراگوائے کی تاریخ کے وہ مشہور 33 گاﺅچو (کاﺅبوائے) تھے جن کے لیے ایک ایک لفظ اور ایک ایک نشان موجود تھا جس سے وہ مطمئن نہ تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ ایک کی بجائے دو دو الفاظ اوردو دو نشان ہونے چاہیے تھے ۔ اس نے پھر اس لایعنی اصول کو دوسرے اعداد پر بھی استعمال کیا ۔ مثال کے طور پر7013 کو وہ کہتا ؛ ’ میکسیمو پریز ‘ اور 7014 کی جگہ وہ کہتا ؛ ’ دی ریل روڈ ‘ ، اسی طرح دوسرے نمبر’ لوئیس میلین لافینر‘ ،’ سلفر‘ ، ’دی ریین ‘ ، ’ دی ویلز‘ ، ’ دی گیس‘ ، ’ دی کیلڈرون ‘ ، ’نپولین‘ ،’ آگسٹن ڈی ویڈیا ‘ تھے ۔ 500 کی جگہ وہ نائن کہتا ۔ ہر لفظ کا ایک مخصوص سائن تھا ، جو ایک طرح کا نشان تھا ؛ اعداد کے اس نظام کی لڑی میں آخری والے بہت مشکل تھے ۔ ۔ ۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کی بے ربط اصطلاحوں کی یہ ولولہ انگیز اختراح اعداد کے ایک نظام کے بالکل متضاد تھی ۔ میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ 365 کہنے کا مطلب تین سینکڑے، چھ بار دس اور ایک بار پانچ کہنا مقصود تھا جس کا تجزیہ اس کے اعداد کے نظام ، ’ دی نیگرو‘ یا ’ میٹ بلینکٹ ‘میں نہ تھا ۔ فیونز کو میری بات سمجھ نہ آئی یا وہ میری بات سمجھنا ہی نہ چاہتا تھا ۔
جان لوک* نے 17 ویں صدی میں ایک مفروضہ گھڑا ( اور رد کر دیا ) ، یہ ایک ایسی ناممکن زبان پر مبنی تھا ، جس میں ہر منفرد شے ، ہر پتھر، ہر پرندے ، ہر درخت اور اس کی ہر شاخ کا الگ سے اپنا نام ہو؛ فیونز نے بھی اس جیسی تناسبی زبان بنانا چاہی لیکن پھر اسے رد کر دیا کیونکہ اسے یہ بہت عمومی اور مبہم لگی ۔ حقیقت یہ تھی کہ فیونز کو نہ صرف درختوں کی ہر قسم کے ہر درخت کا ہر پتہ یاد تھا بلکہ وہ پتے بھی یاد تھے جن کا اس نے پہلے کبھی ادراک کیا یا ان کے بارے میں سوچا تھا ۔ اس نے اپنے ماضی کو کم کرنا چاہا اور اپنی یادداشتوں کو ستر ہزار تک محدود کرنا چاہا جنہیں اس نے بعد میں خفیہ اشاروں (سائیفرز) کے ذریعے بیان کرناتھا ۔ وہ اس عمل سے بھی دو وجوہات کی بِنا پر الگ رہا ؛ وہ اس بات سے آگاہ تھا کہ یہ کام ایک لامتناہی سلسلہ تھا اوراس سے بھی کہ یہ ایک فضول کام تھا ۔ اس نے سوچا تھا کہ جب اس کی موت کے وقت نے آ پہنچنا تھا ، تب تک تو اس نے اپنے بچپن کی ہی یادوں کی جماعت بندی مکمل نہ کی ہونی تھی ۔
دو منصوبے ، جن کا میں نے ذکر کیا ہے ( اعداد کی فطری سیریز کی لامتناہی لغت اوراپنی یادداشتوں کے سارے عکسوں کی دماغی جماعت بندی ) بے تُکے ہیں ، لیکن یہ ہکلاتی ہوئی مخصوص عظمت کی نفی بھی کرتے ہیں ۔ یہ ہمیں فیونز کی اس دنیا ،جو عمودی طور گھومتی ہوئی اوپر سے اوپر اٹھتی چلی جاتی ہے ، کی ایک جھلک دکھاتے ہیں اور ہمیں اخذ کرنے دیتے ہیں ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ عمومی نوعیت و افلاطونی قسم کے خیالات رکھنے سے تقریباً قاصر تھا ۔ وہ نہ صرف یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ جینیاتی علامت ’ کتا ‘ مختلف النوع ، مختلف قد کاٹھ کے ، اپنی ذات میں منفرد کتوں کو لپیٹے ہوئے ہے ، بلکہ اسے تو یہ بات تنگ کرتی تھی کہ اگر ایک کتے کو تین بج کرچودہ منٹ پر ایک طرف سے دیکھا جائے توکیا یہ وہی کتا ہی کہلائے گا جسے تین بج کرپندرہ منٹ پر سامنے سے دیکھا جائے ۔ اسے اپنا چہرہ اور ہاتھ آئینے میں دیکھ کر حیرانی ہوتی تھی ؛ اسے ہر بار یہ مختلف نظر آتے ۔ جوناتھن سوئفٹ* ’ للی پُٹ ‘ کے بادشاہ کی بابت کہتا ہے کہ وہ ہاتھ کی ہلکی سی جنبش کو بھی پہچان لیتا تھا ؛ فیونز بھی خاموشی سے آگے بڑھتی ہوئی بدعنوانی ، تنزلی اور تھکان کو جان لیتا تھا ۔ وہ بڑھتی ہوئی نمی اور موت کی در اندازی کو بھی محسوس کر لیتا تھا ۔ وہ اس دنیا کی سمجھ رکھنے والا واحد ناظر تھا ، دنیا جو کہ کثیرالجہت تھی اور ناقابل برداشت حد تک باقاعدگی سے دم بہ دم رواں دواں تھی ۔ بابل و نینوا ، لندن اور نیویارک اپنے بندوں کے درندہ صفت اور وحشیانہ خیالات سے ملغوب ہیں ؛ ان کی گنجان آباد عمارتوں اور گھروں میں آباد لوگوں میں سے کسی نے ، کسی ایک حقیقت کی اُس شدت ، گرمی اور دباﺅ کو محسوس نہیں کیا ، جسے بیچارہ ارینیو ، غریب جنوبی امریکہ کے مضافات میں بیٹھے ہوئے دن رات مسلسل طور پر محسوس کرتا تھا ۔ اس کے لیے سونا بہت ہی مشکل تھا ۔ سونے کا مطلب یہ تھا کہ دنیا سے دماغ کو ہٹا لیا جائے ؛ فیونز سائے میں ، اپنی کھاٹ پر لیٹے لیٹے ارد گرد کے گھروں کی ہر دراڑ ، ہر تیکھی بناوٹ و سجاوٹ کا تصور کر سکتا تھا ۔ ( میں یہاں پھر سے دہراتا ہوں کہ اس کی غیر اہم یادداشتیں زیادہ مفصل اور زیادہ واضح ہوتیں اور اس کے مقابلے میں مادی رنج و الم کے بارے میں ہمارا ادراک کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا ۔) مشرق کی جانب پھیلے علاقے میں جہاں ابھی آبادی کے بلاک نہیں بنے تھے ، وہاں کچھ نئے مکانات بنے تھے ، جن کے بارے میں فیونز کو پتہ نہ تھا ۔ وہ اس کے تصور میں فقط سیاہ ٹھوس دھبے تھے جو یکساں طور پر چھائے اندھیارے سے بنے تھے ؛ وہ ان کی طرف منہ موڑ لیتا تاکہ سو سکے ۔ وہ یہ بھی تصور کرتا کہ وہ دریا کی تہہ میں تھا اور موجوں نے اسے پٹک پٹک کرفنا ہی کر ڈالا تھا ۔
اس نے زیادہ تگ و دو کیے بغیر انگریزی ، فرانسیسی ، پرتگالی اور لاطینی سیکھ لی تھی ۔ مجھے ، البتہ ، یہ شک ہے کہ وہ زبانوں کی ماہیت اور ان کے پیچھے موجود افکار پر زیادہ غور نہیں کرتا تھا ۔ اس طرح سے غور کرنے کا مطلب ہے کہ تفاوت ختم کر دیا جائے ، چیزوں کو عمومی طور ترتیب دے دیا جائے اور تفصیلات کو خلاصوں میں بدل دیا جائے ۔ اس کے برعکس فیونز کی بھری دنیا میں تو بس تفصیلات ہی تفصیلات تھیں جو فوری طور پر اپنی موجودگی کا احساس دلا دیتی تھیں ۔
صبح کی چوکس روشنی کچے آنگن میں اتری ۔
میں تب ہی اس آواز کا چہرہ دیکھ پایا ، جو ساری رات مجھ سے مخاطب رہی تھی ۔ ارینیو انیس سال کا تھا ؛ وہ 1868 ء میں پیدا ہوا تھا؛ لیکن وہ مجھے کانسی کی ایک یادگار لگا ، مصر سے بھی قدیم ، پشین گوئیوں کے زمانوں اور اہرام ِ مصر سے بھی زیادہ قدیم ۔ میں نے سوچا کہ میرا بولا ہوا ہر لفظ ( میری ہر حرکت ) اس کی کٹھور یادداشت میں سما جانا تھا ؛ اور میں اس خوف سے سُن ہو گیا کہ اپنے منہ سے فضول لفظ نہ نکالوں اور نہ ہی کوئی حرکت کروں ۔
ارینیو فیونز 1889 ء میں ، پھیپھڑوں میں پانی بھر جانے سے فوت ہوا ۔#
[ نیورولوجسٹ پہلے انسانی ذہن کی اس حالت کو ” hyperthymestic syndrome ” کہتے تھے لیکن اب وہ اسے ‘ ایچ ایس اے ایم ‘ ( highly superior autobiographical memory ) کا نام دیتے ہیں ۔
اس ترجمے میں جس جس جگہ ‘ * ‘ کا نشان موجود ہے ، ان کے بارے میں وضاحتی نوٹ اس کتاب میں شامل ہوں گے ، جس میں یہ افسانہ شائع ہو گا ۔ ]
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...