میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ کیا کوئی ایسا شخص ہو گا جو عظیم اہرام مصر کے اندر ایک رات گذار سکے یا جس نے ماضی میں کبھی ایک رات گذاری بھی ہو ، جبکہ میری اپنی بڑی وِش ہے کہ مجھے اہرام مصر کے اندر کنگز چیمبر میں ایک رات گذارنے کا موقع ملے ۔ خیر گذشتہ روز ایک دو آرٹیکلز پڑھے بہت دلچسپ تھے تو وہ میں آپ سے اپنےالفاظ میں شئیر کرتا ہوں۔
یہ دور ہے 1798 کا جب فرانس کا فاتح اور جرنیل نپولین بونا پارٹ اپنی فتوحات کے عروج پر تھا اور اسکا اگلا ہدف تھا مصر کو ترکی کے تسلط سے نکال کر اس پر قابض ہونا ، نپولین نے اپنی فوج کےساتھ عظیم اہرام کے بالکل سامنے پڑاؤ کیا اسکے ساتھ کئی محقق اور تاریخ دان بھی تھے جن کے ذمہ مصر کی ثقافت اسکی تاریخ کی تحقیقات تھیں۔
اہرام مصر کے عجائبات کے قریب پڑاؤ کے دوران نپولین کے لیفٹیننٹ کے ہاتھوں Rosseta stone کی دریافت ہوئی جس نے بعد میں ماہرین کو قدیم مصری اشکالی زبان Hieroglyph کو سمجھنے میں بہت مدد دی یہیں سے جدید مصریات کو سمجھنے اور تحقیق کے دور کا آغاز ہوا اور خوفو کے اس عظیم اہرام کے اسرار نے نپولین کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ نپولین نے اپنی مصر کی مہم کے اختتام پر اہرام مصر میں کنگ خوفو کے چیمبر کے اندر تن تنہا مکمل ایک رات گذارنے کی خواہش کی اور اس نے اکیلے ایک پوری رات فرعون خوفو کے چیمبر میں گذاری بھی۔۔۔۔۔
وہ سال 1799 تھا اور اگست کی 12 تاریخ کی ایک گرم رات تھی جب نپولین بونا پارٹ اپنے چند لوگوں کے گروپ کے ہمراہ عظیم خوفو کے اہرام میں داخل ہوا ، یہ لوگ تنگ گذرگاہوں بھول بھلیوں والی راہداریوں چھوٹی چھوٹی گیلریوں سے ہوتے ہوۓ آخر کار اس کمرے تک جا پہنچے جوعظیم فرعون کا چیمبر تھا ، یہاں پر یہ گروپ نپولین کو اسکی خواہش پر اکیلا چھوڑ کر واپس روانہ ہوا اب صرف یہاں دو بادشاہ تھے ایک خوفو اور ایک نپولین۔۔۔۔۔۔۔
نپولن کے پاس عظیم فرعون خوفو کے کمرے کاجائزہ لینے کے لیے پوری رات تھی اور یہ ایک بادشاہ کا مستعطیل نما کمرہ تھا جو دس میٹر لمبا اور پانچ میٹر چوڑا تھا جسے گرینائٹ کی ہموار سلیبوں سے بنایا گیا تھا اس کمرے میں کوئی سجاوٹ یا کسی قسم کی کوئی قدیم تحریر نہیں تھی۔ عظیم سلطنت کے عظیم فرعون کے کمرے میں صرف ایک پراسرار سرخ رنگ گرینائٹ کا تابوت تھا جو کم و بیش تیس فٹ لمبا اور پانچ فٹ چوڑا تھا جو کہ ایک ہی ٹکڑے میں تھا اور بالکل خالی تھا نپولین اس جگہ سات گھنٹے تک اکیلا مقیم رہا۔
یہاں ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر نپولین نے ایک ہیبت ناک دہشت ناک جگہ پر اکیلے رہنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا۔۔؟ اسکا جواب پیٹر ٹومپکنز اپنی تصنیف سیکرٹس آف دی گریٹ پیرامڈ میں یہ بیان کرتا ہے کہ نپولین نے اپنے وقت سے قبل کے دو عظیم فوجی رہنماؤں اور فاتحین الیگزینڈر دی گریٹ ( سکندر اعظم ) اور جولیس سیزر کی مصر کے حوالے سے کامیاب حکمت عملیوں کی تقلید کرنے کا ارادہ کیا تھا اور اسکا اہرام مصر میں داخلہ انکی تقلید کے طور پر تھا۔۔۔۔۔
قارئین یہ بات ذہن نشین رہے کہ سکندر اعظم نے فتح کے بعد مصر میں محض چھے ماہ گذارے تھے مگر اس عرصہ میں اسکے غزہ میں اہرام مصر کے دورے کے متعلق کسی قسم کے ٹھوس شواہد نہیں ملتے۔ اسکے علاوہ سکندر نے اپنےنام کی مناسبت سے اسکندریہ شہر کی بنیاد ڈالی اور مصر کے لوگوں نے سکندر کو اپنا فرعون بھی تسلیم کیا تھا۔ سکندر نے مصر میں یونانی دور کی ابتداء کی اور اسے نئے فرعون کے ساتھ ساتھ ” را کا بیٹے “ اور ” آمون کا پسندیدہ “ جیسے خطابات بھی دیے گئے۔
اب نپولین نے خوفوکے اہرام میں رات گذارنے کا فیصلہ کیوں کیا اور اسکو اس رات وہاں کِس قسم کے تجربے سے واسطہ پڑا یہ کبھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا اور نہ ہی کبھی نپولین نے اپنے اس تجربے کو کبھی کسی کے سامنے یا کہیں بیان کیا۔ اس رات کی صبح جب نپولین کی اہرام سے واپسی ہوئی تو اسکا چہرہ پیلا تھا جس پر خوف کے آثار تھے اسکے ساتھیوں دوستوں اور فوجیوں نے اس سے اہرام میں گذری رات کا احوال پوچھا مگر نپولین نے یہ کہہ کر بات کو ٹال دیا کہ ” اگر میں تمہیں بتا بھی دوں تو تم کبھی اس پر یقین نہیں کرو گے “ ، اس سے ظاہرتھا نپولین اس رات اور رات کے واقعات پر کوئی بات نہیں کرناچاہتا تھا اور نہ کبھی اس نے پھر اس معاملے پر کبھی کسی سے بات کی یہ ایک تجسس بھرا ایسا راز تھا جو ایک بادشاہ کے چیمبر کی دیواروں اور ایک دوسرے فاتح ( بادشاہ )کے درمیان تھا۔
بہرحال یہی کہا جاتا ہے کہ نپولین نے سکندر اعظم اور جولیس سیزر کی بائیوگرافی میں سے چند حقائق کو کاپی کیا تھا کیونکہ یہ دونوں عظیم فاتح اور قابل سٹریٹیجسٹ تھے مگر ان دونوں کے متعلق عظیم اہرام میں داخلے اور ٹھہرنے کے شواہد نہیں ملتے۔
تاہم نپولین نے مرتے دم تک اہرام کے اندر گذری رات کا احوال نہیں بتایا اور بستر مرگ پر بھی اسکے یہی الفاظ تھے کہ ” اگر میں بتا دوں تو تم یقین نہیں کرو گے “ اسکے پرائیویٹ سیکریٹری ڈی بورین جو مصر میں اسکے ساتھ تھے ان کا کہنا تھا کہ نپولین کبھی بادشاہ خوفو کے مقبرےمیں داخل نہیں ہوۓ تھے بلکہ انکا مقصد محض دو فاتحین کی حکمت عملیوں پر سوچ بچار کرنا تھا بہرحال نپولین اور اسکے گروپ نے اپنا وقت اس تجزیے میں صرف کیا کہ اہرام مصر میں پتھروں کے اتنے بلاک لگے ہیں کہ ان سے پورے مصر کے گرد 12 فٹ اونچی اور ایک فٹ موٹی دیوار بنائی جا سکتی تھی۔
اب میں یہ سوچتا ہوں کہ بالفرض نپولین نے اہرام کے اندر خوفو کے چیمبر میں ایک رات گذاری بھی ہو تو کس چیز کے سہارے گذاری ہوگی ؟ محض ایک آگ کی مشعل کے سہارے ؟ سات گھنٹوں میں اسے کِس قسم کے تجربے سے گذرنا پڑا ہوگا ؟ کیا وہ اس رات کنگز چیمبر سے نکل کر اہرام کے دوسرے مختلف چییمبرز میں بھی گیا ہوگا ؟ وہ رات اس نے کیا سوچ کر اور کن خیالات کے زیر اثر گذاری ہوگی ؟ ایک ایکسپلورر ہونے کے ناطے میں یہ ضرور کہوں کا کہ اسکے پاس ڈائری اور لکھنے کے لیے قلم ضرور ہوناچاہیے تھا اگر ایسا ہے تو اس نے اپنے تجربات ضرور قلمبند کیے ہوں گے ، اگر نہیں کیے تو پھر آخر ایسی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ اس نے مرتے دم تک اہرام میں گذری رات کے احوال کا کسی سے ذکر کیوں نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب باتیں سوچ کر میرا تجسس مزید بڑھ گیا ہے کہ اس آخر اس رات کیا ہو ا ہوگا۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...