نانی کا گاؤں اور جنگیؔ
وارننگ: خواتین جو صفائی پسند ہیں اس تحریر کو شائد اس طرح نہ انجوائے کرسکیں جیسے میری باقی تحریروں کر کرتی ہیں۔ معذرت۔
نانی کے گھر کی سیڑھیوں سے دور کھیتوں کے پار ریل کی پٹڑی چمکتی نظر آتی تھی۔ جیسے ہی 80 کی دہائی کی گاؤں کی خوبصورت خاموشی میں ریل کی دور سے آتی سیٹی کی آواز ہم بچوں کے کانوں میں پڑتی، ہم جہاں بھی ہوتے بھاگ کر گھر کی سیڑھیوں پر چڑھ جاتے اور دور ریل کی پٹڑی پر بھاگتی ریل کے ڈبے گننے لگتے۔ مسافر گاڑی تو شوں سے گذر جاتی مگر مال گاڑی ہماری گنتی کا امتحان لے کر جاتی۔ اس کے ڈبے گنتے گنتے ہم ہانپ جاتے۔ کبھی کبھی ریل کی پٹڑی پر جا کر ایک پیسے کے سکے کو چپٹا بھی کرتے۔ ریل گاڑی کے گذرنے پر جب وہ چپٹا گرم تپتا سکہ پتلی چادر کی صورت ہماری ہتھیلی پر آتا تو ہم خود کو کائنات کا سب سے بڑا جادوگر تصور کرنے لگتے۔ اس سکے کی گرماہٹ آج بھی ہتھیلی پر محسوس ہوتی ہے۔
نانی کے اسی ریل کی پٹڑی والے گاؤں میں میرا تعارف جنگیؔ سے ہوا۔ ان آٹھ دس دنوں کی یاد میں کھیتوں میں پڑے چبھڑ (جانے اردو میں اس ترش بیر کے سائز کے تربوز نما پھل کو کیا کہتے ہیں)، ریل گاڑی کی کوک، بکری کے میمنے کو فیڈر سے پانی پلا پلا کر اپھار دینا، اور مرغیوں کی ٹوکری کو پھندا بنا کر چڑیاں پکڑنے کے علاوہ جو یاد ہمیشہ میرے ذہن کے خانے میں "چپک" کر رہ گئی وہ جنگیؔ تھا۔
جنگیؔ کون تھا، کس کا بیٹا تھا، آج کچھ یاد نہیں۔ بس انتا یاد ہے کہ سخت پالے کے دن تھے، اپنے کزنوں کے ساتھ میں گاؤں کی دھند میں صبح صبح کھیلنے نکل جاتا۔ اور وہیں گلی میں کھیلنے والے بچوں میں جنگیؔ بھی ہوتا، جو بڑے انہماک سے کنچے کھیل رہا ہوتا۔ اس کا اصلی نام کچھ اور ہوگا مگر جنگ کے دنوں میں پیدا ہونے کی وجہ سے اسکو جنگی کہتے تھے۔
جنگیؔ میرا کیسا دوست تھا، اور آٹھ دن کی دوستی کیسی ہوتی ہے یہ اہم بات نہیں ہے۔ شائد اس نے کچھ کنچے مجھے دے دیے ہونگے ، شہر سے آیا لڑکا سمجھ کر۔ یا پھر کوئی اور بات۔ مگر میں اسے اور وہ مجھے دوست سمجھنے لگ گیا۔ سخت سردی میں جنگی ایک جانگیے اور کرتے میں ملبوس ہوتا۔ اور پاؤں میں جوتی نہ ہوتی۔ شہر سے آئے نو دس سالہ لڑکے کے لیے یہی بہت بہادری کی بات تھی، جو خود، سوئیٹر کے اوپر کوٹ بھی چڑھائے رکھتا تھا۔
جنگیؔ کمال کا نشانے باز تھا۔ گلی اور شائد گاؤں کے سارے ہم عمر لڑکے اس سے کنچے کھیلنے سے کتراتے تھے۔ مگر وہ انکو ششکار ششکار کر غیرت دلاتا اور وہ جوش میں آ کر جنگی سے کنچے کھیلتے اور ہار جاتے۔ جنگیؔ سارے کنچے جیت جانے کے بعد پھر سے آدھے کنچے ہارنے والے لڑکے کو دے دیتا تاکہ وہ کھیل کو جاری رکھ سکے۔ یہ بھی میرے لیے حیرانی کی بات تھی۔ آج برسوں بعد سمجھ میں آتا ہے کہ کھیل جاری رکھنا کسقدر ضروری ہوتا ہے۔ جنگیؔ یہ بات تب بھی جانتا تھا۔
مگر جنگیؔ کی نشانہ بازی کی مہارت وہ بات نہیں جس کی وجہ سے مجھے نانی کا وہ گھر آج بھی تصویر کی مانند یاد ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ ننگے پاؤں یخ بستہ زمین پر کھیلتے ہوئے جنگی کی ناک مسلسل بہتی رہتی تھی۔ پہلے روز جب میں نے دسیوں لڑکوں میں سے جنگیؔ کو نوٹس کیا تو اسکی بہتی ناک ہی تھی۔
آپ کہیں گے ناک بہنا کونسی کمال کی بات ہے۔ ہر ایک کی بہتی ہے؟ آپ کی بات ٹھیک ہے۔ مگر آپ نے جنگی کو ان سرد دھند بھری گلیوں میں کنچے کھیلتے نہیں دیکھا ناں۔ جیسے ایک ماہر تیر انداز ایک مخصوس انداز میں اپنی کمر پر بندے ترکش سے تیر کھینچتا ہے اور کمان کی رسی پر رکھ کر کاندھے سے پیچھے کھینچتے ہوئے ایک آنکھ بند کر کے اپنے ہدف کو فوکس کر لیتا ہے۔ اور ساری کائنات تھم سی جاتی ہے، ایسے میں اس تیر انداز کے اڑتے ہوئے بال ہی بسا اوقات اس تصویر کے زندہ ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔
بس صاحبو! کچھ ایسا ہی سماں جنگیؔ کے نشانہ لگانے کے دوران ہوتا تھا۔ کنچے سرد کچی زمین پر بکھرے ہوتے تھے۔ اردگرد تماشائی بچے مجھ سمیت دم سادھے کھڑے ہوتے تھے۔ جنگیؔ کا مخالف ایک تشنج کی سی کیفیت میں ہونٹ کاٹ رہا ہوتا۔ جنگی ایک پاؤں آگے بڑھائے گھٹنا ہلکا سے آگے کو نکالے دائیں ہاتھ میں کنچا پکڑے، بائیں آنکھ کو میچے نشانہ باندھ رہا ہوتا۔ بس اسی لمحے جنگی کی ناک سے ایک سفیدی مائل لکیر نیچے اور نیچے کو بڑھتی۔ جنگی دم سادھے شست باندھ رہا ہوتا۔ میں اسکی مہارت اور ناک سے بہتی لکیر دونوں کو سانس روکے دیکھ رہا ہوتا۔ جنگی کا ہاتھ فضا میں جس قدر بلند ہوتا، وہ لکیر اسی قدر نیچے آ رہی ہوتی۔ آخری لمحے میں جب وہ لکیر اس کے بالائی ہونٹ سے ٹکراتی، کھٹاک سے جنگی کا ہاتھ نیچے گرتا اور کنچا اپنے نشانے پر جا لگتا، اور لمحہ کے سویں حصے میں وہ لکیر واپس جنگی کی ناک میں جا چکی ہوتی۔ میری نظر میں تب یہ ایسا کمال تھا کہ آج بھی اپنا آپ اسی طرح حیرت زدہ محسوس کرتا ہوں۔ مسلسل نشانے بازی میں جنگی کی ناک اور بالائی ہونٹ کے کنارے تک اس لکیر کے آنے اور واپس جانے سے "ریل کی ایک پٹڑی" سی بن جاتی۔ مگر جنگی اس سے بے نیاز ہی رہتا۔
دوستو! آج بھی جب زندگی میں چاروں طرف سے ذمہ داریاں گھیر لیں۔ یا کچھ ایسے دن آ جائیں کہ ایک کام کے کرتے دوسرا ہاتھ سے نکل جائے تو مجھے جنگیؔ یاد آ جاتا ہے۔ اور میں سوچنے لگ جاتا ہوں کہ ضروری کیا ہے؟ ننگے پیروں کی چڑھتی ٹھنڈ سے کپکپاتی ٹانگیں، بہتی ناک سے بنتی لکیر جو ہونٹوں سے بس چھونے ہی والی ہے، یا پھر وہ نشانہ جو مجھے لگانا ہے۔ میرا فوکس پھر سے سیٹ ہوجاتا ہے۔ نشانہ لگانے والے بہتی ناک کی پرواہ نہیں کیا کرتے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“