تقریبا پندره سولہ سال کا تھا _ سرگودھا کےایک گاؤں میں والی بال میچ کھیلنے گیا _ وہاں ایک بزرگ دوست نے کہا کہ بغیر شام کا کھانا کھلائے واپس نہیں جانے دوں گا _ میچ ختم ہوا تو واپسی پر اُن محترم کے ساتھ اُن کے گھر چلا گیا _
تب برائیلر کا تو وجود ہی نا ہوتا تھا _ رات کے کھانے میں دیسی مرغا اور سوجی کا حلوه دیا گیا _
کھانے کیبعد وه صاحب مجھے اپنی ساس صاحبہ سے ملانے اندر والے کمرے میں لے گئے _ وہاں قریبا" اسی سال کی ایک بزرگ خاتون کافی پرانے لیکن صاف ستھرے کپڑوں میں جائے نماز پر تشریف فرما تھیں _ انکے ساتھ آٹھ دس سال کی ایک لڑکی بھی مونہہ سر لپیٹ کر اُنہی کی جائے نماز پر موجود تھی _ بزرگ خاتون اُٹھ کر مجھے ملیں _ میرا مونہہ ماتھا چوما _ بہت ساری دعائیں دیں _
جبھی میں اُنہیں ملکر واپس آنے لگا تو مجھے کہا کہ _ بیٹا میرے لئے دعا کرنا _ اللہ پاک مجھے جمعہ دیں اور رمضان دیں _؟
یہ نانی غلام عائشہ سے میری پہلی ملاقات تھی _
آئندہ کی ہر ملاقات پر نانی اماں میرا ماتھا چومتیں اور پتہ نہیں کیوں _ پر مجھے بہت التجائیہ الفاظ میں دعا کا ضرور کہتیں کہ بیٹا _ دعا کرنا _ اللہ میاں مجھے جمعہ دیں اور رمضان دیں _ میں اُن سے دعا کا وعده کرتا اور پھر حسب توفیق دعا کر بھی دیتا _
کبھی بھی یہ سمجھ نا آئی کہ نانی اماں دعا کا مجھے ہی کیوں کہتی ہیں _ میرے میں تو ایسی کوئ بھی خاص بات نہیں _ اپنی ذات اور اعمال کو دیکھتا _ نانی اماں کے لئے دعا کا سوچتا تو شرمنده ہو جاتا _ ایک چھوٹا سا لڑکا کہاں اور نانی عائشہ کیلئے دعا کہاں _؟
وقت بدلا _ میرے وه بزرگ دوست گاؤں چھوڑ کر سرگودھا شہر ہمارے مکان میں کرایہ دار بن کر آ گئے _ نانی اماں اُن کے پاس ہی رہتی تھیں _ ہر آٹھ دس دن بعد مجھے بلا بھیجتیں _ میں ملنے جاتا _ وه جائے نماز پر ہی ہوتیں _ساتھ دوسری جائے نماز پر وه چھوٹی لڑکی ہوتی جو اب بڑی ہو چکی تھی _ لڑکی میرا سن کر باہر چلی جاتی _ نانی اماں میرا مونہہ ماتھا چومتیں _ مجھے دعا دیتیں _ پھر میرے سے اپنے لئیے دعا کا اعادہ کراتیں _ بیٹا دعا کرنا _ اللہ پاک مجھے جمعہ دیں اور رمضان دیں _ میں پھر سے وعده کرتا اور حسب توفیق دعا کر کہ وه وعده پورا بھی ضرور کرتا _
ایک دن میں نے اپنے اُن دوست سے نانی غلام عائشہ کا دن رات کا معمول پوچھا _ پتہ چلا کہ پچھلے چالیس بیالیس سال سے مصلے پر ہی ہیں _ نا سردی کا رولا اور نا گرمی کی پریشانی _ چالیس بیالیس سال ہی روزے رکھے _ نا بھوک کی فکر اور نا پیاس کا مسلہء _ دن اور رات میں صرف ایک بار توے کی ایک روکھی روٹی کھاتیں ، دو بار پانی پیتیں _ ایک بار وضو کیلئے اُٹھتی ہیں _
کبھی خود سے نہیں بولیں _ کوئی بلائے تو مختصر سا جواب دے دیتی ہیں یا تب بولتیں جب اپنی نواسی کو کلام پاک پڑہا رہی ہوں اور یا پھر آپ واحد آدمی ہو جسے شوق سے ملتی اور باتیں کرتی ہیں _
وقت بدلا _ اپنی نانی کیساتھ جائے نماز ڈال کر نماز اور کلام پاک پڑہنے والی وه لڑکی میری بیوی بن گئی _
میری شادی کو دو تین سال گزرے ، 1995 کا رمضان شریف اور جمعتہ الوداع تھا _ نانی اماں عشاء کی نماز پڑھ کر دعا کیلئے سجدے میں گئیں اور پھر کبھی نا اُٹھ سکیں _ تقریبا" نوے سال کی عمر پائی _ سجدے کی حالت میں ہی اللہ پاک نے اُنہیں بلا لیا _ یوں ایک عاشق اور معشوق کا عشق تکمیل تک پہنچا _
نانی اماں کا عشق سچا تھا _ اُنہوں نے اپنے عشق حقیقی کو پانے کیلئے جمعہ اور رمضان شریف کی بابرکت ساعتوں کو چنا اور چالیس بیالیس سال کا عقیدت اور مشقت بھرا سفر طے کر کے آخر کار اپنی منزل کو پا لیا _
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے _
اسکے بہت سالوں بعد مصلے پر اُن کا ساتھ دینے والی اُن کی نواسی اور میری بیگم بھی صرف بیالیس سال کی عمر میں مجھے چھوڑ کر اپنی نانی جنت مکانی حاجن غلام عائشہ کو جا ملیں _
یوں دو پاک روحوں کا ملاپ ہو گیا _
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...