ناگاہ پربت دنیا کی آٹھویں بلند ترین چوٹی ہے اور اس اونچائی 2660فٹ ہے اور پاکستان علاقہ گلگت بلتستان کے علاقہ میں واقع ہے۔ یہ کوئی واحد پہاڑ نہیں ہے۔ بلکہ بلند ہوتی گئی پے در پے پہاڑوں اور عمودی چٹانوں پر مشتمل ایک ایسا دیو ہیکل مٹی اور برف کا تودہ ہے جو برفانی چوٹیوں پر اختتام پذیر ہوتا ہے اور یہ بلند اور پر وقار چوٹی شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہاں ناگاہ پربت کے سائے میں دریائے سندھ بہہ رہا ہے۔ یہ دنیا کے کسی اور پہاڑ سے زیادہ انسانوں کے لیے سخت سنگدل اور بے رحم ہے۔ اس نے بہت سے کوہ پیماؤں کی جان لے لی ہے۔ ان کی تعداد بتیس سے زیادہ ہے اور دنیا کہ بلند پہاڑوں میں یہ سب سے آخر میں سر ہوئی۔ پہاڑ کی بلندی اور چڑھائی جو کہ ہر کوہ پیما کی ذاتی دشمن ہوتی ہے اور ناگاہ بربت سے دریائے سندھ سے صرف چودہ میل کے فضائی فاصلے پر تین ہزار فٹ کی بلندی پر بہہ رہا ہے۔ اتنی تیزی سے بلند ہوتا ہوا یہ پہاڑ جس کو سرکرنے کی خواہش کا خطرناک رد عمل ہوتا ہے۔ یہاں نیچے دریا کے قرب میں شدید گرمی اور ناگاہ پربت کی بلندیوں پر شدید سردی ہوتی ہے۔ ناگاہ پربت پر پہنچنے کے لیے قابل اعتماد سامان کے ساتھ ساتھ صبر و استقلال اور حالات کا مقابلہ کرنے کے ذہنی صلاحیت کی ضرورت ہونی چاہیے۔ بیس ہزار فٹ سے بلندی پر آکسیجن کی کمی جسم، دماغ اور جذبے کو کمزور کردیتی ہے اور رد عمل خطرناک حد تک سست پڑ جاتا ہے۔ توانائی ختم ہوجاتی ہے اور قوت ارادی کمزاور پڑ جاتی ہے۔
قدیم عقائد کے مطابق ہمالیہ اور قراقرم کی دوسری بلند چوٹیوں طرح اسے بھی متلون مزاج روحوں کا مسکن سمجھا جاتا تھا۔ اس قرب و جوار میں آباد مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی چوٹیوں پر بھی پریوں کے بسیرے ہیں اور وہ اس کی حفاظت کرتی رہتی ہیں۔ جب سورج کی روشنی اپنے شباب پر ہوتی ہے تو اس بلند پہاڑ کی بلند گھاٹیوں سے دھواں سا اٹھتا نظر آرہا ہوتا ہے تو مقامی لوگ کہتے ہیں کہ پریاں اپنا کھانا پکارہی ہیں۔ اس پہاڑ پر رہنے والی کچھ اور دوسری مخلوق جن میں کچھ ڈراؤنی اور خوفناک ہیں اور ان میں شیطانی روحیں، دیو ہیکل مینڈک، سو سو فٹ لمبے برفانی اژدھے بستے ہیں۔ یہ سب کچھ بڑا رومانی لگتا ہے لیکن آج بھی وہاں کے لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں۔
گلگت سے دریا کی طرف جاتے ہوئے کہیں کہیں سے ناگاہ پربت دیکھائی دیتا ہے۔ اس مختصر سے میدان میں جو دریائے سندھ اور گلگت ا پنے سنگم پر بناتے ہیں جو حسین منظر نظر آتا ہے وہ وہ برفانی پہاڑوں کا سلسلہ ہے۔ جو ابھرتے ہوئے سورج میں دریائے سندھ اور گلگت کے سنگم سے ناگاہ پربت دیکھنے والوں کو ریت اور چٹانوں کے صحرا سے غافل کردیتا ہے۔ یہاں جیسے جیسے سہہ پہر کا وقت ڈھلنا شروع ہوتا ہے ناگاہ پربت کا نظارہ حسین سے حسین تر ہوتا جلا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا پرشکوہ منظر ہوتا ہے کہ کسی نے اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ بادلوں سے اوپر ایک ان چھوئی برف کی دنیا روشن سے روشن تر نظر آتی ہے کہ بس سکوت کے عالم میں آنکھیں پھاڑے اسے دیکھے جاؤ۔ جس کے نیچے بادلوں کے گہرے سائے منظر کو اپنی دوش میں لے رہے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھنے والوں کو اس ناممکنات کا احساس پیدا کرتا ہے کہ کوئی وہاں موجود ہے تو اس کی اس کے آگے کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ناگاہ پربت کے مشرقی جانب استور کی طرف سے اسے دیکھا جائے تو یہ ناگاہ پربت سر اٹھائے بادلوں سے نکلا ہوا ناقابل یقین کی حدت تک انتہائی خوبصورت نظر آتا ہے۔ یہ اپنی بلندیوں اور وسعتوں میں کھڑا نہایت معصوم دیکھائی دیتا ہے۔ جس میں پاکیزگی، سکون، شکوہ اور نزاکت اور لطافت کے ساتھ اس دنیا کا حصہ نہیں بلکہ آسمانی دنیا کی مخلوق نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظارا ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کے وجود کے اندر حلول کرجاتا ہے۔ جہاں سے پاکزگی اور محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ غروب آفتاب کے وقت یہ گلابی روشنی کے سمندر سے ابھر ہوا موتیوں کا ایک جزیرہ لگتا ہے۔ لیکن یہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اسے بڑی محبت اور عقیدت سے دور دراز کا سفر طہ کرکے دیکھنے یا اسے سر کرنے آتے ہیں۔ لیکن اس کے دامن میں سنگلاخ چٹانوں پر جو لوگ رہتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ننگاہ پہاڑ ہے۔
اسلام آباد سے گلگت جانے والے ہوائی جہاز ناگاہ پربت کے پاس سے گزرتے ہوئے کافی وقت لیتے ہیں۔ ہوائی جہاز کی کھڑکیاں کے سامنے عمودی سفید چٹانیوں کی ایک پوری دنیا جن میں دندانے دار سطحیں اور بدنما تھوتھیاں نکالے گلیشر کالی چٹانوں میں گھری تنگ گھاٹیوں میں سے جھانک رہی ہوتی ہیں۔ ادھر ادھر بکھری پڑی چٹانوں کے بیان میدان آہستہ آہستہ گزر رہے ہوتے ہیں۔
ناگاہ پربت کے دامن تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں۔ یہ راستے جو کہ پگڈنیوں کی صورت تھے اور وہاں تک پہنچنے کا مشکل سفر کئی ہفتوں کا ہوتا تھا۔ مگر اب یہاں سڑکیں بن چکیں ہیں اور اگرچہ یہ سڑکیں سلایڈنگ کی وجہ سے بہت بری حالت اور دنیا کے خطرناک ترین راستوں میں اس کا شمار ہوتا۔ تاہم اس کی بدولت فاصلے دنوں سے گھنٹوں میں سمٹ گئے ہیں۔ پہلے کی نسبت جب اس کو قریب سے قریب تر دیکھنے کی شدید خواہش کے لیے ہفتوں تک پیدل سفر کرنا ہوتا تھا۔ اگرچہ ناگاہ پربت قریب پہنچنے کی خواہش کتنی ہی شدید ہو مگر پھر بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ کیوں کہ خطرناک راستوں کے ساتھ زندہ گلیشروں عبور کرنا ہولناک کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے۔ لحاظہ ہر وہ شخص جو ناگاہ پربت کو قریب سے قریب دیکھنے کی شدید خواہش رکھتا ہے وہ اپنے حوصلے کے مطابق اس کے قریب سے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے۔
ناگاہ پربت کو سر کرنے کی کوشش کرنے والی پہلی کوہ پیما مہم 1895ء میں برطانیہ کی تھی۔ مگر وہ اس کی چوٹی کو سرکرنے میں ناکام رہی اور اس کی دو ارکین لاپتہ اور ایک ہلاک ہوگیا۔ اس کے بہت سے لوگوں اسے سر کرنے کی کوشش جاری رکھیں اور اس کوشش میں بہت سے کوہ پیما ناکامی کے ساتھ ساتھ بچاس کے لگ بھگ کوہ پیما اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس لحاظ سے یہ کوہ پیماؤں دشمن، قاتل پہاڑ اور جبل الموت مشہور ہوگیا۔ اس کے باوجود کوہ پیماؤں کا جذبہ سرد نہ ہوگا اور اسے سر کرنے کوششیں جاری رہیں۔ آخر کار اس پہاڑ کی حفاظت کرنے والی روحیں نرم پڑ گئیں اور 1953ء میں اس چوٹی کو آسٹریا کے ایک جرمن کوہ پیما ہرمن بوہلر نے اسے سر کرلیا۔ اس طرح دنیا کہ یہ آٹھویں بلند ترین چوٹی سب سے آخر میں سر ہوگئی اور انسانی عزم کے سامنے سرنگوں ہوگئی۔ یہ پہاڑ جرمن اور جابانیوں کا پسندیدہ پہاڑ اور اس سر کرنے کی کوشش میں مرنے والے لوگوں میں اکثریت جرمنوں اور جاپانیوں کی ہے اور بہت جاپانی اس کوشش میں جان سے ہاتھ بیٹھے ہیں۔
تہذیب و تر تیب
(عبدالمعین انصاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...