گوجرانوالہ اور ڈسکہ کے درمیان واقع یہ خاک آلود قصبہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے!
منیر نیازی نے نظم لکھی تھی۔ خان پور‘ اے خان پور! ہے کوئی شاعر جو آج ترانہ لکھے نندی پور‘ اے نندی پور!
کیا قسمت پائی ہے اس چھوٹے سے مٹیالے قریے نے! میڈیا پر اس کی دھوم ہے! تقریروں میں اس کا ذکر ہے! کالموں‘ اداریوں‘ تجزیوں‘ تبصروں میں اس کی باتیں ہیں! بدنام جو ہوں گے تو بھلا نام نہ ہوگا؟ کوئٹہ سے لے کر گلگت تک‘ گوادر سے لے کر مظفر آباد تک۔ ہر شخص نندی پور کے نام سے واقف ہے! مجید امجد ہوتے تو اپنی شہرۂ آفاق نظم نندی پور کے نام کر دیتے ؎
ترے خیال کے پہلو سے اُٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں سُو بہ سُو ترا غم
چار سوال ہیں‘ صرف چار سوال۔ جن کا جواب مل جائے تو نندی پور کی گتھی سلجھ سکتی ہے۔ مگر نندی پور کی اہمیت اب ان چار سوالوں سے بھی ماورا ہے!
نندی پور ثابت کرتا ہے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے کوئی کام بھی یُدھ کے بغیر مکمل نہیں کر سکتے۔ ہم جو کام بھی کرتے ہیں‘ سلامتی سے نہیں کرتے۔ ہمارے پاس ہزارہا بکریاں ہیں مگر اٹل سچائی یہ ہے کہ کسی ایک بکری کا دودھ بھی مینگنیوں سے پاک نہیں۔ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہم کچھ بنا سکتے ہیں نہ تعمیر کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد کے زیرِ تعمیر ایئرپورٹ کی مثال لے لیجیے۔ آٹھ سال ہو گئے ہیں ہمارا ایئرپورٹ بن رہا ہے اور بنے ہی جا رہا ہے ع
نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پاہے رکاب میں
میٹرو کو دیکھ لیجیے۔ پہلی بارش نے کیا حال کیا اور اُن اربوں روپوں کا تصور کیجیے جو ہر ماہ ریاست اپنے خزانے سے ان منصوبوں کو بخشش کے طور پر ادا کر رہی ہے!
یہ تو بڑے بڑے منصوبے ہیں۔ مری اور ایوبیہ میں جو چیئرلفٹیں لگی ہیں‘ وہ آئے دن سیاحوں سمیت ہوا میں معلق ہو رہی ہوتی ہیں۔ کسی سکول‘ کالج‘ ہسپتال‘ دفتر کی سرکاری عمارت پر غور کر لیجیے۔ تکمیل کے فوراً بعد مرمت شروع ہو جاتی ہے۔ لاہور ایئرپورٹ اتنا غلط بنا کہ اب ملک کے وزیراعظم کو بنفس نفیس اُن اجلاسوں کی صدارت کرنا پڑتی ہے جو نقائص دور کرنے کے لیے منعقد ہوتے ہیں!
جو اثاثے قیام پاکستان کے وقت ہمیں ملے‘ ان کا کیا حال ہے! ریلوے کو دیکھیے کیا تھی اور کیا ہو چکی ہے۔ ہماری قومی ایئرلائن دنیا کے اُن شہروں میں بھی نہیں جا رہی جہاں بنگلہ دیش کی بمان کے جہاز اترتے ہیں اور اُڑتے ہیں۔ جی ٹی ایس (گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس) ایک زمانے میں ہوتی تھی۔ اب اس کی قبر کا وجود بھی کہیں نہیں ہے۔ اس کے بڑے بڑے رقبوں پر ڈپو تھے۔ ان پر کوٹھیاں بن گئی ہیں۔ ارد گرد مٹی‘ کیچڑ‘ غلاظت اور کوڑا کرکٹ!!
نندی پور نے ایک اور بہت بڑی حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ وہ یہ کہ کرپشن‘ نااہلی‘ نالائقی کسی ایک حکومت تک محدود نہیں۔ ساری سیاسی جماعتوں کی حکومتیں اس ضمن میں ایک سی ہیں۔ زوال حکومت پر آیا نہ اہلِ سیاست پر۔ پوری قوم پر آیا ہے۔ پورا معاشرہ سمت کھو چکا ہے اور اعتدال بھی! اس معاشرے سے اب جو کچھ بھی نکلے گا‘ خواہ وہ کوئی حکومت ہے یا کوئی سیاسی جماعت‘ خیر سے خالی ہی ہوگا!
چار سوالوں کے جواب مل جائیں تو نندی پور کی گتھی سلجھ سکتی ہے!
اوّل‘ یہ کنٹریکٹ اُس چینی کمپنی کو کیوں دیا گیا جو پاکستان میں بلیک لسٹ ہو چکی تھی؟ اس کمپنی نے ریلوے کو انجن دیے تھے جو نقائص سے معمور تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے‘ جانتے بوجھتے ہوئے بھی‘ یہ کام اُس کے سپرد کیوں کیا؟
دوم‘ مئی 2014ء میں وزیراعظم نے افتتاح کیا۔ پانچ دن کے بعد پراجیکٹ نے چلنے سے انکار کر دیا۔ کیوں؟
سوم‘ ایک سال تک حکومت کو معلوم ہی نہ ہوا کہ منصوبہ چل نہیں رہا۔ ایک سال بعد نوٹس لیا گیا۔ ایک سال کا عرصہ کیوں لگا؟
چہارم‘ اب موجودہ حکومت نے منصوبے کا نیا پی سی ون منظور کیا ہے۔ لاگت 23 ارب روپے سے بڑھ کر 57 ارب روپے کر دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا 425 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے لیے ستاون ارب روپے خرچ کرنا عقل مندی ہے؟
کیسی قوم ہیں ہم! پانی کا مسئلہ ہم سے نہیں حل ہو رہا۔ ڈیم ہم سے نہیں بن رہے۔ بجلی کا ایک پروجیکٹ تک ہنگامے‘ شور شرابے‘ باہمی طعن و تشنیع‘ الزام اور جوابی الزام کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا! گیس قطر سے درآمد ہوئی‘ یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ درآمد گیس ہوئی ہے یا معمہ درآمد ہوا ہے۔ سیدھے سوالوں کے جواب دینے کو کوئی تیار نہیں! اور تو اور‘ بائیس کروڑ کے ملک میں وزیر خارجہ بننے کے قابل کوئی نہیں! سرحدوں کا یہ حال ہے کہ سپریم کورٹ کے بقول بیس ہزار افراد صرف طورخم بارڈر سے روزانہ آتے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں! چمن بارڈر اس کے علاوہ ہے۔ غیر ملکیوں سے کراچی چھلک رہا ہے۔ لاہور اور اسلام آباد عملی طور پر غیرملکیوں کی بستیوں کے حصار میں آ چکے ہیں! سکولوں کی عمارتیں چھتوں کے بغیر ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے والدین کی کھال اتار کر‘ اس میں بُھس بھر کر‘ گیٹ پر لٹکا رہے ہیں! مسجدیں ریاست کے کنٹرول سے مکمل آزاد ہیں۔ مدارس فنڈنگ کا حساب کتاب دینے کو تیار نہیں۔ یونیورسٹیوں پر سیاسی جماعتوں کا قبضہ ہے۔ یہاں تک کہ اساتذہ کو مارا جاتا ہے اور ٹیلی ویژن پر آ کر سیاسی لیڈر یہ احسان جتاتے ہیں کہ ہوسٹل ہم نے اسی فیصد تو خالی کر دیے تھے! فاعتبروا یا اولی الابصار!! ایچ ای سی کو دیکھ لیجیے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ زرعی تحقیقاتی ادارے کی زمین پر نظریں جمائے شِکرے چاروں طرف کھڑے ہیں۔ پشت اُن کی مضبوط ہے۔ تاجر ٹیکس نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ کاروبار کے اوقات پر بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں!
نندی پور صرف ایک قصبہ نہیں! پورا ملک نندی پور ہے۔ ہم آپ سب نندی پور ہیں! ہماری حکومت‘ ہمارے عوام‘ ہمارے ادارے سب نندی پور ہیں!
نندی پور! تو ہمارے آسمان کا روشن ستارہ ہے! نندی پور! ہم تجھے سلام کرتے ہیں۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“