سر کے بالوں کو خشک کرکے تولیہ میں نے وہیں کرسی کی پشت پر پھیلا دیا۔ کرسی پر پہلے ہی میرا پاجامہ، کرتا اور دو تین کپڑے اور پڑے ہوئے تھے۔ تولیہ کرسی پر ڈال کر فارغ ہی ہوا تھا کہ امی کمرے میں آنکلیں۔
“ارے یہ کیا کرسی کو ندی بیل بنایا ہوا ہے۔ جا یہ توال ( تولیہ) باہر الگنی پر ڈال۔ اور یہ کپڑے بھی کھونٹی پر ٹانگ۔” امی کے پہلے جملے کی سمجھ نہیں آئی۔
اور یہ سردیوں کے دن تھے۔ مجھے صبح سویرےدوستوں کے ساتھ کہیں باہر جانا تھا۔ باہر بہت تیز “ کوئٹہ” کی ہوا چل رہی تھی اور آج سردی بھی کڑاکے کی تھی۔ میں نے سوئیٹر کے اوپر جیکٹ پہن لی۔ سر پر گرم کنٹوپ بھی چڑھا لیا۔ چلتے چلتے کھونٹی پر لٹکے مفلر پر نظر پڑی تو اسے بھی اتار کر گلے میں لٹکا لیا۔
“ یہ ندی بیل بن کر کہاں جارہا ہے” امی نے پوچھا۔
یہ دوسری بار تھا کہ امی سے یہ نام سنا۔ امی اسی طرح کی عجیب و غریب مثالیں اور محاورے وغیرہ استعمال کرتی تھیں۔ میں نے “ندی بیل” کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا کہ ہم اس طرح کے الفاظ اور مثالوں کے عادی ہوگئے تھے۔ البتہ یہ ضرور سمجھ آگیا کہ ندی بیل کوئی ایسا بیل ہوتا ے جس پر بہت ساری چیزیں لاد دی جاتی ہیں۔
میں یہ لفظ کب کا بھول بھال گیا تھا۔ بہت سال بعد ، بلکہ یوں کہئیے کہ تقریباً چالیس سال بعد یہ لفظ ایک ہندوستانی بہاری دوست کے منہ سے سنا۔ دفتر میں کوئی تقریب تھی اور ہم اسٹاف کینٹین کو رنگین پٹیوں اور جھنڈیوں سے سجا رہے تھے۔ ایک ساتھی نے گردن پر بہت ساری پٹیاں اور جھنڈیاں لٹکا رکھی تھیں اور سیڑھی پر چڑھا انہیں دیوار پر لگی کیلوں سے ٹانگ رہا تھا۔ بہاری دوست نے اسے ہی دیکھ کر یہ کہا تھا۔
لیکن بہاری دوست نے “نندی بیل” کہا تھا جب کہ ماں کے منہ سے میں نے “ندی بیل” سنا تھا۔ شاید امی نے نندی بیل ہی کہا ہو اور میں نے ندی بیل سنا ہو۔ یا شاید ندی بیل ہی ہو اور میرے دوست نے اپنے بہاری لہجے میں اسے نندی بیل کہا ہو۔
بہرحال مجھے نندی یا ندی بیل کا سر پیر کچھ بھی نہیں پتہ تھا۔ دوست نے بتایا کہ ہندوؤں کے کسی تہوار میں شاید کسی بیل کو سجایا جاتا ہے اور اس پر رنگ برنگی چادریں، دری یا شال ڈالی جاتی ہے اور سر پر بہت سارے کنگن، گھنٹیاں وغیرہ سجائی جاتی ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ اس پر بہت سارا اضافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔
تھوڑی سی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ ،نندی، بیل ہی ہے اور یہ ہندوؤں کے بھگوان شیو کی سواری ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ بھگوان شیو اور ان کی پتنی یعنی پاروتی کے گھر کی چوکیداری بھی کرتا تھا۔ کتے کو چوکیداری کرتے تو سنا تھا۔ پہلی بار بیل کو چوکیداری کرتے سنا۔ لیکن خادم بہرحال خادم ہے۔ اس سے سواری کا کام لے یا چوکیداری کا، مالک کی مرضی۔ نوکر یعنی بیل کا کام تو سر جھکا کر اطاعت کرنا ہے۔
یہ بیل یعںنی “ نر” یا یوں کہیے کہ گائے کا “ مرد” بے چارہ تا زندگی صرف اسی کام کے لیے ہے یعنی بوجھ ڈھونے کے لئے۔ گھر بار کا، ذمہ داریوں کا، روزگار کمانے کا، خاندان کا، ملک کا اور ساری دنیا کا بوجھ اسی نندی بیل یعنی مرد کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
کتںی عجیب سی بات ہے کہ گئو ماتا یعنی گائے جو بیل کی مادہ ہے اسے تو دیوی کا درجہ حاصل ہے۔ اس کی تکریم کی جاتی ہے۔ پوجا کی جاتی ہے۔ اس کے بھگت اسے پرنام کرتے ہیں، اسے چھو کر ہاتھ پیشانی کو لگاتے ہیں بلکہ اس کے موتر سے بھی مشام جاں معطر کرتے ہیں، نوش فرماتے ہیں ۔ وہ شہر میں، گاؤں میں ، سڑکوں پر، بازاروں میں جہاں چاہے مٹر گشتی کرتی پھرے، جہاں چاہے بیٹھ جائے یا جہاں اس کا دل چاہے حاجات ضرور یہ سے فراغت حاصل کرے، اس کے پجاری اسے کچھ نہیں کہتے۔ مادہ صحیح معنوں میں دیوی ہے، مالکن ہے۔ لیکن یہ غریب بیل جو گائے کا پتی ہے اسے کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ اس بے چارے کو ہل میں جوتا جاتا ے، کولہو میں باندھا جاتا ہے، بیل گاڑی میں جوتا جاتا ہے۔ دکھیا کی زندگی کیا ہے، غم کا دریا ہے۔
اس بیل کی حیثیت ملکہ برطانیہ کے شوہر جیسی ہے۔ اس نے بھی اب اس جیون سے چھٹکارا پالیا ہے کہ یہ جینا بھی کیا جینا۔وہ ملکہ کا خاوند تھا لیکن بادشاہ نہیں تھا۔ ملکہ جہاں جاتی تھی وہ بس اس کے پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے گھومتا رہتا تھا۔ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔
لیکن سچ مانو تو نر کی یعنی مرد کی کل حقیقت یہی ہے چاہے وہ گئو ماتا کا پتی ہو یا انگلستان کی رانی کا گھر والا ہو۔ اس کی اوقات یہی ہے۔ البتہ ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا اس کا فرض منصبی بلکہ وجہ تخلیق بھی ہے۔اس غریب کے لئے ہمدردی کے دو بول بھی کبھی سننے میں نہیں آئے۔ دوسری طرف مادہ یعںی عورت کی مظلومیت کے لئے دنیا جہان کی کتابیں، رسالے، اخبار بھرے پڑے ہیں۔ کتنی تو فلمیں اور بے حساب ڈرامے اسی پر لکھے گئے ہیں۔ ہندوستان پاکستان میں ہر دوسرا تیسرا افسانہ، کہانی، ناول صرف عورتوں کے دکھڑے سناتے ہیں ۔ اس نندی بیل یعنی مرد کے لئے کوئی فلم نہیں بنی، نہ کوئی افسانہ یا ناول کبھی لکھا گیا۔ اگر لکھا گیا ہے تو مجھے بھی بتائیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک گھسا پٹا اور واہیات سا لطیفہ بھی سن لیں۔ خدارا لطیفے کو صرف لطیفہ ہی سمجھا کریں۔ اس میں حرام حلال کے فتوے نہ لگایا کریں نہ کوئی معنی تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ بس یہ کوئی بے تکی سی بات ہوتی ہے لیکن کوئی اور بات سمجھا جاتی ہے۔
تو قصہ کچھ یوں ہے کہ جب دنیا کی تمام مخلوقات کی تخلیق ہوگئی اور ان سب کی عمر طبعی بانٹ دی گئی تو آخر میں صرف ایک ،مرد، ایک گدھا اور ایک کتا باقی رہ گئے۔ (خیال رہے یہاں بات انسان یعنی مرد عورت کی نہیں ، صرف ،مرد، کی ہورہی ہے۔ )۔ پہلے مرد کی باری آئی جسے تیس سال دئے گئے، دوسری باری گدھے کی تھی جسے ساٹھ سال دئے گئے اور آخر میں کتے کی باری تھے جسے نوے سال کی عمر دی گئی۔
اب آپ تو جانتے ہی ہیں کہ انسان سدا کا ناشکرا ہے۔ تیس سال زندگی لے کر اچھا تھا کہ ہنسی خوشی تیس سال کی زندگی بتا کر سکون کی نیند سو رہتا۔ لیکن انسان یعںی مرد کو زبان بھی تو دی ہے، چنانچہ اس نے احتجاج کیا کہ کہنے کو تو میں اشرف المخلوقات ہوں اور مجھے زندگی کتنی ملی، فقط تیس سال، بہت ناانصافی ہے یہ۔
خالق نے گدھے کی زندگی کم کرکے اس میں سے تیس سال ، مرد، کو دے دئے۔ لیکن وہ انسان ہی کیا کہ اتںی آسانی سے مان جائے۔ اور بھلا یہ کوئی انصاف ہے کہ اسے تو ساٹھ سال اور کتے کو نوے سال ملیں۔ کتا، کتے کی سی زندگی نوے سال جی کر کیا کرے گا۔ بات تو سچ تھی، چنانچہ خالق نے کتے کی زندگی سے تیس سال گھٹا کر مرد کو دے دی، اب مرد کی کل طبعی عمر نوے سال ہوگئی اور وہ ہنسی خوشی دنیا میں جیون بتانے آگیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ مرد اپنی زندگی کے پہلے تیس سال تو اپنی زندگی جیتا ہے، ہنستا بولتا ہے، کھیلتا کودتا ہے، پڑھتا لکھتا ہے، سیر تفریح کرتا ہے، عاشقی معشوقی وغیرہ بھی کرلیتا ہے، تیس سال کے بعد اس کی عملی زندگی شروع ہوتی ہے، شادی بیاہ وغیرہ بھی ہوجاتا ہے، گھر والوں کے ساتھ بال بچوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس کے سر آ پڑتا ہے اور وہ دن رات یعنی اگلے تیس سال تک گدھے کی طرح یہ بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ یہ زندگی کے وہ سال ہیں جو اسے گدھے کی زندگی سے ملے تھے اور یہی زندگی وہ گذار رہا ہوتا ہے۔ اس سے اگلے تیس سال جو اسے کتے کی زندگی سے مل تھے، مرد ویسی ہی زندگی جیتا ہے۔ ساٹھ سال بعد اس کی حیثیت وہ نہیں رہتی اور اس کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ پھر بقیہ زندگی دن گنتے ہی گذرتی ہے۔ بس اب لطیفے کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں، آپ خود سمجھدار ہیں البتہ، ساٹھ سال اور ساٹھ سے زیادہ عمر کے لوگوں کو سب کچھ بہت اچھی طرح سمجھ آرہا ہوگا۔
میں مغرب کو زیادہ نہیں جانتا۔ اس کا دعوا صرف ایک ہی ہستی کرسکتی ہے۔ لیکن جتنا جانتا ہوں اس کے مطابق یوروپ اور امریکہ میں لوگ زندگی کا لطف انہی سالوں میں ( یعنی ساٹھ سال کے بعد) ہی اٹھاتے ہیں۔ ویسے بھی وہاں کتے کی زندگی بہت شاندار ہوتی ہے، اپنے جی جان سے زیادہ کتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ خود تو ایک سوکھا سا سینڈویچ، برگر یا فش اینڈ چپس کھاکر زندگی بتا دیتے ہیں لیکن اپنے پالتو کتے کی ہفتہ وار یا ماہوار مانگ پٹی، غذا، طبی معائنے وغیرہ پر خود سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ یہ تو ہمارے کتے ہیں جو بچارے نالیوں اور گھورے پر رل رہے ہوتے ہیں اور آتے جاتے لونڈے انہیں سنگ زنی کا نشانہ بناتے ہیں۔
واپس آتے ہیں اپںے نندی بیل ، یعںی مرد کی زندگی پر۔ جس پر گہوارے سے مرقد تک طرح طرح کے بوجھ لادتے رہتے ہیں۔ لڑکپن میں تعلیم وتربیت کا بوجھ، ڈانٹ ڈپٹ اور پھٹکار اور دھتکار کا بوجھ۔ عملی زندگی میں آجائے تو روزگار کا بوجھ ماں باپ کا خیال رکھنا، بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنا، بھائیوں کو تعلیم دلوانا، بچے ہوجائیں تو ان کی دیکھ ریکھ، تعلیم وتربیت کی ذمہ داریاں اور رہی بیوی تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ “خموشی گفتگوہے، بے زبانی ہے زباں میری”۔ میرے تھوڑے کہے کو بہت جانئیے۔
مغرب میں سٹھیانے کے بعد ہی اصل زندگی شروع ہوتی ہے۔ بڑے میاں اپنی بڑی بی یا اپنی عمر کی “ گرل فرینڈ” کو لے کر دنیا گھومنے نکل جاتے ہیں، لائبریری اور باغ کی سیر یا باغبابی اور مرغباںںی جیسے مشاغل میں وقت گذارتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس عمر تک پہنچنے کی بیشتر کمائی بچوں کی پڑھائی، شادی بیاہ اور مکان بنوانے پر خرچ ہوجاتی ہے۔ وہ مکان جس کے ایک گوشے میں پڑے پڑےایک دن انہیں وہاں جانا ہے جہاں سب کو بالآخر جانا ہی ہے۔ اگر کچھ اپنے لیے پس انداز کرلیا تو پھر بھی خیر ہے ورنہ وہ جن کے لئے ہوئے برباد اگر سیدھے منہ بات بھی کرلیں تو غنیمت جانئیے۔ اب اگر ہاتھ پیروں میں کچھ جان باقی ہے تو پوتوں اور نواسوں کو اسکول سے لانا لے جانا، بازار سے سودا سلف لانا، پودوں کو پاںی دینا، کچرا ٹھکانے لگانا اور اللہ اللہ کرنا ، صرف یہی کچھ رہ جاتا ہے۔
کہنے کو تو بہت کچھ ہے، کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں۔ ہر کوئی اپنے حال سے واقف ہے۔ جس تن لاگے سو تن جانے۔ اگر آپ ساٹھ سال کے ہوگئے ہیں لیکن تیس سال والی زندگی گذار رہے ہیں تو آپ کو بہت مبارک۔ ابھی ساٹھ کے نہیں ہوئے تو خاطر جمع رکھئے۔ آئندہ کی منصوبہ بندی اگر کرسکتے ہیں تو کرلیں وگرنہ آپ کی “ داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”۔
مردوں کو نندی بیل سے تشبیہ دینے پر ہرگز معذرت خواہ نہیں ہوں۔ یہی مردانہ زندگی ہے۔ آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے۔
اسی نے بخشا ہے مجھ کو شعور جینے کا
جو مشکلوں کی گھڑی بار بار آئی ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...