نانا نواسا اور کہانی
جب رات کو سونے سے پہلے میرا نواسا فوزان اصرار کرتا ہے کہ نانا ابو کہانی سنائیں اور کہانی بھی اپنے بچپن کی تو میں سوچتا ہوں نانا دادا لوگ بچوں کے لیے ہمیشہ داستانوی کردار کیوں ہوتے ہیں؟ کیا واقعی وہ زندگی کی کہانیوں کے ہیرو ہوتے ہیں یا محض بچوں کی فنطاسیہ کا کرشمہ یعنی سرابِ خیال یا ایسے علائم و تصورات جنہیں وہ حقیقی خیال کر لیتے ہیں؟ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جیسے بچوں کے لیے وہ کسی دوردراز سیارے کی مخلوق ہوتے ہیں یا اَن دیکھے زمانوں کے کردار جنھیں بچے ہمیشہ کوئی کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے دیکھنا یا سننا چاہتے ہیں۔
میں اپنے بچپن کے یاد رہ جانے والے تمام واقعات فوزان کو سنا چکا ہوں مگر وہ تو ہر شب میرے بچپن کی کوئی نہ کوئی کہانی سننا چاہتا ہے۔ گاؤں کے ایک متوسط زمیندار گھرانے کے بچے کے بچپن میں کیا ہو سکتا تھا! گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں دادیوں، ماسیوں، خالاؤں، چچیوں کی تیز نگاہوں سے بچ بچا کر مٹیوں سے اناج نکالنا اور ہٹی سے پُھلیاں، نگدی اور بتاشے لے کر کھانا، ویرانوں میں جن بھوت ڈھونڈنا، کھیتوں سے خربوزے چوری کرنا، رہٹوں اور ڈلیوں میں ننگا کھلا ہو کر نہانا، کوئلوں سے دیواروں پر تصویریں بنانا، پرندوں کے گھونسلوں سے انڈے اور بچے چوری کرنا، آنکھ مچولی کھیلنا اور کھیتوں میں اور ڈیروں اور خالی چھتوں پر ہونے والی نوعمر محبتوں کو چھپ چھپ کر دیکھنا۔ سردیوں کی لمبی راتوں میں چرخہ کاتتی عورتوں کے درمیان گھس کر بیٹھ جانا۔ نئی سہاگنوں کی سرگوشیوں اور حنائی مہک سے ایک انجانی سی لذت محسوس کرنا اور ان کے آس پاس پھرنا، یہ ساری باتیں آج کے بیکن ہاؤس، روٹس اور سٹی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے ناقابلِ فہم ہیں مگر فوزان کو دلچسپ لگتی ہیں۔ عورتوں کے ذکر پر وہ بڑی معصومیت سے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتا ہے جیسے اس طرح کہانی کا وہ حصہ اسے سنائی اور دکھائی نہ دے رہا ہو۔ ہمارے گاؤں میں سانپ بہت ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کبھی چھت کے شہتیروں اور کڑیوں سے سانپ لٹکا ہوتا تھا، کبھی رسوئی سے کوبرے کی پھنکار سنائی دیتی تھی، کبھی رات کو صحن میں چلتے ہوئے اچانک پاؤں کے نیچے سانپ آ جاتا تھا اور کبھی کسی پانی کی نالی میں اس کی سرسراہٹ سنائی دیتی تھی۔ نیولوں، سانپوں، کتوں اور سیہہ کی لڑائیاں بھی بہت دیکھیں۔ فوزان کو سانپوں، پرندوں اور دیگر جانوروں کے واقعات سننا بہت پسند ہے بشرطیکہ کہانی میں ان کی موت واقع نہ ہو۔
ایک شب جب سنانے کے لیے کوئی واقعہ نہ رہا تو پوچھنے لگا کہ آپ کے نانا ابو تھے؟ میں نے کہا کہ ہاں تھے۔ تو پھر ان کے بچپن کی کہانی سنائیں۔ میں نے کہا کہ ان کا بچپن تو میں نے نہیں دیکھا، ہمیشہ انہیں بڑا ہی دیکھا۔ فوراً چالاکی سے بولا تو وہی نا، آپ تو تب بچے تھے نا، اپنے بچپن کے نانا کی کوئی اسٹوری سنائیں پلیز نانا ابو ورنہ میں آپ کو سونے نہیں دوں گا۔ اس نے نیند بھری آنکھوں سے دھمکی دی۔ میں نے بتایا کہ میرے نانا درویش منش تھے۔ ان کا گاؤں میرے ددھیال سے دو کوس کے فاصلے پر تھا۔ وہ پانچوں نمازیں مسجد میں جا کر ادا کرتے تھے۔ گھر میں گائے بھینس بھی تھی مگر انھوں نے اپنے شغل کے لیے چند ددھاری بکریاں پالی ہوئی تھیں جنھیں چرانے کے لیے قریبی جنگل میں لے جاتے تھے اور اس بہانے سارا سارا دن فطرت سے ہمکلام رہتے تھے۔ جب میں ننھیال میں ہوتا تھا تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک کنواں اور ایک کھیت میں سبزیاں "پالی" ہوئیں تھیں جن کی بالکل بچوں کی طرح دیکھ بھال کرتے تھے۔ میں نے پہلی بار بھنڈی توری کے پھول وہیں دیکھے۔ جتنا وقت گھر میں ہوتے کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے تھے۔ ان کی غذا سادہ اور سونے کے اوقات کم تھے۔
نانا جی کی باتوں سے
میں نے خاموشی سیکھی
اور خدا کی نظمائی ہوئی فطرت سے
آسمانی گیتوں کی بازگشت
جو زمین کی سب سے نچلی تہوں سے پھوٹ رہی تھی
ابھی کسی ارسطو اور کسی نیرودا کو
میں نہیں جانتا تھا
فقط نانا جی تھے اور میں تھا
اور اونچے نیچے کھیت تھے
اور ہوا تھی
اور بادل تھے
اور اچانک امنڈ آنے والی بارش تھی
اور ان سب کے درمیان خواہ مخواہ پھیلی ہوئی
ایک اَن مَنی سی تنہائی تھی
فوزان کے لیے علمِ موجودات سے متعلق یہ باتیں قدرے بوجھل تھیں کہنے لگا وہ تو ٹھیک ہے نانا ابو لیکن کہانی بھی شروع کریں نا ۔۔۔۔۔ اور میں نے کہانی شروع کی۔ میں تیسری جماعت میں تھا۔ کھیتوں پر ٹڈی دَل نے حملہ کر دیا تھا۔ ٹڈی کا آنا کال کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں اسپرے وغیرہ تو تھے نہیں۔ حکومت نے تمام اسکولوں کو حکم نامہ جاری کیا کہ بچوں کی پڑھائی موقوف کر کے انھیں ٹڈی مار مہم پر روانہ کیا جائے۔ ہمارے ایک یک چشم ماسٹر جی تھے بڑے ظالم۔ انہوں نے پانچ پانچ بچوں کی ٹولیاں بنائیں اور ڈنڈا لہراتے ہوئے فی بچہ پانچ پانچ سو ٹڈیاں مارنے کا حکم دے کر روانہ کر دیا۔ ہم کچھ ماسٹر جی کے ڈر سے اور کچھ جوش میں ٹڈیوں کے لشکر کو مارتے، کشتوں کے پشتے لگاتے چلے گئے۔ پتا ہی نہ چلا اور گاؤں سے بہت دور نکل آئے۔ اچانک احساس ہوا کہ ہم صرف دو ہیں، میں اور میرا ایک چچا زاد۔ باقی تینوں کسی اور طرف نکل گئے تھے۔ چلچلاتی دھوپ میں بھوک اور پیاس سے برا حال ہو رہا تھا۔ کپڑے اور جوتے بھی پھٹ چکے تھے۔ اچانک سامنے ننھیالی گاؤں نظر آیا۔ اور ہم اس طرف چل پڑے اور ننھیال پہنچ گئے۔ ہماری حالت دیکھ کر نانی اور نانا پریشان ہو گئے۔ پہلے پانی پلایا اور دیر تک دونوں پنکھا جھلتے رہے۔ پھر نانا ہمیں باری باری غسل خانے تک لے گئے اور گاؤں کے واحد کنویں سے لا کر ذخیرہ کیے ہوئے ٹھنڈے پانی سے نہلایا۔ اس دوران نانی نے کھانا تیار کر لیا۔ نانی کے بنائے ہوئے پراٹھوں، مکھن، لسی، اچار اور آم کے مربے کا وہ ذائقہ آج تک نہیں بھولا اور ہمیں کھاتے ہوئے دیکھ کر نانا کے چہرے پر جو شانتی تھی وہ زندگی میں پھر کہیں نہیں دیکھی۔ اسی نروان تا میں ہم خوابِ نوشیں میں چلے گئے۔ جاگے تو سہ پہر ڈھل چکی تھی۔ نانا نے ایک آدمی کے ساتھ ہمیں ہمارے گاؤں روانہ کیا۔
فوزان نے سوتے سوتے اگلا سوال داغ دیا۔ "آپ کی امی کے نانا ابو تھے؟" "امی ابو کی طرح ہر بچے کے نانا نانی اور دادا دادی ہوتے ہیں" میں نے اپنے تئیں اسے شافی جواب دیا۔ "اللہ میاں کے بھی؟" "اللہ میاں بچہ نہیں ہوتا" میں نے کہا۔ "تو پھر اللہ میاں کتنا بڑا ہوتا ہے؟" وہ مجھے لاجواب کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ دیکھو میری امی کے نانا بڑے بہادر تھے۔ وہ لوگ حقیقی ہیرو تھے۔ ان کی زندگیاں کسی مہم جوئی سے کم نہیں ہوتی تھیں۔ یہ سنتے ہی فوزان کی نیند سے بوجھل آنکھوں میں یکدم چمک آ گئی۔ میں اسے پھر کہانی کی طرف لے آیا۔
امی جی کے نانا کا گاؤں میرے ننھیالی گاؤں سے پانچ چھ کوس کے فاصلے پر تھا۔ ان کی نالا بھمبھر کے کنارے کچھ زمین تھی جہاں وہ ہر سال خربوزے کاشت کرتے تھے۔ وہ تہبند باندھتے تھے، قمیص کم ہی پہنتے تھے، کاندھے پر ایک چادر اور ہاتھ میں ڈانگ یا کلہاڑی ضرور رکھتے تھے۔ خربوزوں کے موسم میں ان کا معمول تھا کہ ہر چوتھے پانچویں روز چادر میں خربوزے بھر کر اپنی بیٹی یعنی میری نانی کو پیدل دینے جاتے تھے۔ وہ بعد دوپہر چلتے اور شام کے قریب بیٹی کے گھر پہنچتے، خربوزے چارپائی پر ڈھیر کرتے اور پانی کا ایک پیالہ پی کر واپس چل پڑتے۔ بیٹی کے گھر رکنا یا کھانا پینا معیوب سمجھتے تھے۔ ایک بار خربوزے دینے آئے تو شام ڈھل چکی تھی۔ اُن دنوں ایک بھیڑنی کے قصے بڑے مشہور تھے۔ رات کو کئی راہگیروں پر حملہ کر کے انھیں زخمی کر چکی تھی۔ اس لیے نانی نے کہا کہ رات کو نہ جائیں مبادہ بھیڑنی انھیں نقصان پہنچائے۔ یہ سن کر ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی اور کلہاڑی پر ان کے ہاتھوں کی گرفت سخت ہو گئی جیسے اندر ہی اندر انھوں نے کوئی فیصلہ کر لیا تھا۔ امی بتاتی تھیں کہ انھوں نے جلدی جلدی پانی پیا، اپنے ایک ہاتھ پر چادر کو مضبوطی سے لپیٹا، دوسرے ہاتھ میں کلہاڑی پکڑی اور تیزی سے واپس روانہ ہو گئے۔ راستے میں بھیڑنی نے سچ مچ ان پر حملہ کر دیا۔ انھوں نے چادر والا ہاتھ آگے کیا۔ جونہی بھیڑنی نے اس پر اپنے دانت گاڑے دوسرے ہاتھ سے کلہاڑی کے زوردار وار سے اس کی گردن کاٹ دی۔ اگلے دن سارے علاقے میں ان کا یہ کارنامہ مشہور ہوگیا۔ میں نے فاتح نظروں سے فوزان کی طرف دیکھا جیسے بھیڑنی کو امی کے نانا نے نہیں میں نے مارا ہو، لیکن وہ نیند کی جھپکی میں تھا۔ اچھا ہی ہوا ورنہ وہ کلہاڑی اٹھتے ہی چیخ اٹھتا نانا ابو اسے مارنا نہیں اور ممکن ہے اس کی آواز سے امی کے نانا کا اٹھا ہوا ہاتھ رک جاتا اور بھیڑنی اصل میں تو نہیں کہانی میں انہیں زخمی کر دیتی۔
میں سوچنے لگا کہ وہ لوگ واقعی بہادر تھے جو دوسروں کا سفر اور راستے محفوظ بنانے کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے تھے جبکہ ہم جیسے نظریاتی بزدل، قانون پسند پُرامن شریف شہری، معیشت، سماج اور صارفیت کے جبر میں جکڑے ہوئے اپنے جائز حقوق کا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔ انسانی بھیڑیے اور بھیڑنیاں ہمیں نوچتی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے وسوسوں اور سوچوں سے بے نیاز فوزان ہونٹوں پہ ایک ملکوتی مسکراہٹ لیے گہری نیند سو رہا تھا۔
( مطبوعہ " تسطیر" اگست 2017ء )
یہ افسانہ فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔